اس نظام کو سمجھو
کیا کسی اسلامی ریاست میں اس طرح کا دہرا قانون اور نظام کبھی ہوا ہے
ہم اور آپ جس سیاسی نظام میں سانس لے رہے ہیں یہ وہ نظام نہیں ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا جس کی تعبیر کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں ہمارا پیارا وطن پاکستان معرض وجود میں آیا۔
یہ ایک لمبی داستان ہے کہ پھر ایسا کیا ہوا کہ پاکستان حاصل کرنے کے مقاصد کیوں کر پورے نہیں ہوئے یا نہیں کیے گئے ؟ یہاں ہم ان اہم تاریخی واقعات کا تجزیہ پیش کرنے کی سعی کررہے ہیں جن کی روشنی میں یہ بات آپ کے ذہنوں میں آشکار ہوجائے گی کہ تکمیل پاکستان کیوں کر ممکن نہ ہوسکا ؟
قائد اعظم کی رحلت ، لیاقت علی خان کی شہادت اور پھر پے درپے تحریک پاکستان کے رہنماؤں کے ساتھ ناروا سلوک کرنا اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم پر کس نے یہ سیاسی نظام لاگو کیا ہے ؟ جس کے کوکھ سے نہ ختم ہونے والے عوامی مسائل جنم لیتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنا آدھا ملک بھی گنوا چکے ہیں۔
اس نظام کو سمجھنے کے لیے کالونیل دور میں جانا ہوگا جب ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی پہلے تجارتی روپ میں آئی اور بعد ازاں برطانوی سامراج کی شکل میں متنج ہوئی۔ ایسٹ کمپنی نے ایک طرف تجارتی معاہدے کیے دوسری طرف خام مال کی لوٹ کھسوٹ کے لیے ٹھگوں، نوسربازوں، وطن فروشوں اور غداروں کی کھیپ تیار کرنا شروع کی جو کمپنی کو خام مال کی فراہمی کے لیے چوری، ڈاکے، قتل و غارت گری تک سے گریز نہیں کر رہے تھے بلکہ کمپنی انھیں اس کام کے لیے باقاعدہ اسلحہ، تربیت، سیکیورٹی اور اہم معلومات دے رہی تھی۔
یہ چور، لٹیرے، ٹھگ اور وطن فروش چند ٹکوں کی خاطر ملک سے سونا چاندی، ہیرے جواہرات، اجناس اور مال و دولت دیہات شہروں، قافلوں اور رجواڑوں سے لوٹ کر کمپنی کو پہنچاتے تھے اور کمپنی انھیں انعام و اکرام سے نواز کر مزید غداروں کی فوج اکھٹی کرنے کا راستہ ہموار کر رہی تھی۔
غداروں کی اسی فوج کو استعمال کرکے کمپنی نے ہندوستانی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور مزید قبضوں کے لیے غداروں کی فوج کو خبررسانی اور مخبری پر مامور کیا، جو جو علاقے کمپنی کے قبضے میں آتے گئے وہاں کمپنی نے اپنے وفاداروں کو بسانا شروع کیا۔ خاص طور پر جو جتنا بڑا غدار، ڈاکو، وطن فروش اور مخبر تھا اسے اتنا ہی بڑا خطاب دیا گیا اور اتنی ہی بڑی جاگیریں اور مراعات دی گئیں۔
یوں چوروں، نو سر بازوں، ٹھگوں، وطن فروشوں، غداروں کے لیے غداری اور وطن فروشی نہ صرف منافع بخش پیشہ ٹھہرا بلکہ ان کے ''سنہری'' مستقبل کا ضامن بھی بن گیا۔ یہاں تک 1857کی جنگ میں انھی غداروں کی فوج کی مدد سے فرنگی جنگ جیتنے اور ملک اور عوام کو غلام بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد آزادی کی جنگ لڑنے والے محب وطنوں کی زمینوں پر، ان کے روزگار پر، ان کی تجارت پر، ان کی زراعت پر، ان کی تاریخ اور شناخت پر وہ لوگ قابض ہوگئے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تربیت یافتہ وطن فروش اور غدار تھے۔ ان غاصبوں کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی ادارے قائم کیے گئے، جن میں پولیس کا ادارہ بھی شامل تھا جس کا اصل کام انگریز کے وفاداروں کا تحفظ کرنا اور محب وطن مزاحمت کاروں کی مزاحمت کو دبانا تھا۔
اسی طرح عدالتی نظام جو انگریزوں نے قائم کیا اس میں انگریز کے وفاداروں کے لیے الگ قانون تھا جب کہ ان کے مخالفین کے لیے الگ قانون تھا۔ انگریز کے وفادار بڑے سے بڑا جرم بھی کیوں نہ کرلیں اول تو پکڑے نہ جاتے تھے اگر عوامی دباؤ یا رکھ رکھائو کے لیے گرفتار کر بھی لیے جائیں تو انھیں جیلوں میں عام قیدیوں کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق بڑے شاہانہ انداز میں رکھا جاتا تھا۔
بالکل وہی قانون آج تک ہماری جیلوں میں نافذ ہے کہ ''اے کلاس'' کے لیے اعلیٰ سہولیات، ''بی کلاس'' کے لیے ذرا کم سہولیات جب کہ عام آدمی کے لیے فرش، چٹائی اور دال روٹی وغیرہ۔
قانون، ادارے، عدالتیں اور پورا نظام جس طرح کالونیل دور میں استعمار کے چہیتوں کو سہولیات فراہم کرتے تھے اسی طرح آج بھی یہ نظام طبقہ اشرافیہ کی جنت ہے جب کہ عام آدمی کے لیے جہنم سے بدتر ہے۔ حقیقت میں یہی پوسٹ کالونیل ازم ہے اور اس کے وہی اہداف و مقاصد ہوتے ہیں جو کالونیل دور میں عالمی استعماری قوتوں کے مقاصد تھے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہاں استعماری قوتیں براہ راست عوام الناس کو غلام بناتی ہیں جب کہ پوسٹ کالونیل ازم میں عوام کو استعمار کے چند سو مہروں کے ذریعے غلام رکھا جاتا ہے۔
کالونیل دور کی طرح ہی پوسٹ کالونیل دور میں بھی عالمی طاقتیں اپنے تربیت یافتہ طبقات کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتی ہیں، بدلے میں سرمایہ دارانہ نظام ان طبقات کو آئینی اور قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اب اس کو ہماری غلطی کہا جائے، جہالت، لاعلمی یا منافقت کہ ہم نے نظام وہی سامراجی رہنے دیا اور اس پر لیبل ''اسلامی'' کا لگا دیا۔
ہماری عدالتوں، حکومتی ایوانوں اور اکثر اداروں کی عمارات پر بڑے حروف میں کلمہ طیبہ لکھا نظر آتا ہے لیکن اندر فیصلے کالونیل طاقتوں کے بنائے ہوئے دہرے نظام اور قانون کے تحت ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے اسی طرح کلمہ پڑھا ہوا ہے کیوںکہ شق نمبر 1کے مطابق پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ شق 2-A کہتی ہے کہ مملکت خدا داد پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے مگر حقیقت میں یہاں حاکمیت چند وڈیروں، سرمایہ داروں اور انگریز کے پالے ہوئے چند خاندانوں کی ہے۔
آئین کی شق نمبر 227 کے مطابق یہاں اسلام سے متصادم یا متضاد کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ حکومت جلدازجلد سود کو ختم کرنے کی پابند ہوگی مگر پچھتر سال سے سودی نظام معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ حلف اُٹھاتے وقت اور گواہی دیتے وقت قرآن پر حلف اٹھایا جاتا ہے لیکن پیسے لے کر جھوٹی گواہیاں اور غیر اسلامی قوانین کی حمایت میں ووٹ بھی دیے جاتے ہیں۔
آئین پاکستان کی شق 11 غلامی اور جبری مشقت کی ممانعت کرتی ہے لیکن دوسری طرف ہمارے دیہاتوں میں سیکڑوں نجی جیلوں اور ان میں جنم لینے والی ظلم و جبر کی داستانیں میڈیا کی زینت بنتی ہیں اور آج تک اس جبری غلامی کو روکنے کے لیے کوئی باقاعدہ اقدام نہیںکیا گیا اور نہ ہی جبری قیدومشقت کا جرم ثابت ہوجانے کے باوجود آج تک کسی وڈیرے، جاگیردار کو سزا ہوئی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی اسلامی ریاست میں اس طرح کا دہرا قانون اور نظام کبھی ہوا ہے کہ ظاہر میں کچھ ہو اور باطن میں کچھ، دکھاوا کچھ اور ہو اور عمل میں کچھ اور غریب کے لیے قانون کچھ اور ہو اور امیر کے لیے کچھ اور ہو۔ جہاں عام آدمی کی آزادی بھی جیل سے بدتر بنا دی جائے اور اشرافیہ کے لیے جیلوں میں بھی آزادی اور عیاشی کی ہر سہولت ہو۔
ذرا سوچیے کہ کالونیل دور کے اس دہرے اور طبقاتی نظام پر صرف ''اسلامی'' کا ٹائٹل لگا دینے سے اور پارلیمنٹ اور عدالتوں کی عمارات پر بڑے حروف میں کلمہ طیبہ لکھ دینے سے یہ طبقاتی اور استحصالی نظام کیا اسلامی یا عادلانہ ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں! بلکہ ہمیں اگر واقعی عادلانہ نظام قائم کرنا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ سامراجی طاقتوں کے کالونیل مقاصد کے تحت قائم کیے گئے اس طبقاتی، استحصالی اور دہرے نظام کی پوری عمارت کو منہدم کرکے اس کی جگہ عدل و مساوات اور بھائی چارے کے بنیادی اصولوں کے مطابق انسانی فلاح کے نظام کی عمارت کھڑی کی جائے تب ہی حقیقی آزادی، مساوات اور عدل کے راستے کھلیں گے، ورنہ کالونیل دور کی طرح پوسٹ کالونیل دور میں بھی ایک طبقے کے لیے معاشرہ جنت اور دوسرے کے لیے جہنم بنا رہے گا اور دوسری طرف پوسٹ کالونیل ازم کے تحت مغربی ایجنڈا اور عالمی طاقتوں کا غلبہ بدستور مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔