رمضان اور عوام
حکومت سے لے کر تاجر تک سب اپنی منفی سوچ کے باعث عام آدمی کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ یہ اللہ رب العزت کی خصوصی رحمتوں، برکتوں، فضیلتوں اور نعمتوں کے روز و شب نزول کا ماہ مبارک ہے، جس میں ایک نیکی کا ثواب ستر نیکیوں کے برابر ہے۔
خاتم الرسل، تاج دار مدینہ حضرت محمد مصطفیؐ کا ارشاد پاک ہے کہ ''تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آنے والا ہے، پس اس میں نیتوں کو درست کرلو، اس کی حرمت کی تعظیم کرو، بے شک اللہ کے نزدیک اس مہینے کی بہت حرمت ہے، اس کی حرمت کو پامال نہ کرو۔''
رمضان المبارک کے روزوں کو فرض عبادت قرار دیا گیا ہے، کلمہ اور نماز کے بعد روزہ دین اسلام کے ارکان میں تیسرا اہم رکن ہے، سورۃ البقرہ میں رب ذوالجلال کا فرمان ہے کہ ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو۔''
گویا روزہ محض خود کو کھانے پینے سے روکے رکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا بنیادی مقصد تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل کرنا ہے، روح کی صفائی، پاکیزگی اور باطنی طہارت کا حصول ہے۔ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لیے خاص انعامات و اکرام کی برسات ہوتی ہے، نیکیوں کے بدلے کا گراف اونچا ہو جاتا ہے، یعنی ایک نفل عمل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض عمل کا ثواب ستر فرائض کے برابر ملتا ہے۔
یہی وہ ماہ مبارک ہے جس میں دنیا کی مقدس ترین آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول مکمل ہوا اور ہزار راتوں سے برتر و فضیلت والی رات یعنی ''لیلۃ القدر'' کا تحفہ مسلمانوں کو ملا۔ خدائے بزرگ و برتر کا یہ احسان عظیم کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور تاریخی جدوجہد اور لاکھوں مسلمانوں کی جان، مال، عزت و آبرو کی قربانیوں کے طفیل وطن عزیز پاکستان کا قیام بھی رمضان المبارک کے 27 ویں روزے کو عمل میں آیا۔
پاکستان دنیا کی پہلی اسلامی ریاست ہے جو دین اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی اور اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمان اپنے مذہبی و دینی عقائد و نظریات کے مطابق بلا کسی روک ٹوک آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔ جہاں قرآن و سنت کے مطابق دستور بنایا جائے اور ایسا اسلامی و فلاحی مملکت کا نظام قائم کیا جائے جہاں عدل و انصاف میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو، جہاں کے حکمران اسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھتے ہوں اور جن پر وہ حاکم بنائے گئے ہیں ان کی مشکلات و مسائل کا ادراک رکھتے ہوں، ان کی دکھ تکالیف سے آگاہ ہوں، لوگوں کی پریشانیاں دور کرنے میں اپنا حکمرانی کردار ادا کریں، خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کا معروف قول ہے کہ ''اگر میری ریاست میں کتا بھی بھوک سے مرے گا تو میں اس کا جواب دہ ہوں۔'' وہ ہاتھ کا تکیہ بنا کر خاک کے بستر پر سونے والے حکمران تھے جو ایک ناقابل فراموش تاریخ رقم کرگئے۔
آپ آج کے حکمرانوں کی عیاشیاں اور عوام کی بربادیاں دیکھ لیں کہ آدھے سے زیادہ پاکستان خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے، روز افزوں ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول جوئے شیر لانے کے برابر ہے، غربت و بے روزگاری کے عذاب نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے، روزانہ کے حساب اور برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سیلاب میں عام آدمی ڈوب رہا ہے، روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا، آٹا، چاول، دالیں، سبزیاں، گوشت، دودھ، دہی، انڈے اور فروٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں میں مہنگائی کی شرح میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا اور یہ گرانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی پھل فروٹ اور روز مرہ استعمال کی دیگر اشیا کی قیمتوں کو پَر لگ گئے ہیں۔ عام آدمی کے لیے سحر و افطار کا اہتمام کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر 170 ارب روپے کے ٹیکس لگائے، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آگیا ہے، مہنگائی و گرانی کا گراف ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اوپر جا رہا ہے۔
عام آدمی اسی سوچ میں غرقاب ہے کہ وہ اپنے معصوم بچوں کے لیے عید کے کپڑوں کی خریداری کیوں کر اور کیسے کرے گا؟ مہنگائی کے طوفان میں اس کی قوت خرید بھی بہہ گئی ہے۔ عام آدمی کو سہولتیں فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمے داری ہے۔ شہباز حکومت یہ دعوے کر رہی ہے کہ اس نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر کم قیمت اشیا ضرورت کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے اور رمضان پیکیج کے تحت یوٹیلیٹی اسٹورز پر عام آدمی کو تمام اشیائے ضرورت پر ریلیف دیا گیا ہے۔
اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ اول تو پورے ملک میں یوٹیلیٹی اسٹورزکی تعداد انتہائی محدود ہے جو انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ دوم ، وہاں اشیا کی فراوانی نہیں، حکومتی دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔ کیوں کہ ایک چیز ملتی ہے تو تین چیزیں غائب ہوتی ہیں اور جو چیزیں یوٹیلیٹی اسٹورز پر ملتی بھی ہیں تو وہ اس قدر ناقص ہوتی ہیں کہ آدمی نہ خریدنے کو ترجیح دیتا ہے۔
حکومت اپنی مجبوریوں کا رونا روتے اور طفل تسلی کے لیے مہنگائی کنٹرول کرنے اور عام آدمی کا احساس کرنے کے بودے اور کھوکھلے دعوے کرتی ہے۔موجودہ حکومت کا ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔ اس دوران ضرورت زندگی کی ہر چیز کی قیمتوں میں مسلسل اور بار بار اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی حکومت اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور مہنگائی کم کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ عام آدمی حکومت کی کارکردگی سے غیر مطمئن اور بے چینی و اضطراب کا شکار ہے۔ کیوں کہ اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ مجبوراً لوگ اپنے بال بچوں سمیت خودکشی جیسے اقدام پر مجبور ہو رہے ہیں۔
آپ ذرا مغربی معاشروں کا جائزہ لیں جہاں مذہبی تہواروں کی آمد پر چیزوں کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تاکہ غریب و نادار لوگ بھی اپنی قوت خرید کے مطابق حسب ضرورت اشیا خرید کر اپنے بچوں کے ساتھ تہوار کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں ، لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں حکومت سے لے کر تاجر تک سب اپنی منفی سوچ کے باعث عام آدمی کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
عوام کو اس سے غرض نہیں کہ عمران خان کی حکومت کیوں ختم ہوئی۔ پی ڈی ایم کیوں برسر اقتدار ہے، عمران خان کے خلاف مقدمات کیوں بنائے جا رہے ہیں، انھیں گرفتار کرنے کی حکومتی خواہش کیوں پوری نہیں ہو رہی ہے، پنجاب اسمبلی کے الیکشن کیوں ملتوی ہوئے، سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کیوں نہ ہو سکی، معاشی، سیاسی اور آئینی بحران کا کیا نتیجہ نکلے گا وغیرہ وغیرہ۔ عوام کو صرف اپنے مسائل کے حل سے غرض ہے کہ ان کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟