کراچی وفادار بھی دلدار بھی
ایسی مایوسی اور بے چینی کے دور میں ملک کے معاشی مسائل کا حل اگر کوئی رہنما بتاتا ہے تو اس کا منہ چومنے کو جی چاہتا ہے
کراچی سے پشاور تک قانون شکن اور ملک کو نقصان پہنچانے والے لوگ سڑکوں گلیوں کے علاوہ عدالتوں کے سامنے اپنی تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
پولیس بھی ان سامنے بے بس نظر آتی ہے انھیں زد و کوب کرنے سرکاری گاڑیوں کو ساز و سامان سمیت جلانے کی اطلاعات ہیں۔ گوکہ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کا معاشی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
اس خطرناک صورت حال کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے بعض لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ملک پہلے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے تو پھر اب اس دلدل سے ملک کو نکالنے کے لیے سب کو مل جل کر ہی کوشش کرنا ہوں گی۔
یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی ملک مالی مشکلات میں پھنس جاتا ہے تو قرض لینے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کی ہر فرمائش کو پورا کرنا ہوتا ہے ۔ موجودہ دگرگوں حالات میں ملک کو معاشی پٹری پر لانے کے لیے حکومت کو تو اپنی ذمے داریوں کو نبھانا ہی ہوگا ساتھ ہی ملک میں سیاسی استحکام کے لیے حزب اختلاف کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا مگر یہاں تو حزب اختلاف ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے میں مصروف ہے۔
لگتا ہے اسے حکومت چلانے والوں سے ذاتی رنجش کا سامنا ہے جب کہ ایک جمہوری ملک میں سیاسی رقابت تو ہو سکتی ہے مگر کسی طرح بھی ذاتی رقابت کا وجود نہیں ہوتا۔ ایسے نازک وقت میں یہ کہا جائے کہ ہم چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے تو گویا کہ کھلم کھلا غیر جمہوری رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ، اگر یہی حالات رہے تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ملک کی بدتر معاشی صورت حال برآمدات اور درآمدات پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ صنعتی ادارے اپنی پیداوار روکنے کے درپے ہیں۔ ملک کو ڈالر کی قلت کا سامنا ہے۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے ہر طرف مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ ایسی مایوسی اور بے چینی کے دور میں ملک کے معاشی مسائل کا حل اگر کوئی رہنما بتاتا ہے تو اس کا منہ چومنے کو جی چاہتا ہے۔
قوم کو یہ امید اور ہمت افزا پیغام ایم کیو ایم پاکستان کے کراچی میں 18 مارچ کو منعقد ہونیوالے جلسے میں دیا گیا ہے۔ یہ جلسہ ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا اس جلسے میں بلامبالغہ اتنی بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ یہ کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ثابت ہوا ہے۔ اس جلسے کی یہ خاصیت رہی کہ اس میں کراچی میں آباد تمام ہی کمیونٹیز نے جوق در جوق شرکت کی۔
اس جلسے میں پارٹی کے سربراہ کنوینر خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں جاری مایوسی کے ماحول کو خوشگوار بنانے کا حل یہ ہے کہ کراچی کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے اس سے دشمنوں جیسا سلوک ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے۔ کراچی کے عوام اور بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنایا جائے۔
جب کراچی ملک کی معیشت کا انجن تو پھر اسے نظرانداز کرنا کیا معنی رکھتا ہے جب اس سے ناانصافی کا ازالہ کیا جائے گا تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ملک کی معیشت کا پہیہ کبھی نہیں رکے گا۔ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر رہے گا اور مایوسی میں ڈوبے عوام حقیقی خوشگوار زندگی سے ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ کراچی وفادار بھی ہے اور دلدار بھی ہے۔
انھوں نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کو نظر انداز کیے جانے کو ملک کے لیے خطرناک قرار دیا تاہم ان بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے عوام نے کم ہی دلچسپی لی اور ووٹنگ کا تناسب انتہائی کم رہا۔ کراچی میں گوٹھ آباد کے نام پر ناجائز کمائی کی مذمت کی۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں گوٹھوں کے نام پر زمینوں پر قبضہ کرنے کی مہم جاری ہے۔ پھر جن زمینوں پر ناجائز قبضہ ہو چکا ہے انھیں واگزار کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔
اس موقع پر سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ جلسے میں بڑی تعداد میں عوام کی شرکت نے ثابت کردیا ہے کہ حق پرستی کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ دہشتگردی بلاشبہ پورے ملک میں بڑھتی جا رہی ہے مگر اب بندوق کی جگہ ٹویٹر چلانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ایک وقت تک بندوق کا بے تحاشا استعمال رہا ہے وہ وقت بھی گزر گیا۔ اب پیار محبت کے ذریعے معاملات کو سلجھانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ جلسہ کراچی کے مظلوم عوام کی آواز ہے۔
عوام کا ریکارڈ تعداد میں یہاں جوق در جوق آنا یقینا ایم کیو ایم سے عوام کی والہانہ محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایم کیو ایم عوامی پارٹی ہے وہ عوام کی خدمت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔ وہ تمام قومیتوں کی مشترکہ پارٹی ہے کسی تعصب یا عصبیت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ایم کیو ایم کے ایک اور اہم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کو منظم سازش کے تحت بلدیاتی انتخابات سے باہر کیا گیا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی کے 80 فیصد لوگوں نے اس الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ ان کا یہ بائیکاٹ ظاہر کرتا ہے لوگ ایم کیو ایم کے بغیر کسی بلدیاتی الیکشن کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
مردم شماری میں کراچی کے عوام کو مکمل شمار کرنا ہوگا۔ کراچی کی لاپتہ آبادی کو اس مردم شماری میں ضرور بازیاب ہونا چاہیے۔ بلاشبہ پاکستان کو ہمارے آبا و اجداد نے قائم کیا تھا۔ ایم کیو ایم ہی پاکستان کے وجود کو ہر خطرے سے محفوظ بنائے گی اور اس کے مسائل کو حل کرے گی۔ اس وقت ملک شدید ترین معاشی اور سیاسی مسائل میں گرفتار ہے، اسے اس بحران سے صرف ایم کیو ایم ہی نکال سکتی ہے۔
کراچی کے عوام کو پریشان کرنیوالے سوئی گیس، کے الیکٹرک اور دیگر ادارے اب اپنا قبلہ درست کرلیں۔ کراچی سرکولر ریلوے اور پانی کا K-4 منصوبہ ہم ہی مکمل کریں گے۔ پارٹی کی خاتون رہنما نسرین جلیل کے علاوہ دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔
نسرین جلیل نے کہا کہ ایم کیو ایم نے آج ثابت کر دیا ہے کہ وہ متحد ہے کراچی کے مسائل کا حل صرف ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ پی ٹی آئی نے کراچی کے مسائل حل کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا وہ کراچی میں ایک ناکام پارٹی ثابت ہوئی ہے ایم کیو ایم کا یہ جلسہ اکثر تجزیہ کاروں کے مطابق بہت کامیاب رہا اور اسے کراچی کا ایک تاریخی جلسہ کہا جاسکتا ہے۔ دراصل ایم کیو ایم سے روٹھے رہنماؤں کے اس میں واپس آنے سے اس کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار اور انیس قائم خانی پارٹی میں پہلے بھی اہم کردار ادا کرچکے ہیں اور اب وہ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ پارٹی میں واپس آئے ہیں۔ امید ہے کہ خالد مقبول صدیقی کی رہنمائی میں اس کے تمام رہنما مل کر کراچی کے عوام کے تمام مسائل حل کرائیں گے اور کراچی کو فسادیوں سے پاک کرکے عوام کے لیے امن و چین کا ماحول پیدا کریں گے۔