تین تاریخی درسگاہوں کا دورہ
آزادی سے قبل گورنمنٹ کالج لاہور ایشیا کا سب سے بڑا اور معتبر تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا تھا
آزادی سے قبل گورنمنٹ کالج لاہور ایشیا کا سب سے بڑا اور معتبر تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا تھا جہاں پڑھانا انگریز اساتذہ بھی باعثِ افتخار سمجھتے تھے، مگر نشستیں کم اور میرٹ خاصا بلند تھا، جس کے باعث بہت کم مسلمان طلباء کو داخلہ ملتا تھا۔
مسلمانوں کے لیے پورے پنجاب میں ایک ہی کالج تھا،اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ ) لاہور۔ حمید نظامی، مولانا عبدالستار نیازی اور قاسم رضوی وغیرہ نے وہیں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی، اُس کالج میں قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ بارہا تشریف لائے۔
آج تو مسلمان طلباء کے لیے حصولِ تعلیم کے اس قدر مواقعے ہیں کہ دیہات میں بھی گورنمنٹ کالج قائم ہوچکے ہیں،پھر بھی کچھ بدبخت اور کانگریسی ذھنیت کے حامل ناشکرے، ٹماٹر اور پیاز مہنگے ہونے پر اس طرح کی خرافات اگلنے لگتے ہیں کہ دیکھا مولانا ابو الکلام آزاد کی پیشنگوئی سچ ثابت ہوگئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آزاد صاحب یا مدنی صاحب کی کوئی پیشنگوئی صحیح ثابت نہیں ہوئی۔ ہندوستان میں بسنے والے 25 کروڑ مسلمانوں کی نہ جان اور مال محفوظ ہے اور نہ مسلم خواتین کی عزت و آبرو۔ آج ان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی یا تعلیمی پسماندگی نہیں بلکہ صرف بقاء ہے۔
شکر ہے کہ علامہ اقبال، قائدِاعظم اور ان کے ساتھیوں کی بصیرت کے طفیل آج پاکستان اور بنگلہ دیش کے 40کروڑ مسلمان آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں، خدانحواستہ پاکستان نہ ہوتا تو آج 65کروڑ مسلمان ہندوتوا کے غلام ہوتے مگر اُس وقت اٹک سے ملتان تک اسلامیہ کالج لاہور کے سوا کوئی کالج نہ تھا۔
پھر یہ ہوا کہ گجرات کے نوابزادہ خاندان کے ایک فرد نے حصولِ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ تعلیم مکمل ہوئی تو وہ ڈگری کے علاوہ علی گڑھ کالج کا نقشہ بھی ساتھ لے آیا اور پھر اسی طرز پر گجرات میں زمیندارہ انٹرمیڈیٹ کالج قائم کیا، جہاں پورے سینٹرل پنجاب کے طلباء حصولِ تعلیم کے لیے آنے لگے۔
میرے والد صاحب نے بھی انٹرمیڈیٹ زمیندارہ کالج گجرات سے پاس کیا اور گریجویشن کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اس تاریخی کالج کویہ فخر حاصل ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد محترمہ فاطمہ جناح بھی یہاں تشریف لائیں اور اساتذہ اور طلباء سے ملاقات کی۔
اس معروف درسگاہ جو اب پوسٹ گریجویٹ کالج بن چکا ہے کے پرنسپل صاحب کی جانب سے فکرِ اقبال کے موضوع پر خطاب کی دعوت ملی تو میں نے بخوشی قبول کی۔
کالج کے سربراہ اور اساتذہ کی معیت میں ہال میں داخل ہوا تو ہر طرف طالبات نظر آئیں، گیلری پر نظر پڑی تو وہ بھی طالبات سے بھری ہوئی تھی۔ میں نے پرنسپل صاحب سے پوچھا کہ''کیا یہ زمینداراکالج برائے خواتین بن چکا ہے؟'' تو انھوں نے بتایا کہ پوسٹ گریجویٹ کلاسز میں 95% طالبات ہوتی ہیں اور صرف 5%طلباء ۔ اس طرح تمام کالجوں میںمخلوط تعلیم رائج ہوچکی ہے۔
یہ صورتِ حال اور نوجوان طلباء کی تعلیم سے دوری دیکھ کر دکھ بھی ہوا اور تشویش بھی۔ لیکچر میں نوجوانوں کو حکیم الامت کی شخصیت کے چند اہم پہلوؤں سے روشناس کرایا گیا جن کی آج بھی مسلمانوں میں کمی ہے اور جن کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی سو سال پہلے تھی۔
علامہ اقبالؒ زوال سے کمال تک پہنچنے کے لیے مسلمانوں کو اپنے اندر جو خوبیاں پیدا کرنے پر زور دیتے رہے، ان کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا گیا کہ علامہ نے کہا تھا کہ مسلمانوں کا اگر اپنے عقیدے اور نظریے پر یقین کمزور اور متزلزل رہے گا تو وہ اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے لیکن اگر آپکا یقین اور ایمان مستحکم اور غیر متزلزل ہوگا تو یہ آپ کو معجزے دکھا دے گا:
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا
تو کرلیتا ہے یہ بال و پر ِروح لا میں پیدا
خطاب میں فکرِ اقبال کے، بے داغ کردار، جہدِمسلسل، جرأت و حق گوئی، خودداری، خودانحصاری اور امّید جیسے اہم پہلوؤں کی فضیلت اُجاگر کی گئی۔ دنیائے اسلام کے اس بے مثل شاعر کا پیغام اتنا توانا اور اتنا حیات آفریں ہے کہ جب پاکستانی نوجوان سنتے ہیں تو ان کے مایوس چہرے کھل اُٹھتے ہیں اور آنکھوں میں چمک پیدا ہوجاتی ہے۔
اگر کسی قوم کو غیرت، خودداری اور خودمختاری کا پیغام دینا ہو تو آسمانی احکامات اور پیغمبرانہ ہدایات کے بعد سب سے موثّر اور پرشکوہ پیغام اقبالؒ کی شاعری ہے۔ لیکچر کے بعد خواتین پروفیسرز کہتی رہیں ''ہم تو سمجھتی تھیں کہ آپ افسروں کی طرح روایتی سی تقریر کریں گے مگر آپ نے تو اسٹوڈنٹس کے ساتھ ہمیں بھی بہت inspire کیا ہے۔''
جس طرح سینٹرل پنجاب میں مسلمانوں کے لیے کالج بنانے کا سہرا نوابزادہ فضل علی کے سر سجا، اسی طرح شمالی پنجاب میں لڑکیوں کے لیے ایک معیاری تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا اعزار ایک نو مسلم خاتون کو حاصل ہوا۔
فیروز خان نون پاکستان کے وزیرِ خارجہ بھی رہے اور وزیرِاعظم بھی ، پاکستان کے لیے گوادر جیسی اہم بندرگاہ کا حصول ان کا تاریخی کارنامہ ہے۔ ایسا قابل اور ایماندار شخص جس پر قائدِاعظم بے حداعتماد کرتے تھے، وزیر اعظم تھا جب اِس ملک پر عسکری عذاب نازل ہوا اور اسے ہٹاکر اسکندر مرزا کو مسلط کردیا گیا۔
جناب فیروز خان نون کی باوقار اہلیہ کی ذاتی رقم سے قائم ہونے والے راولپنڈی ڈویژن کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے وقارالنساء پوسٹ گریجویٹ ویمن کالج راولپنڈی کی پرنسپل ڈاکٹر زاہدہ جبیں کے ساتھ میں کالج کے ہال میں داخل ہوا تو بارہ سو نشستوں والا ہال طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
پنجاب بھر کے کالجوں میں وقارالنساء گرلز کالج کا آڈیٹوریم سب سے بڑا اور جدید صوتی آلات سے آراستہ ہے جہاں بازگشت کے بغیر آخری نشستوں پر بیٹھی ہوئی طالبات بھی مقرر کی آواز صاف اور درست طور پر سن سکتی ہیں۔ کالج کی سربراہ ڈاکٹر زاہدہ جبیں ایک اعلیٰ پائے کی ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں اور مغربی اور بھارتی کلچر کی یلغار کے آگے بند باندھنے کی زبردست حامی بھی۔ میں نے بھی ہال میں بیٹھی ہوئی بیٹیوں کے سامنے علامہ کے اس شعر کی بڑی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی :
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مد نیّت کی ہوسکی نہ عفیف
علامہ اقبالؒ مغرب کی علم دوستی کے مداح تھے مگر مغربی تہذیب کے اس غلیظ ترین پہلو کے سخت ناقد تھے کہ بے حیائی اور Vulgarity جس کا لازمی جزو ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جو تہذیب پاکیزگی اور حیاء سے خالی ہو وہ کسی بھی انسانی معاشرے کے لیے مضر تو ہوسکتی ہے مفید نہیں ہوسکتی۔ مغرب نے اپنے معاشرے سے حیاء کو نکالنے پر اکتفاء نہیں کیا۔
اس نے دنیا بھر کے معاشروں سے حیاء کو ختم کرنے اور عورتوں کی حیاء کے قلعے کو مسمار کردینے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔
مغربی اور بھارتی کلچر اس بار اپنے پورے لاؤلشکر یعنی موبائل فون، میڈیا، این جی اوز وغیرہ کے ساتھ ہمارے حیاء کے قلعے پر حملہ آور ہوا ہے اور اسے بہت کامیابی ہوئی ہے۔ اس نے ہمارے دیکھتے ہوئے ہماری بیٹیوں کا دوپٹہ چھین لیا ہے، لیکن مجھے اس وقت بے پناہ خوشی ہوئی جب طالبات نے باآوازِ بلند یہ عہد کیا کہ ہم حیاء کے قلعے کا ہر قیمت پر تخفظ کریں گی اور حیاء کے دشمنوں کا حملہ ناکام بنادیں گی۔
لیکچر کے بعد اساتذہ بہت پرجوش تھیں، کچھ طالبات آٹوگراف بھی لیتی رہیں۔ راولپنڈی میں طلباء کا سب سے بڑا کالج گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال ہے، وقارالنساء کے بعد وہاں بھی لیکچر کے لیے جانا ہوا، ہال سے نکلے تو بارش ہورہی تھی۔
کالج کے پرنسپل ڈاکٹر کبیر محسن اور دیگر اساتذہ سے پرنسپل آفس میں چائے پر بڑی پر لطف گپ شپ ہوتی رہی ، جس میں پولیس کے نیک نام افسر احسان صادق (جو اس کالج میں پڑھاتے بھی رہے ہیں) بھی شامل ہوگئے۔ ہر ادارے میں سربراہ اور اساتذہ نے یہ ضرور کہا کہ ''بھولا ہوا یہ سبق یاد کرانا بے حد ضروری تھا ۔لیکچرز کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔''
کچھ تو خدا خوفی کریں
عالمی میڈیا ہر سال ہمیں ایسی خبریں سنا کر شرمندہ کرتا رہتا ہے کہ غیر مسلم دکاندار نہ صرف کرسمس میں بلکہ رمضان میں بھی اشیائے خورونوش انتہائی سستے داموں بیچتے ہیں مگر ہمارے 90فیصد تاجر رمضان میں کئی گنا مہنگی اشیاء بیچ کر عمرہ کرنے نکل جاتے ہیں، کاش انھیں کوئی سمجھائے کہ خالقِ کائنات ایسے عمروں کو ان کے منہ پر دے مارے گا۔
اﷲ تمھارے دکھاؤے کے عمروں کا محتاج نہیں، اسے اپنی مخلوق سے ہمدردی کرنے والوں اور اس کی مشکلات کم کرنے والے پسند ہیں، غیرمسلموں کو دیکھ کر ہی کچھ شرم کریں۔
راقم کئی سالوں سے کچھ قابلِ اعتماد دوستوں کے ساتھ مل کر چیریٹی کا کام کررہا ہے۔ ایک تو قائدِ اعظم ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے قابل مگر نادار طلباء کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں سیکڑوں مستحق طلباء ڈاکٹر بن چکے ہیں اور بیسیوں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوچکے ہیں۔ قائداعظم ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹ میں دل کھول کر اپنی زکوٰۃ بھیجیں ۔
Account Number:- 6020220431300014
The Bank of Punjab,
Branch Code:- 0147
اور دوسرا راقم کی نگرانی میں بیوگان، مساکین، ناداروں اور بیماروں کے گھروں میں آٹا ، چاول، گھی، دالوں سمیت راشن کے پیکٹ پہنچائے جاتے ہیں۔ پچھلے سال جو پیکٹ 3800 روپے کا بنا تھا وہ اس سال 5500روپے کا بنا ہے۔
اسوقت تک سیکڑوں مستحق خاندانوں کے گھروں میں پیکٹ پہنچائے جاچکے ہیں۔ اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنے کے لیے اپنی زکوٰۃ اور خیرات اس اکاؤنٹ میں بھیجیں جو کہ مولانا اقبال صاحب کے نام پر ہے۔
Account Number:- 0010014639190023
Allied Bank Ltd.
Branch Code:- 0567