سیکولر ازم کا اصل چہرہ
سیکولر ازم نے ہمیشہ لوگوں کا خون بہایا
سیکولر ازم کا لفظ پہلی دفعہ 1876ء میں برطانوی صحافی جارج ہولی اوک GeorgeHolyOakeنے استعمال کرنا شروع کیا اور پھر یہ لفظ زد عام ہوگیا۔
سیکولر ازم کے متوالوں کی ذاتی گھڑی ہوئی تاریخ یہ ہے کہ انقلاب فرانس کے ارد گرد پیدا ہونے والے ادیب جنھوں نے لوگوں کو یہ تصور دیا کہ معاشروں کو جمہوری اقدار پر منظم کرکے اقتدار عوام کے نمایندوں کو منتقل کرنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔
سیکولر ازم کا ایک متوالہ ایچ جی ویلز بھی تھا جو برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں تقریریں کرتا پھرتا کہ حکومتوں پر قابض ہوکر سیکولر ازم کو بزور نافذ کردینا چاہیے ورنہ مذہبی لوگ عوام کے ذریعے کبھی بھی برسر اقتدار آسکتے ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سیکولر ازم جن معاشروں میں نافذ ہوا اور جہاں جہاں ایسے حکمران منتخب ہوئے یا مسلط کیے گئے جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ریاست کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں انھوں نے اس سیکولر ازم کے نام پر انسانی خون اس قدر بہایا، ظلم و تشدد اتنا کیا اور عوام کو بھوک اور افلاس کا شکار اس قدر رکھا کہ اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
وقت کے مصری سیکولر حکمران جمال عبدالناصر نے اخوان المسلمین کے ڈھائی لاکھ لوگوں کو قتل کروا دیا، جیل خانے عقوبت خانے بنے ہوئے تھے جہاں تشدد کی کہانیاں لرزاں دینے والی ہیں ، بڑے رہنماؤں کو پھانسیاں دی گئی وہ اپنی قوم کو فرعون کی اولادیں کہتا تھا ، مذہب کو ریاست سے دور کرنے کا دعویٰ دار تھا لیکن دنیا کا ظالم ترین حکمران تھا اس کے بعد آنے والے حکمران انور السادات اور حسنی مبارک کی حکومتیں بھی انسانوں کا خون بہاتی رہیں ، عراق میں احمد حسن البکر اور پھر صدام حسین بھی سیکولر حکمران تھے جنھوں نے ریاستی اور امور مذہب کو جدا کیا ہوا تھا جنھوں نے کردوں پر بڑے مظالم ڈھائے جو اپنے وقت کے بدترین اور ظالم حکمران تھے۔
سیکولر صدام حسین نے آبادیوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ، وہ مذہب کے نام لیواؤں کو خاموش کردیتے تھے۔ لاکھوں لوگوں کے قاتل شاہ ایران رضا پہلوی کی سیکولر آمریت ظلم و ستم سے عبارت ہے جس کی خفیہ ایجنسی کے مراکز میں ایسے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا جو مذہب کو ریاست کا حصہ سمجھتے تھے، ان کے ناخن اکھاڑے جاتے ، بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ، زخم ڈال کر ان پر نمک چھڑکا جاتا ، سیکولر رضا شاہ پہلوی کے سیکولر اقتدار کے دوران لاکھوں لوگ قتل اور لاپتہ ہوئے ، اس نے ایک سینما گھر کو آگ لگادی ، چار سو سے زیادہ لوگ زندہ جل گئے اور الزام ان لوگوں پر لگا دیا جو مذہب کو ریاست کے اندر کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔
انڈونیشیا میں سہارتو کی سیکولر آمریت دنیا کی سب سے پرتشدد آمریت تھی جس میں چار لاکھ سے زیادہ انسان قتل کردیے گئے۔ لاطینی یا جنوبی امریکا کے کسی بھی سیکولر حکمران کے عہد حکومت کو اٹھا لیں آپ کو ظلم و ستم کی داستانیں ملیں گی۔ چلی کے سیکولر پنو شے کی حکومت بھی ظلم و ستم کا پیکر اور خون آلود تھا ۔ جرمن کا نازی حکمران ہٹلر بھی سیکولر تھا اس سیکولر صفت جمہوری طور پر منتخب شخص ہٹلر نے نسلی تعصب کی ایسی بنیاد ڈالی کہ کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ، یہودیوں سے پوچھو کہ انھوں نے سیکولر اور جمہوری ہٹلر کی جمہوریت اور سیکولر ازم کی کیا قیمت ادا کی ہے۔
بھارت کے لیڈران جواہر لال نہرو ، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی جمہوری طور پر منتخب سیکولر حکمران تھے۔ بھارت کا آئین بھی سیکولر ہے جو مذہب کو ریاست سے کوسوں دور رکھتا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری اور سیکولر ملک کہلاتا ہے جہاں مسلمانوں کا خون گزشتہ 75سالوں سے بہایا جارہا ہے ، سیکولر بھارت دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑی پٹی ہے جہاں غربت کی انتہا علاقائی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت غربت کے خط سے سب سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ غربت کے دوسرے نمبر پر دلت ہیں جسے شودر بھی کہتے ہیں یہ اس لیے غربت کا شکار ہیں کہ ہندو مذہب انھیں بدترین حالت میں دیکھنا چاہتا ہے ۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں 75سالوں سے مسلمان کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھانے والا ، لاکھوں مسلمان کشمیریوں کو شہید کرنے والا کوئی مذہبی رہنما نہیں ہیں بلکہ سب کے سب سیکولر اور جمہوری حکمران تھے اور موجودہ بھارتی حکمران مودی جو کہ انتہا پسند ہندو ہے کہ دور میں بھی مسلمانوں کا قتل عام کرنا اور ان کے املاک کو آگ لگا دینا ، ان کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے وہاں ہندو بسا دینا ، مساجد کو منہدم کرکے ان کی جگہ مندر بنا دینا معمول کے واقعات ہیں۔
علاوہ ازیں کوئی سکھوں سے پوچھے انھوں نے اس بھارتی جمہوریت اور سیکولر ازم کا 1984ء میں کیسا مزہ چکھا تھا جب ان کو دلی کے بازاروں میں گھسیٹا گیا تھا ، ان کے گلوں میں ٹائر ڈال کر ان ٹائروں کو آگ لگا دی تھی اور آج بھی بھارتی سکھ مظالم کا شکار ہیں۔ جی ہاں ! یہ وہی بھارت ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں جمہوریت کا تسلسل بھی ہے اور سیکولر ازم کا آئینی تصور بھی ہے ۔
ا س سارے ظلم و ستم ، قتل و غارت گری اور تشدد کے باوجود کہا جاتا ہے کہ سیکولر ازم اور جمہوریت ہی نجات کے دو راستے ہیں۔ اسلام پر گفتگو کرنی ہوتو یہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ اسلام کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کا ذکر نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تاریخ جنگوں اور لڑائیوں سے بھری ہے ، تمہارے حکمران ظالم تھے لیکن وہ یہ منطق سیکولر ازم پر لاگو نہیں کرتے ، حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ جس قدر ظلم و بربریت سیکولر آمروں اور سیکولر جمہوری حکمرانوں کے ادوار میں اس دنیا نے دیکھی ، تاریخ میں اس سے زیادہ ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کسی اور دور میں نہیں ہوا۔
جنگ عظیم اول اور دوم کے دوران ایسے حکمران دنیا پر حکومت کرتے تھے جو جمہوری طور پر منتخب بھی تھے اور سیکولر بھی ۔ برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، امریکا ، بیلجیم ، اٹلی و دیگر تمام ممالک سے مذہب کو ریاست سے الگ بھی کردیا گیا تھا اور حکمران بھی جمہوری طور پر منتخب تھے۔
ان سیکولر جمہوری حکمرانوں نے جنگوں میں اتنے لوگ قتل کیے جن کی تعداد پوری انسانی تاریخ میں قتل ہونے والے افراد سے زیادہ ہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ سیکولر ازم کا اصل چہرہ یہ ہے کہ جو انسان کی مروجہ اقدار اور روایت کے برعکس ایک ایسا تصور ہے جسے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جو افراد اپنی روایت اور اقدار کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرتے ہیں انھیں قتل کردیا جاتا ہے یا ان پر تشدد سے سیکولر ازم نافذ کیا جاتا ہے ۔ وہ مصر، عراق یا انڈونیشیا کے مذہب سے لگاؤ رکھنے والے مسلمان ہوں ، جرمنی کے یہودی یا بھارت کے مسلمان ،سکھ اور عیسائی اور شودر سب سیکولر ازم کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔
سیکولر ازم نے ہمیشہ لوگوں کا خون بہایا اور اس کو ایک خوبصورت تصور دیا کہ ہم ان لوگوں کو اس لیے قتل کررہے ہیں کہ یہ جمہوریت اور سیکولر ازم کے دشمن ہیں ، تخریب کار ہیں ، دہشت گرد ہیں ، گوریلے ہیں ، ملک دشمن ہیں ، غدار ہیں ۔ یہی سیکولر ازم ہے اور یہی اس کا بھیانک چہرہ ہے اور یہ دو سو سال سے دنیا پر حکمران ہے ۔