رمضان مہنگائی اور کرنے کے کام
ہمیں اپنے پڑوسیوں کے بارے میں بھی آخرت میں جواب دینا ہوگا جب کہ ملازمین کے تو اس سے بھی بڑھ کر معاملات ہیں
راقم کے گزشتہ کالم '' سیاسی محاذ آرائی میں مڈل کلاس رل گئی'' کے بارے میں قارئین نے پسندیدگی کا اظہار بھی کیا اور اس نقطہ نظر کی تائید کی کہ اس وقت مڈل کلاس یعنی سفید پوش طبقہ سخت تنگ دستی اور مالی مسائل کا شکار ہے۔
نجی یونیورسٹی کے ایک ڈاکٹر صاحب کا تو کہناتھا کہ صورتحال اس سے بھی کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ زیادہ تر قارئین کامشورہ تھا کہ اس ضمن میں میڈیا پر تجاویز بھی پیش کریں تاکہ ان مسائل کا کسی حد تک حل تو نکلے،چنانچہ اس کالم میں راقم کی کو شش ہے کہ اس حوالے سے تجاویز پیش کیں جائیں تاکہ صاحب اختیار اور صاحب حیثیت افراد اپنا مثبت کر دار ادا کرسکیں۔
راقم کے خیال میں چونکہ سفید پوش طبقے کی اکثریت ملازمت پیشہ ہوتی ہے اس لیے جہاں وہ کام کرتے ہیں ان اداروں کے منتظمین کے فیصلے سفید پوش طبقے کی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً اب سے کوئی بیس تیس برس قبل کے نجی اداروں کے اپنے ملازمین کے لیے کیے جانے والے اہم فیصلوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت ملازمین کی ہمت افزائی اور کار کردگی مزید بہتر بنانے کے لیے انھیں سالانہ منافع سے ایک یا ایک سے زائد بونس دیے جاتے تھے، اسی طرح مختلف تہوار خاص کر عید پر اضافی تنخواہ، عیدی یا تحائف بھی دیے جاتے تھے۔
ہمارے ایک جاننے والے جو کسی گارمنٹ فیکٹری میں سلائی کا کام کرتے تھے انھیں فیکٹری میں ہی تیار ہونے والے جوڑے تہوار کے موقعے پر مفت دیے جاتے تھے اور مٹھائی کے ڈبے گھر کے لیے الگ دیے جاتے تھے۔ ایک صحافی دوست نے بتایا کہ ان کا ادارہ سال میں کئی کئی بونس یعنی اضافی تنخواہ بھی دیتا تھا۔
رمضان کے مہینے میں تو بہت سے ادارے اپنے ملازمین کو کھجور وغیرہ کا تحفہ اور عیدی الگ دیتے تھے،ہمارے ایک پڑوسی کسی سیمنٹ فیکٹری میں کام کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ صبح جب وہ کام کا آغاز کرتے تھے تو ان کی ٹیبل پر ایک گلاب کا پھول روزانہ لاکر رکھا جاتا تھا اور دس بجے چائے کے وقفے میں تمام ملازمین ایک جگہ جمع ہوکر چائے بھی پیتے تھے۔
لیکن اب ہر جگہ صورتحال یکدم الٹ ہوگئی ہے۔اکثر اداروں میں تو ملازمین کے پینے کے لیے دی جانے والی چائے بھی بند کردی گئی ہے۔ کام کا لوڈ اس قدر ڈال دیا جاتا ہے کہ ملازم اپنے پیسے کی چائے منگواکر فرصت سے پی بھی نہیں سکتا، ایک ہاتھ میں چائے کا کپ اور دوسرے ہاتھ سے کام میں لگا رہتا ہے۔
مختصر الفاظ میں اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اب نجی ملازمت کرنے والے کو ایک جانب حد سے زیادہ کام لے کر اس قدر تھکا دیا جاتا ہے کہ وہ کوئی دوسری پارٹ ٹائم ملازمت کرنے کے بھی قابل نہیں رہتا اوردوسری جانب جو تنخواہ اسے دی جاتی ہے وہ اس قدر کم ہوتی ہے کہ گھر کا خرچ چلانا بھی ممکن نہیں رہتا۔
اس ضمن میں وہ تمام لوگ جن کے ہاں خواہ ہزاروں لوگ ملازمت کر رہے ہوں یا گنتی کے چند لوگ، ایسے مالکان اپنے ملازم پیشہ افراد کو دی جانے والی تنخواہوں کا ازسر نو جائزہ لیں اور ایک چھ افراد پر مشتمل گھرانے کے اخراجات کی فہرست بنا کر دیکھیں کہ ایک گھر کے سربراہ کو کس قدر رقم ماہانہ اخراجات کے لیے درکار ہوتی ہے اور وہ کتنی تنخواہ اپنے ملازمین کو دے رہے ہیں؟
ظاہر ہے مالکان اس بڑے فرق کو ختم تو نہیں کر سکیں گے جو ملازمین کے اخراجات اور تنخواہوں کے مابین ہوگا مگر اپنے سفید پوش ملازمین کی مالی مشکلات کا اندازہ کرنے کے بعد کسی حد تک تو ملازمین کی وہ مراعات دوبارہ سے شروع کر سکتے ہیں جو ملازمین کو آج سے بیس تیس سال پہلے دی جاتی تھیں یا کم ازکم رمضان و عید جیسے تہواروں پر ہی رقم خرچ کرکے نیکی کما سکتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عموماً آج کل یہ روش چل نکلی ہے کہ فلاحی اداروں کو بڑی بڑی امدادی رقم دے دیں،پیشہ ور گداگروں کو بغیر سوچے سمجھے دیدیں مگر اپنے ورکروں کے ساتھ کوئی فلاح نہ کریں۔
ہماری اکثریت چونکہ مسلمان ہے لہٰذا قابل غور بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے بارے میں بھی آخرت میں جواب دینا ہوگا جب کہ ملازمین کے تو اس سے بھی بڑھ کر معاملات ہیں یعنی وہ جہاں کام کر رہے ہیں وہاں اعلیٰ انتظامیہ اور مالک کے دفتر کے پڑوسی بھی ہوئے اس طرح اگر کسی نے اپنے ملازم کو ایک روپیہ کم بھی اجرت دی تو یہ حقوق العباد کا معاملہ ہو جائے گا اور اگر کسی ملازم کے گھر میں فاقہ ہوا تو بھی آخرت میں جواب دہی ہو گی کہ کس طرح ایک جانب بڑی بڑی رقم امداد میں دی گئیں مگر اپنے ملازمین(اور ایک طرح سے دفتری پڑوسی) کی داد رسی نہیں کی گئی ۔
اسی طرح سے آپ کے اگر مکان یا مکانات کرائے پر چل رہے ہیں تو کچھ دیر کے لیے ان کی معلومات کریں مثلاً اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس کی ماہانہ آمدن پچاس ہزار ہے اور آپ اس سے کرایہ بیس ہزار ماہانہ لے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بقایہ تیس ہزار میں سے اپنے بجلی، گیس اور پانی کے بل بھی ادا کر رہا ہے اور اگر اس کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو اس کا خرچ بھی اٹھا رہا ہے اور گھر چلانے و دیگر اخراجات اس کے الگ ہونگے۔
یوں کسی سفید پوش کی خستہ مالی حالات کا علم منٹوں میں بغیر کسی بڑی تحقیق کے معلوم ہوسکتا ہے اور پھر اپنی حیثیت کے مطابق اس کے کرائے میں کمی بھی کی جاسکتی ہے یا کرایہ وقت پر نہ ملنے پر کرائے دار کو مہلت بھی دی جا سکتی ہے یا اور کسی طریقے سے اس کی مدد کی جا سکتی ہے۔
راقم کے ایک جاننے والے بزرگ کراچی شہر میں اسٹیٹ ایجنٹ کا کام کرتے تھے انھوں نے اپنے گھر کی دکانیں کرائے پر دی ہوئی تھیں، ایک روز میں نے ان سے کہا کہ آپ کی دکانوں کا کرایہ دوسروں کے مقابلے میں تقریباً آدھا ہے آپ کرایہ بڑھاتے کیوں نہیں؟ کہنے لگے کہ ''مجھے تو اللہ نے بہت دیا ہے گزارا ہو ہی جاتا ہے، یہ بیچارہ موٹر مکینک ہے یہ کیسے زیادہ کرایہ دے سکتا ہے؟ میرے تعاون سے اس کی روزی چل رہی ہے تو چلنے دو!''
ایک اور میرے جاننے والے بزرگ بفرزو ن، کراچی میں فلیٹس کے نیچے کریانہ کی چھوٹی سی دوکان چلا تے تھے، محلے کے سفید پوش ان سے ماہانہ ادھار سامان لیتے تھے، ایک روز میرے سامنے پاکستان اسٹیل کے ایک آفیسر سامان لے کر گئے اور کہتے گئے کہ'' ابھی تنخواہ نہیں آئی ہے'' یہ بزرگ بولے''کوئی مسئلہ نہیں۔''
میں نے جب یہ سنا تو ان بزرگ سے کہا کہ'' آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو تو چار چار، چھ چھ مہینے بعد تنخواہیں ملتی ہیں''یہ بزرگ مجھ سے کہنے لگے ''مجھے سب پتہ ہے اور یہ بھی پتہ ہے جیسی ہی تنخواہ آئے گی یہ ادھار بھی واپس کرنے آجائیں گے، اللہ تعالیٰ سب کی مشکلیں آسان کرے!(آج یہ بزرگ دنیا میں نہیں رہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین)
یہ دونوں واقعات جن کا راقم نے ابھی تذکرہ کیا ہے، کوئی دس برس قبل کے ہیں اور آج تو سفید پوش گھرانوں کو پہلے سے کہیں زیادہ مدد کی ضرورت ہے۔ آئیے کچھ دیر اس مسئلے پر سوچیں کہ ہم اس ضمن میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔