مذاکرات سیاسی بحران کا حل

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کے سینیٹرز کی شرکت ایک مثبت تبدیلی ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan March 29, 2023
[email protected]

الیکشن کمیشن نے وفاقی وزارتوں ، خفیہ سول و عسکری ایجنسیوں کی رپورٹوں اور لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے ریٹرننگ افسران کے فرائض کی انجام دہی کے لیے عدالتی افسروں کی خدمات نہ دینے کے فیصلہ کے بعد ہونے والے انتخابات کو ملتوی کرنے اور 8اکتوبر کو انتخابات کرانے کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔

خیبرپختون خوا کے گورنر نے بھی 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ تحریک انصاف نے اس فیصلہ کو مسترد کرکے سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی عرضداشت دائر کردی۔ عمران خان نے لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسٹبلشمنٹ ان کو اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتی ۔

عمران خان نے اس جلسہ میں کہا کہ لندن پلان کے تحت پنجاب اور اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس نے انھیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، یوں معاملہ پھر ایک عدالتی جنگ میں تبدیل ہوا۔

سینئر ماہرین قانون اور سینئر صحافیوں نے اس صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد یہ رائے دی کہ سیاسی بحران عدالتی فیصلوں سے حل نہیں ہوگا اور صورتحال مزید پیچیدہ ہوجائے گی۔ پاکستان بار کونسل نے سیاسی بحران پر غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعہ اس مسئلہ کا پائیدار حل نکال سکتی ہیں۔

اس صدی میں جہاں بہت سے نئے واقعات رونما ہوئے ہیں، وہاں سول سوسائٹی کا کردار بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ سول سوسائٹی کے عدلیہ کی آزادی، آزادئ صحافت، اقلیتوں کے حقوق کے حصول اور پڑوسی ممالک سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے خاصی کوشش کی ہے۔

لاہور میں سول سوسائٹی کے اراکین سینئر صحافی انسانی حقوق کی تحریک کے کارکن حسین نقی اور بائیں بازو کے دانشور امتیاز عالم نے سول سوسائٹی کے ارکان، وکلا، صحافیوں، خواتین اور سماجی کارکنوں کو مدعو کیا۔

یوں 100 سے زائد سول سوسائٹی کی تنظیموں کے اکابرین اور وکلاء صحافیوں کی نمایندہ تنظیموں نے آئین اور جمہوریت ، وفاقیت سے اپنی اٹل وابستگی ، شفافیت اور جمہوری عمل میں یقین کامل کا اعادہ کرتے ہوئے شفاف و آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے متفقہ طور پر انعقاد کا تقاضہ کرتے ہوئے جاری سیاسی محاذ آرائی پر تشویش کا اظہار کیا۔

ان تنظیموں نے موقف اختیار کیا کہ اس محاذ آرائی سے ملکی معیشت کی بدحالی اور عوامی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلاجارہا ہے اور اگر یہ محاذ آرائی ختم نہ ہوئی تو حالات سیاسی جماعتوں کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں اور ملک انارکی کی لپیٹ میں جاسکتا ہے جس سے پاکستان کا مستقبل اور جمہوری تسلسل پر سنگین اثرات برآمد ہوسکتے ہیں۔

ان تنظیموں نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ عظم تر قومی مفاد میں انتخابات سے متعلق تمام تر اختلافات کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کریں تاکہ آئین کی بالادستی اور پرامن جمہوری تبدیلی کی راہ ہموار کی جاسکے۔

سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ وہ سیاسی جماعتوں میں معاملہ فہمی اور آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے لیے ایک غیر رسمی اور غیر جانبدار مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس کے لیے پاکستان بار کونسل نے آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز پیش کی ہے۔

اس کانفرنس کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے سول سوسائٹی کے ساتھیوں نے ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطے شروع کیے۔

گزشتہ پورے مہینہ لاہور کا ماحول انتہائی گرم رہا۔ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کے توشہ خانہ کیس میں جاری گرفتاری کے وارنٹ کی تعمیل کے لیے اسلام آباد پولیس کے ایک افسر اپنی ٹیم کے ساتھ لاہور آئے۔ لاہور میں تحریک انصاف کے سیکڑوں کارکنوں نے پولیس کی ٹیم کو عمران خان کی قیام گاہ زمان پارک میں داخل ہونے نہیں دیا۔

ہجوم نے پولیس والوں پر پٹرول بم پھینکے اور پتھراؤکیا۔ پولیس والے آنسو گیس کے گولے پھینکتے رہے۔ پولیس نے تحریک انصاف کے بہت سے کارکنوں کو حراست میں لیا۔ عمران خان کی لاہور ہائی کورٹ نے عبوری ضمانت منظور کی اور پھر اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے عمران خان کی گرفتار ی کے وارنٹ منسوخ کردیے۔ امتیاز عالم، حسین نقی اور ان کے ساتھیوں نے اس ماحول میں عمران خان سے ملاقات کی۔

یہ ملاقات ایک گھنٹہ سے زائد دورانیہ تک جاری رہی۔ امتیاز عالم اور حسین نقی کے دلائل سننے کے بعد عمران خان نے اپنا موقف کچھ نرم کیا اور سول سوسائٹی کے وفد کو یقین دلایا کہ پاکستان بار کونسل کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس میں وہ ضرور شریک ہوں گے۔

سول سوسائٹی کے وفد نے منصورہ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے بھی ملاقات کی۔ امیر جماعت اسلامی نے اس ملاقات میں واضح کیا کہ سیاست دانوں کو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور مذاکرات سے ہی سنگین بحران کا حل نکل سکتا ہے۔

سراج الحق نے کہا کہ جماعت کا وفد اس کانفرنس میں شرکت کرے گا۔ کراچی میں پاکستان بار کونسل کے رکن عوامی ورکرز پارٹی کے صدر اختر حسین کی قیادت میں ایک وفد نے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر میں خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹر مصطفی کمال، امین الحق اور نسرین جلیل سے طویل مذاکرات کیے۔

ایم کیو ایم کی قیادت نے بھی واضح طور پر اس آئیڈیا کی حمایت کی کہ سیاست دانوں کو مل بیٹھنا چاہیے۔

ایک رہنما نے کہا کہ مریم نواز شریف اور عمران خان کی ملاقات ہوجائے تو سیاسی درجہ حرارت گرجائے گا، مگر ایم کیو ایم کی قیادت نے اس بیانیہ پر زور دیا کہ ان مذاکرات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو شفاف بنانے کے طریقہ کار کے ساتھ جمہوری نظام کے تیسرے ستون بلدیاتی نظام کو بااختیار کرنے کے معاملہ کو بھی زیرِ بحث لایا جائے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ آج کل برطانیہ کے دورے پر ہیں۔ پی ایف یو جے سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ سیاسی حالات کو بہتر بنانے کی کوششوں میں برابر کی شریک ہے۔ انھوں نے لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور انھیں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے مشترکہ بیانیہ سے آگاہ کیا۔

میاں صاحب نے سول سوسائٹی کے اراکین کی کوششوں کو سراہا ۔ آصف زرداری آنکھوں کے علاج کے لیے دبئی میں ہیں، یوں سول سوسائٹی کے اراکین کی پیپلز پارٹی کی قیادت سے بھی جلد ملاقات متوقع ہے۔

سول سوسائٹی نے بلوچستان کی جماعتوں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت سے بھی رابطہ کیا ۔ ڈاکٹر عبدلمالک بلوچ نے مذاکرات کی اہمیت پر خصوصی طور پر زور دیا۔ اختر مینگل اپنی اہلیہ کے علاج کے لیے بیرون ملک ہیں مگر انھوں نے بھی بار کونسل کے اس آئیڈیا کی بھرپور حمایت کی۔

وکلاء کی تنظیم اور سول سوسائٹی کی سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کرانے اور انتخابات کی حتمی تاریخ پر اتفاق کرانے کی کوششوں کے نتائج ابھی آنا باقی ہیں ۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل کے تفصیلی فیصلہ سے گزشتہ فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھ گئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے بھی الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلہ کے خلاف سماعت کے دوران سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاقِ رائے پر زور دیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کے سینیٹرز کی شرکت ایک مثبت تبدیلی ہے۔

تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے کہ جب بھی سیاست دانوں نے آزادانہ طور پر مذاکرات کیے تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔

1973 کا متفقہ آئین، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان 2005 میں لندن لندن میں ہونے والا میثاقِ جمہوریت اور آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم اس کی روشن مثالیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں فورا مذاکرات کے لیے تیار ہوجائیں جبھی بحران کا حل نکل سکتا ہے، ورنہ سارا فائدہ اسٹیبلشمنٹ کا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں