ملک کو اکٹھا کرنے والا میجک
یہ نرگسیت بھی کیاغضب کی بیماری ہے کہ اپنی بیماری کو اپنی صفت سمجھ لیتاہے اور اپنے ہرمعالج پر دشمن کا گمان کرتاہے
کوئی کچھ بھی کہے لیکن حضرت کپتان صاحب کی بے پناہ ''تخلیقی صلاحیت '' کی داد دینا ہی پڑے گی،ایسی ایسی ''کوڑیاں'' اور اتنی دور دور سے لاتے ہیں کہ خود ''کوڑیوں'' کو بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ ہم کہاں کی ہیں اورکہاں لائی گئی ہیں مثلاً اس تازہ ترین کوڑی کولے لیجیے۔''مجھے رانا ثنا اللہ سے سیکیورٹی خطرہ ہے۔ مجھے ختم کریں گے، تو ملک کو ''اکٹھاکون'' کرے گا،یعنی
حق حسن محبت کا اداکون کرے گا
جب ہم ہی نہ ہوں گے تو وفا کون کرے گا
ہم حیران اس بات پر ہے کہ جناب کپتان صاحب کا دماغ ہے یا نئی نئی تخلیقات کا کارخانہ ،کہ ہر روز ان کو اپنے بارے میں نیا نیا انکشاف ہوتا ہے ۔
لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا
ہرروز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور
بلکہ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہر روزخود کو بھی اپنے اندر کچھ نئی خوبی دکھائی دیتی ہے مثلاً اب تک ان کو اپنے اندر جو جو خوبیاں دکھائی دیتی رہی ہیں ان میں پہلی خوبی یہ تھی کہ وزیراعظم بننا میراحق ہے، پھر کہا نوے دن میں پاکستان کو اوراس کے نظام کو ایسا تبدیل کرونگا کہ یہ خود کو بھی پہچان نہیں پائے گا۔ ویسے یہ تو تقریباً ہو ہی چکاہے کیوںکہ آج کل نہ تو پاکستان خود کو پہچان رہا ہے اور نہ پاکستانی۔
میں کون ہوں اے ہم نفسوسوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
اس کے بعد صادق و امین بنے، ریاست مدینہ بنا اوراب۔ مجھے ختم کریں گے تو ملک کو اکٹھا کون کرے گا، یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کو یہ خبر کہاں سے ملی کہ ملک کو صرف اورصرف وہی اکٹھا کرسکتے ہیں اورکوئی نہیں ،اس معاملے پر ہم نے غورکے حوض میں غوطے لگائے اور تحقیق کا ٹٹو دوڑایا، تو بات کسی حد ٹھیک بھی ہے کیوںکہ موصوف ''اکٹھا'' کرنے کا ماحول بڑی تیزی سے بنا رہے ہیں۔
اکٹھا کرنے کے لیے پہلے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ضروری ہوتا ہے یعنی تعمیر سے پہلے تخریب لازمی ہے، نئی عمارت تب بنتی ہے جب پرانی عمارت کو گرا دیاجائے چنانچہ اگر دیکھا جائے تو موصوف جب سے تشریف لائے ہیں ایک شور بپا ہے ،خانہ دل میں ہرروزکوئی نہ کوئی دیوارگرتی رہتی ہے، ہر ہرادارے ہر اصول ہر اخلاق اور ہر رشتے تہس نہس کردیے ہیں یعنی اس ملک میں ایسا کچھ باقی بچا ہی نہیں جسے وہ ''اکٹھا'' نہیں کر رہے ہوں، ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ذریعے یا ٹکڑے ٹکڑے نہیںکررہے ہیں اکٹھا کرنے کے لیے ۔
ٹکڑے اٹھا رہے ہیں مرے دل کو توڑ کر
شاید وہ دل بنائیں گے ٹکڑوں کو جوڑکر
یہ تو ایک مستند اورتاریخی حقیقت ہے کہ اکٹھا اس چیز کو کیاجاتاہے جو حشر اور ٹکڑے ٹکڑے ہو، اگر ایسا نہیں تو ''اکٹھا'' کا مطلب کیا،اکٹھے کو تو اکٹھا نہیں کیا جاتا، اس لیے موصوف آج کل اسی کام میں لگے ہوئے ہیں جو اکٹھا ہونے سے پہلے ضروری ہوتاہے، آپ گندم سے یونہی روٹی نہیں بناسکتے،پہلے اسے پیس لیں گے پھرگوندھیں گے اور پھر پیڑا بنائیں گے پھر لگائیں گے تب روٹی کیک یا بسکٹ وغیرہ بنائیں گے اور اس بات کو احمد فراز اوراقبال بانو نے بھی بیان کیاہے کہ ؎
اک یہ بھی تو اندازعلاج غم جاں ہے
اے چارہ گرودرد بڑھا کیوں نہیں دیتے
اورمرشد کا تو پکاپکا عقیدہ یہی ہے کہ دردکا حد سے گزرنا ہے دواہوجانا۔یارنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتاہے رنج۔عید سے پہلے روزے رکھنا بھی تو ضروری ہیں۔
رانا ثناء اللہ اور ان کے درمیان جو کچھ چل رہا ہے اس کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن یہ ''بڑ''کہ جب میں نہ رہوں گا تو ملک کو ''اکٹھا'' کون کرے گا کچھ زیادہ نہیں ہوگیا ہے ؟گویا اس ملک کے باقی پچیس کروڑ لوگ بس ''ایویں''ہیں، ان میں ایسا ایلفی یا میجک یا صمد بانڈ کوئی بھی نہیں جو ملک کو جوڑسکے، اورپھر یہ جو رانا ثناء اللہ نام کے شخص کو اپنے ''ختم'' کا ذمے دار ٹھہرارہے ہیں کیاکوئی پاگل ہے کہ سالم پاکستان میں وزیر داخلہ ہے اور خواہ مخواہ ملک کے فیوی کول،ایلفی اور میجک کو ختم کرے پھر تو اسے کوئی پٹواری بھی نہیں بنائے گا گویا جس شاخ پر بیٹھا ہے اسی کو کاٹ رہا ہے۔
یہ نرگسیت بھی کیاغضب کی بیماری ہے کہ اپنی بیماری کو اپنی صفت سمجھ لیتاہے اوراپنے ہرمعالج پر دشمن کا گمان کرتاہے۔ ویسے تو ان عالی جناب یعنی ہمہ صفت موصوف کی پوری ذات ہی ایک معمہ اور چستان ہے لیکن سب سے زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ ایک طرف تو وہ ''نالاں'' ہے کہ میں بے اختیار تھا ورنہ میں شیرشاہ سوری ،شہنشاہ اکبر،اورنگزیب اور محمودغزنوی بن جاتا اوردوسری طرف پھر اسی بے اختیار منصب کے لیے بے قراری سی بے قراری ہے۔