آمریت و عصر حاضر
حکومت خوب گرفتاریاں کر رہی ہے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پولیس کو استعمال کر رہی ہے
یہ قول بیان تو اس طرح ہی کیا جاتا ہے کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے، آمریت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ آمریت میں تحریر و تقریر یا دوسرے الفاظ میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوتی اور لوگوں کے حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں چار بار آمریت مسلط ہوئی اور ہماری 75 سالہ ملکی تاریخ میں 32 سال آمر حکمرانوں نے حکومت کی۔ آج ہم تذکرہ کریں گے اولین آمر حکمران محمد ایوب خان کا۔
یہ ضرور ہے کہ اکتوبر 1951 میں پاکستان کے اولین وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب کی شہادت کے بعد سیاستدانوں کی باہمی چپقلش کے باعث کوئی مستحکم حکومت قائم نہ ہو سکی اور گورنر جنرل غلام محمد و صدر اسکندر مرزا یکے بعد دیگرے ایک کے بعد ایک وزیر اعظم کو فارغ کرتے رہے اور کوئی بھی وزیر اعظم مستقل بنیادوں پر اپنی ذمے داریاں ادا نہ کرسکا، یہ ضرور ہوا کہ 1956 میں ملک میں ایک آئین پاس ہوا، اس آئین کے تحت گورنر جنرل کا عہدہ صدر کا عہدہ قرار پایا اور اسکندر مرزا ملک کے اولین صدر بن گئے۔
اسی آئین کے تحت ملک میں عام انتخابات ہوئے یوں امید ہوچلی تھی کہ ملک میں ایک پائیدار جمہوریت قائم ہو جاتی مگر ان تمام حالات میں اس وقت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ملک کے طول و عرض میں مارشل لا لگا دیا، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے اس وقت فوج کے سربراہ کا عہدہ فیلڈ مارشل کہلاتا تھا، بعدازاں 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد یہ عہدہ چیف آف آرمی اسٹاف کہلایا، دوسری بات موجودہ بنگلہ دیش آزادی سے لے کر 1971 تک مشرقی پاکستان کہلاتا تھا، مارشل لا کا نفاذ مشرقی پاکستان میں بھی کیا گیا، ایوبی آمریت میں وہ تمام خرابیاں موجود تھیں جو کہ کسی بھی آمریت کا خاصا ہوا کرتی ہیں یہی سب ایوبی آمریت کے دور میں ہو رہا تھا۔
اس دور میں فقط اطلاعات و نشریات کا ایک ہی ذریعہ تھا، وہ تھا پریس میڈیا۔ عرض کرتے چلیں کہ ایوبی آمریت 28 اکتوبر 1958 کو قائم ہوئی چنانچہ ایوبی دور میں سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ اخبارات و جرائد کو قابو کیا گیا جنھوں نے ان احکامات کو تسلیم کیا وہ منظور نظر قرار پائے جنھوں نے ان احکامات کو تسلیم کرنے سے انحراف کیا وہ ناپسندیدہ قرار پائے اور ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ جو آمر حکمران کرتے ہیں وہی سلوک ان ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ کیا گیا۔
یہی سلوک سیاسی کارکنوں کے ساتھ کیا گیا، بالخصوص ترقی پسند رہنما 32 سالہ حسن ناصر کو کراچی سے گرفتار کیا اور شاہی قلعہ لاہور منتقل کردیا گیا جہاں بدترین تشدد کے باعث 13 نومبر 1960 کو حسن ناصر اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
اسی دور میں تمام تر عوامی احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے ون یونٹ قائم کردیا گیا گویا تمام صوبوں کی پہچان ختم، اب پورا ملک مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان ہی کہلانے لگا، دونوں جگہ گورنرز امور حکومت چلانے لگے مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمنعم و مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ بنا دیے گئے بالخصوص اگر نواب کالا باغ کا تذکرہ کریں تو ان کا طرز گفتگو ہی ایسا تھا کہ وہ اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہتے کہ میں وہ ہوں اگر دائیں جانب سے مونچھوں کو تاؤ دوں تو مشرقی پاکستان ہلا کے رکھ دوں اور اگر بائیں جانب سے مونچھوں کو تاؤ دوں تو مغربی پاکستان ہل جائے۔ ایوبی آمریت میں ایک آئین بھی نافذ ہوا۔
1962 میں اس آئین کو لیگل فریم ورک آرڈر کا نام دیا گیا، ملک میں بی ڈی ممبران کے انتخابات ہوئے اور 80 ہزار اس بلدیاتی نظام کے لیے ممبران منتخب ہوئے بعدازاں 1964 میں صدارتی انتخابات کا اعلان ہوا اور فیلڈ مارشل ایوب خان ان کے وزرا و متحدہ اپوزیشن کی نامزد کردہ صدارتی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان انتخابی معرکہ ہوا۔
اس صدارتی انتخاب میں حق رائے دہی کا حق عوام کو حاصل نہ تھا بلکہ 80 ہزار بی ڈی ممبران کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ کرسکیں گے، اس انتخابی مہم کے دوران اگرچہ محترمہ فاطمہ جناح نے عوامی مسائل پر خوب تقاریر کیں ان کے ساتھ عوامی شاعر حبیب جالب ہر جلسہ عام میں ہوتے اور اپنا انقلابی کلام اپنے مخصوص انداز میں حاضرین کو سناتے تو وہ جھوم جھوم جاتے بالخصوص نظم دستور پر سنا ہے ایوان اقتدار میں گویا زلزلہ برپا ہو جاتا۔
دوسری جانب ایوبی دور کے وزرا محترمہ فاطمہ جناح کی کردار کشی کرتے وقت مادر ملت کے بارے میں اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیا جاتا کہ وہ بانی پاکستان محترم قائد اعظم کی حقیقی ہمشیرہ ہیں۔ یہ صدارتی انتخاب 5 جنوری 1965 کو ہوا، عام رائے یہ تھی کہ محترمہ فاطمہ جناح یہ انتخاب جیت جائیں گی، مگر یہ خبر شام کے وقت حیرت و افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ محمد ایوب خان صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوگئے ہیں، اگرچہ ایوبی دور کی صنعتی ترقی کا بہت چرچہ کیا گیا مگر جو بھی صنعتی ترقی ہوئی وہ ملک کے مغربی حصے میں ہوئی۔اسی دور میں پاک بھارت جنگ بھی 1965 میں ستمبر کے مہینے میں لڑی گئی۔
بلاشبہ بھارت جنگ کے موڈ میں تھا مگر لازم تھا کہ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے اس جنگ سے گریز کرتا اور بھارتی جنگی عزائم کو اقوام متحدہ میں بے نقاب کرتا، مگر ایسا نہ ہو سکا، دونوں جانب وسائل کا بے دریغ استعمال ہوا، اگر یہ وسائل عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتے تو بہتر تھا، یوں بھی جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی، بلکہ جنگ خود مسائل پیدا کرتی ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود 1968 میں ماہ اکتوبر میں ایوبی آمریت کے دس برس مکمل ہونے پر عظیم الشان جشن کا اہتمام کیا گیا۔
محمد ایوب خان کے ارد گرد خوشامدیوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ان خوشامدیوں نے صدر کو قائل کرلیا کہ لوگ فقط آپ کے شب و روز قصیدے پڑھتے ہیں بلکہ خلفائے راشدین کے بعد آپ ہی کے طرز حکومت کی مثال دی جاتی ہے چنانچہ ان حالات میں دس سالہ آمرانہ دور کے مکمل ہونے پر جشن نے عوامی غیظ و غضب پر جلتی پر تیل کا کام کیا ملک کے دونوں حصوں کے لوگ حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے میدان عمل میں آگئے، یوں تو تمام شعبوں کے لوگ اس احتجاج میں شریک ہوگئے تھے مگر ہراول دستے کا کردار اس وقت کے نوجوانوں بالخصوص طلبا نے ادا کیا، یہ احتجاج اتنا شدید تھا کہ آمر ایوب خان جوکہ دس سالہ حکومتی جشن منا چکے تھے، 25 مارچ 1969 کو صدارتی عہدے سے دستبردار ہوگئے مگر جاتے ہوئے حکومت عوامی نمایندوں کے حوالے کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردی۔
یہ ذکر ہے 25 مارچ 1969 کا۔ آمر یحییٰ خان نے 1970 میں عام انتخابات کروائے لیکن انتقال اقتدار ممکن نہ ہو سکا۔ نتیجہ ملک دولخت ہو گیا۔ 16 دسمبر 1971 کو دوسری جانب ایوب خان اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد اپنے آبائی گاؤں ریحانہ تشریف لے گئے چند برس بعد اپنے گاؤں میں فوت ہوگئے وہیں دفن ہوگئے۔
اس وقت موجودہ حکومت و پاکستان تحریک انصاف کے درمیان شدید کشمکش جاری ہے۔ حکومت خوب گرفتاریاں کر رہی ہے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پولیس کو استعمال کر رہی ہے دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان ہیں جو کہ پولیس کے مدمقابل ہیں، ان حالات میں اندیشہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے لمحہ فکریہ تو ہے۔