معاملات کو بند گلی میں مت دکھیلا جائے

اس موجودہ سیاسی تقسیم میں پارٹی بننے کے بجائے ایک بڑے پریشر گروپ کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہے


سلمان عابد April 02, 2023
[email protected]

پاکستان کی سیاست، سماجیات، معیشت، آئین، قانون اور ادارہ جاتی سطح پر فریقین کے درمیان ایک واضح سیاسی تقسیم دیکھنے کو مل رہی ہے۔

یہ تقسیم ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے کیونکہ جب معاملات کو مفاہمت کے ساتھ حل کرنا ممکن نہ رہے تو پھر انتشار لازم ہوجاتا ہے ۔ایک تقسیم سیاسی ہے یعنی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اور دوسری اہل سیاست اور ریاستی اداروں خصوصاً عدلیہ کے درمیان ہے۔

آئین اور قانون کیا کہتا ہے اس سے زیادہ اہم بات فریقین کے لیے یہ ہے کہ ان کی سیاست، مفادات کیا کہتے ہیں ۔ یہ منظر نامہ ٹکراؤ کا منظر پیش کرتا ہے، سیاست اور جمہوریت کے مفاد کے برعکس ہے ۔

جب سیاسی محاذ پر فہم وفراست, تدبر, تحمل , بردباری اور دوراندیشی کے مقابلے میں ردعمل , غصہ , مقابلہ بازی , تعصب , نفرت اور کسی کے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکاری کا ماحول ہو وہاں سیاست و جمہوریت کا مستقبل پیچھے چلاجاتا ہے ۔ یہ جو صورتحال آج ہماری ہے فوری طور پر نہیں بنی بلکہ ماضی کی غلطیوں کا تسلسل ہے۔

اس بحران کی ذمے داری کسی ایک فریق پر ڈال کر ہم ایک دوسرے کے خلاف سیاسی مقابلہ بازی یا سیاسی اسکورنگ تو کرسکتے ہیں مگر سچ ہے کہ ان حالات کے ہم سب ہی مجموعی طور پر ذمے دار ہیں۔ ہماری حکومت, حزب اختلاف, عدلیہ , انتظامیہ اور سیکیورٹی ادارے یا اسٹیبلیشمنٹ سب نے ہی اس بحران میں اپنا اپنا تھوڑا یا زیادہ حصہ ڈالا ہے۔

ایک عمومی سوچ یہ رہی ہے کہ حالات کی خرابی کا معاملہ کسی ایک فریق پر ڈال کر خود کو بچالیا جائے ۔ماضی میں بھی یہ حکمت کارگر نہ ہوسکی اور نہ ہی آج یہ کوئی بڑا نتیجہ دے سکے گی۔ بدقسمتی سے سیاسی تقسیم نے سیاسی اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا ہے ۔ جو زبان، لب ولہجہ، الفاظ اور طرز عمل ہمیں سیاسی سطح پر بالادست نظر آرہا ہے اس کی موجودگی میں سیاسی کشیدگی کے کم ہونے کے امکانات بھی محدود ہیں ۔جو لوگ مفاہمت سے معاملات حل کرنا چاہتے ہیں، وہ پس پردہ چلے گئے ہیں ۔

اداروں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چلانے اور مرضی کا نتیجہ لینے کی روش خطرناک رجحا ن کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس پورے کھیل میں ہم نے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنی سیاست , جمہوریت, آئین اور قانون کی حکمرانی کا تماشہ بنادیا ہے اور یہ لگتا ہے کہ ہم کچھ بھی سیکھنے کی یا تو صلاحیت نہیں رکھتے یا یہ ہمارے اپنے ذاتی مفادات کے برعکس ہے۔ یہ جو ملکی سطح ریاستی و حکومتی محاذ پر ایک غیر یقینی کی کیفیت ہے اس کی مدد سے ہم کیسے بحران سے باہر نکل سکیں گے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ یعنی ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کے بقول عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف ہم پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں اوراس ادارے کے ساتھ اعتماد کا بحران کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ معیشت کی بحالی , میثاق معیشت جیسے خوشنما نعرے تو بہت گونج رہے ہیں مگر داخلی سیاسی استحکام کو پیدا کرنے کے لیے جو بڑی کنجی ہے ہم تیار نہیں ۔

ہماری سیاسی اور جمہوری سیاست کا المیہ ہے کہ لوگ قانون اور آئین کی حکمرانی کے مقابلے میں خود کو طاقت ور سمجھتے ہیں اور ادارے بھی ان طاقت ور افرادکے مقابلے میں خود کو بے بس, لاچار یا سمجھوتے کی سیاست کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ایسے میں عملا اداروں کی بالادستی کیسے ممکن ہوگی۔مفاہمت کے لیے جو ہمیں ایک سازگار ماحول درکار ہے وہ کیسے قائم ہوگا۔

اس وقت ریاستی , حکومتی اور حزب اختلاف سمیت میڈیا یا دیگر اہم افراد یا اداروں کو اس بات کا احسا س ہے کہ ان کے طرز عمل کی وجہ سے ریاست او رمعاشرہ تنہائی کا شکار ہے ۔ سیاست کو ہم نے اپنی ذاتی لڑائیوں کی مدد سے الجھادیا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہی ہے کہ کیا واقعی ہماری سیاست اور جمہوریت میں یہ سیاسی پختگی اور سیاسی سمجھ بوجھ ہے کہ ہم کیا کچھ کرررہے ہیں او راس کا ریاستی مفاد کو کیسے نقصان پہنچ رہا ہے ۔

مسئلہ فیصلہ سازی کی سطح پر موجود ان سیاسی بونوں کا ہے جوبڑے عہدوں پرچھوٹے لوگ بیٹھے ہیں، یہ ہی ہمارا بڑا بحران اور المیہ ہے ۔اس المیہ یا بحران سے ہم کیسے نکل سکیں گے اورکیسے ان چھوٹے بونوں سے آزاد ہوسکیں گے، اس کا جواب فوری طور پر ممکن بھی نہیں ہے۔ اس بار جو ہمارا سیاسی کم ریاستی بحران زیادہ ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مفاہمت کا راستہ اور زیادہ مشکل نظر آتا ہے ۔لیکن کیونکہ سیاسی بحرانوں کو شکست دینے کا واحد آپشن ہی مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ ہوتا ہے اور اسی پر توجہ بھی دی جاتی ہے اور اسی کو اپنی ترجیح کا حصہ بھی بنایاجاتا ہے۔

اس لیے مایوس ہونے کے بجائے جو بھی حالات سے نالاں ہیں تو اسے ماتم کرنے کے بجائے مفاہمت او ربات چیت کی سیاست پر زیادہ شدت کے ساتھ بات کرنی چاہیے ۔ آواز مدھم ہی کیوںنہ ہو یا کم لوگوں کی آوازیں ہو ان ہی آوازوں کو بڑھانا ہے اور اسے طاقت بھی دینی ہے ۔وہ طبقہ جو رائے عامہ کی تشکیل انفرادی یا اجتماعی سطح پر کرتا ہے اس کو ایک ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہے ۔اسے اس موجودہ سیاسی تقسیم میں پارٹی بننے کے بجائے ایک بڑے پریشر گروپ کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

یہ کردار محض سیاسی جماعتوں یعنی حکومت اور حزب اختلاف تک محدود نہ ہو بلکہ ریاست کے بڑے فیصلہ ساز اداروں پر بھی یہ ہی دباو ڈالنا ہوگا کہ وہ سب ردعمل, غصہ اور بدلا لینے کی سیاست سے باہر نکلیں اور کچھ ایسا راستہ اختیار کریں جو ہمارے آگے بڑھنے کی طرف مدد فراہم کرسکے ۔اس وقت ہم مشکل میں ہیں اور ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی مدد سے ہی ہم اپنے لیے او رملک کے لیے بھی کوئی محفوظ راستہ تلاش کرسکیںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں