موت ہمیں گھور رہی ہے
عذاب اور بھی ہیں, اِس نظام سے جڑی پریشانیوں پر تو مقالہ تیار ہو جائے، مگر ہمیں اُن پر غور کرنے کی چنداں ضرورت نہیں
انقلاب کیا بلا ہے، وہ جانیں، جو اِس کے منتظر ہیں۔ ہم تو ارتقا کے قائل ہیں۔ تبدیلی ہی اکلوتا سچ ہے۔ جمود کی بنجر زمین پر ضرب لگانے والی تبدیلی، جس سے امکانات کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ ارتقا سے مراد ہے مفید تبدیلی۔ بہتری کی جانب سفر۔ اگر ارتقا کی عوامی تفہیم پر اصرار ہے، تو یوں سمجھ لیجیے ؛ وہ عمل جو مملکت خداداد میں معطل ہے۔ وہ عمل جسے یہاں قتل کر کے جمود کی پرستش شروع کر دی گئی۔ انتہا پسندی، اقتصادی بدحالی، سماجی بگاڑ، جہالت؛ سب اِسی بدعت کی تو دَین ہیں۔
قوموں کے سفر میں وقت کا تعین گھڑی کے بارہ ہندسوں سے نہیں ہوتا۔ دن، مہینے اور برسوں میں گنتی مت کیجیے۔ یہاں تو علت و معلول کے قانون کی حکمرانی ہے۔
ہماری بدبختی کا آغاز، جو آج گدھ کی طرح ہم پر منڈلا رہی ہے، حکومت سے نہیں، بلکہ معاشرے کے بنیادی یونٹ یعنی خاندان سے ہوتا ہے۔
اوائل عمری سے مشرقی خاندانی نظام کی تعریف سنتے آئے ہیں۔ دانشوَر اسے ایسا عظیم ورثہ قرار دیتے ہیں، مغرب جس سے محروم ہے۔ اور ایسے بھی مقبول ہیں، جو مغرب کو مغلظات بکنے کی نیت کرتے ہیں، تو آغاز وہاں کے خاندانی نظام ہی سے کرتے ہیں۔ اُس کی شکست و ریخت کے تذکرے پر دفتر کے دفتر سیاہ کرنے کے بعد جب ذکر اپنے خاندانی نظام کا آتا ہے، چہرے دمکنے، آواز لزرنے لگتی ہے۔ اور ہم دل تھام لیتے ہیں، کہیں جوش کی شدت اُن کی روح قبض نہ کر لے۔
حضور، جذباتیت کو ذرا ایک طرف رکھیں۔ ٹھنڈے دماغ سے غور کریں۔ جس نظام کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے، وہ اِس کا حق دار بھی ہے یا نہیں؟
ایک سروے نظر سے گزرا۔ ملک کے 48 فی صد نوجوان، جو 32 سال کی حد عبور کر چکے، تاحال غیرشادی شدہ ہیں۔ ملتی جلتی ایک اور رپورٹ دیکھی۔ پتہ چلا، 30 سے 40 سال کے شادی شدہ افراد کی بڑی تعداد ہنوز اُس چھت تلے مقیم ہے، جو اُنھیں ماں باپ نے فراہم کر رکھی ہے۔ عسرت اور ناخواندگی کا تذکرہ نکلا، تو بات دُور تک جائے گی۔ رہنے دیتے ہیں۔اس نوع کی رپورٹس میں جو سقم بیان کیے جاتے ہیں، بیشتر کا ماخذ ہمارا خاندانی نظام ہے کہ یہ بچے کو خودانحصاری نہیں سکھاتا۔ اُسے عملیت پسندی سے پرے رکھا جاتا ہے۔ یہ تربیت نہیں دی جاتی کہ آسائش اور سہولیات حاصل کرنے کے لیے اُسے محنت کی بھٹی سے گزرنا ہو گا۔ انحصار کرنے کی عادت بچے کو اُس اعتماد سے محروم کر دیتی ہے، عصری زندگی جس کی متقاضی ہے۔
اوائل عمری میں بچے کا ماں باپ پر انحصار کرنا دُرست، مگر ہمارے معاشرے میں تو 30,35 برس کے افراد بھی خاندان کی سرپرستی کے محتاج نظر آتے ہیں۔ اور اِس باب میں نہ تو وہ بدنصیب ذمے دار ہیں، نہ ہی اُن کے والدین۔ خامی ہمارے نظام کی ہے۔ اگر خود انحصاری کی تربیت، چھٹیوں میں چھوٹی موٹی ملازمتوں کی تحریک دی جاتی، وسائل کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا، تو شاید یہ بگاڑ پیدا نہیں ہوتا۔ بے شک، مشترکہ خاندانی نظام میں خوبیاں بھی ہیں، مگر موثر اور واضح طریقۂ کار نہ ہونے کے باعث ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہ ڈرائونے خواب میں ڈھل جاتا ہے۔ اب اگر ایک چھت تلے تین بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مقیم ہیں، تو مشترکہ باورچی خانے میں برتنوں کا ٹکرائو یقینی سمجھیں۔ کون کتنا خرچ اٹھتا ہے، کس کے کتنے بچے ہیں، کون زیادہ بجلی استعمال کر رہا ہے؛ کوئی ایک درد سر ہو تو بتائیں۔
ہمارا خاندانی نظام یہ نہیں سکھاتا کہ ایک خاص مدت بعد آپ کو بہ ہر صورت ایک الگ چھت کا انتظام کرنا ہو گا۔ ذکر اِس کا شعوری طور پر ٹالا جاتا ہے۔ مختلف خاندان طویل عرصے تک ایک ہی مکان میں مقیم رہتے ہیں۔ مگر ایک روز رشتوں میں پڑنے والی دراڑ خود اِسے توڑ دیتی ہے۔ اور تب انسان ایک عذاب سے گزرتا ہے کہ وہ اِس مرحلے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وسائل وہی پرانے، مسائل نئے۔ خرچ بڑھ جائے، اور جیب خالی ہو، تو تخلیقی صلاحیت خاموشی سے مر جاتی ہے۔ بزرگ کہتے ہیں؛ تخلیقی صلاحیت مر جائے، تو انسان چلتی پھرتی لاش بن جاتا ہے۔
یعنی لاشوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔دولت سے متعلق بھی عجیب رویہ ہے۔ اس خواہش کو اِس حد تک مکروہ خیال کیا جاتا ہے کہ کوئی اپنے بچے کو یہ پاٹھ پڑھانے کو تیار نہیں کہ پیسے کی قدر کرنی چاہیے، رزق حلال عبادت ہے۔ ماں باپ بچے کے سامنے اِس تذکرے سے اجتناب برتتے ہیں۔ بچے کی کفالت اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ بے شک، یہ اُن کا فرض ہے، مگر جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، جب انھیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا درس دینا لازم ٹھہرتا ہے، ہم تب بھی اپنی روش نہیں بدلتے ۔ نتیجے میں بچہ آپ کی فراہم کردہ سہولیات کا عادی ہو جاتا ہے۔ وہ جہدوجہد کے لفظ سے نا آشنا ہوتا ہے۔ اور جب جدوجہد کا لمحہ آتا ہے، حالات کے ریلے میں بہنے کے سوا پاس اُس کے کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
اگر ہم کہہ دیں کہ یہ نظام کچھ کچھ عورت دشمن ہے، تو شاید بہتوں کو ناگوار گزرے۔ چلیں، نہیں کہتے، مگر نہ کہنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ 52 فی صد آبادی خواتین پر مشتمل۔ اکثریت گھریلو خاتون۔ معاشرے کی تشکیل اور ترقی میں اپنا حقیقی کردار ادا کرنے سے قاصر۔ معاشرہ مردوں کا۔ اگر یہ سقم ہے، تو ذمے دار بھی وہی ہیں۔ اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے ایک ایسا نظام تشکیل دیا، جس میں عورت گھر تک محدود ہو گئی۔ شاید یہ خوف لاحق ہے کہ عورتیں بھی اگر کمانے لگیں، خود مختار ہو گئیں، تو اُنھیں باورچی خانے میں کیسے کھڑا کریں گے!
عذاب اور بھی ہیں۔ اِس نظام سے جڑی پریشانیوں پر تو مقالہ تیار ہو جائے، مگر ہمیں اُن پر غور کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہم نے تو اپنا کُل زور مغرب کے زوال کی پیش گوئیوں پر لگا رکھا ہے۔ ذرا منافقت ملاحظہ فرمائیں۔ وہاں ہونے والے قتل کے واقعات کا تو تذکرہ کرتے ہیں، مگر اپنے ہاں کی غارت گری پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ مغرب میں ہونے والے آبروریزی کے واقعات کا چیخ چیخ کر حوالہ دیتے ہیں، مگر اِس قوم کی بیٹیوں کو گلی محلوں سے اغوا کرنے والے، اُن کے سروں میں گولیاں اتارنے والوں کے خلاف ایک لفظ زبان پر نہیں لاتے۔ اُن کے اولڈ ایج ہومز کا خوب تمسخر اڑاتے ہیں، مگر اپنی سڑکوں پر بھیک مانگتے بوڑھے نظر نہیں آتے۔ خیر، آپ سے شکایت نہیں۔ آپ صاحب رائے ہیں، معقول ہیں، جو راگ پسند ہو، الاپ لیں۔ احساس تفاخر کا ڈھنڈورا بھی جی بھر کر پیٹیں۔ کیونکہ وقت کم ہی بچا ہے۔ موت ہمیں نشان زد کر چکی۔ وہ ہمیں گھور رہی ہے۔ اور جب حملہ کرے گی، تو اِس خاندانی نظام کی تیار کردہ مفلوج نسل، جس کی مداح سرائی میں آپ نے خود کو ہلاک کر ڈالا، ہمیں بچا نہیں سکے گی۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہو گا؟ ذرا حقائق پر نگاہ ڈالیں، یہ عمل تو کب کا شروع ہو چکا۔