سرکاری اداروں کی مجوزہ نجکاری
بائیس خاندانوں کی امارت کا شور ڈال کرملک کی معاشی اور اقتصادی ترقی کو یک دم بریک لگا دیا۔۔۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ہے کہ سرکاری انتظام میں جتنے بھی ادارے اِس ملک میں اس وقت چل رہے ہیںسب کے سب خسارے میں ڈوبے جا رہے ہیںچاہے وہ خواہ مکمل سرکار کے کنٹرول میں ہوں یا خود مختار کارپوریشن کا درجہ ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔ آپ کسی بھی بڑے ادارے کو اُٹھا کے دیکھ لیں وہاں کوئی منافع تو درکنار ماہانہ خسارہ اربوں روپے سے کم نہیں ہوگا۔ملک کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اِس ملک و قوم کے ساتھ جو سب سے بڑی زیادتی کی تھی وہ اپنے سوشلسٹ نظریات کوجلا بخشنے کی غرض سے اِس ملک کے بڑے بڑے اداروں کو نیشنلائزڈ کر کے اُنہیں سرکار کے انتظام میں دے دیا۔
بائیس خاندانوں کی امارت کا شور ڈال کرملک کی معاشی اور اقتصادی ترقی کو یک دم بریک لگا دیا۔ اُن کی اِس پالیسی سے نہ صرف نجی شعبے کی جانب سے سرمایہ کاری کو زبردست دھچکا لگا بلکہ پہلے سے موجود اداروںکی حالت بھی دگرگوں ہوکر رہ گئی۔ جتنے کارخانے جو اُس وقت منافعے میں چل رہے تھے قومی تحویل میں لے کر اور وہاں ضرورت سے زیادہ ملازمتیں دے کراُنہیں خسارے کی دلدل میں ڈبو دیا گیا۔
بینکوں اور اسکولوں کو بھی سرکار کے انتظام میں دیکر وہاں کی شکل و صورت ایسی بگاڑی گئی کہ سارے کا سارا عملہ کارکردگی دِکھانے کی بجائے مفت کی روٹی کے چکر میں پڑ گیا۔ اُنہیں اِس خوف سے بے نیاز کر دیا گیا کہ کام نہ کرنے کی صورت میں کوئی اُنہیں جاب سے نکال بھی سکتا ہے۔ اِسکولوں کا معیار دن بدن گرتا رہا ۔اساتذہ بڑی بڑی تنخواہیں لے کر بھی بچوں کو پڑھانے کی بجائے آرام سے مزے کرنے لگے۔ٹوٹے پھوٹے فرنیچر پر مشتمل اسکولوں کی عمارتوںکی خستہ حالی ایسی ہو گئی کہ وہ قدیم زمانے کے کوئی کھنڈر معلوم ہونے لگے۔رفتہ رفتہ متوسط اور امیر گھرانوں کے بچے دیگر اسکولوں میں پڑھنے کو ترجیح دینے لگے اور سرکاری اسکولوں میں صرف غریب اور نادار لوگوں ہی کی اولاد مجبوراً پڑھتی رہی۔
کارخانے اور فیکٹریوں میں گرچہ مزدوروںکی حق تلفی کچھ کم ہوگئی لیکن مزدوروں نے بھی اِس کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر اپنے تیور بدل لیے اور آئے دن کی ہڑتال اور مالکان سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کو اپنا مشغلہ بنا لیا۔ وہاں سیاسی مداخلت اور یونین سازی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ مزدور یونین سے وابستہ لوگ بناء کام کیے موج اُڑانے لگے اور مالکان کو ڈرا دھمکا کر اپنے مطالبات منوانے لگے۔یوں نئے کارخانے اور فیکٹریاں لگانے کا عمل مکمل طور پر بند ہوگیا۔ ادارے تباہ و برباد ہوئے، خسارے کے بوجھ تلے دبتے گئے اور قوم اِس کا خمیازہ بھگتی رہی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی بعد میں آنے والی حکومتوں نے اداروں کو قومیانے کی اِس پالیسی کو اگرچہ دوبارہ نہیں اپنایا لیکن مزدور دوستی کے نام پر سرکاری اداروں میں اپنے جیالوں کی اتنی غیر ضروری بھرتیاں کردیں کہ اُنہیں تنخواہیں دینے کے لیے اِن اداروں کے پاس پیسے نہیں رہے اور اب قومی خزانے سے ہر ماہ اربوں روپے نکال کے اُنہیں پالا جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ جیالوں کو نوکریاں دینا اگر کوئی جرم ہے تو وہ ہر بار یہ جرم کرینگے لیکن بھائی اُن کے اِس جرم کی سزا غریب قوم کیوں بھگتے؟ قوم کے خزانے سے نکالے جانے والے ہر ماہ اربوں روپے کس پر بوجھ ہیں۔ کوئی حکمراں یا سیاستداں اپنی جیب سے یہ خسارے تو پورے نہیں کرتا وہ تو قوم پر مہنگائی مسلط کر کے اپنے بجٹ کے اعدادوشمار درست کر لیتا ہے۔
خساروں میں چلنے والے اِن اداروں کا سارا بوجھ یہ قوم ہی برداشت کرتی رہی ہے۔کسی بھی ادارے میں جہاں 1000 محنت کشوں کی گنجائش ہو وہاں اگر تین چار ہزار افراد بھرتی کر لیے جائیں تو نتیجہ تو اُس ادارے کی تباہی کی صورت میں ہی نکلے گا۔ پھر یہ کیسی مزدور دوستی ہوئی کہ جس ادارے سے مزدور کا پیٹ بھر رہا ہو اُسے خسارے میں ڈال کر تباہ و برباد کر دیا جائے۔پاکستان اسٹیل ملزکی موجودہ ابتر صورتحال اِس کی ایک واضح مثال ہے، جہاں ضرورت سے زیادہ افراد کو خالصاً سیاسی بنیاد پر بھرتی کیاگیا اور یہ منافع بخش ادارہ آج پوری قوم کے لیے سفید ہاتھی بن چکا ہے ۔ وہ اپنے اخراجات تو کیا پورے کرتا اپنے ملازمین کی تنخواہوں کے لیے بھی ہر ماہ وفاق کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔یہی حال اُن دوسرے تمام محکموں کا ہے جو قومیائے جانے کی غلط پالیسیوںکے سبب تباہی کے دہانے پر پہنچا دیے گئے۔
اب اگر اصلاحِ احوال کے لیے اِن اداروں کی پرائیوٹائزیشن کا عمل شروع کیا جاتا ہے تو وہی سیاسی پارٹی مزدور دوستی کا دم بھرتے ہوئے اُس کی مخالفت پر تُل جاتی ہے۔ حالانکہ حقائق اِس بات کے گواہ ہیں کہ اب تک جن اداروںکو نجی ملکیت میں دیا گیا ہے وہ پہلے سے کہیں بہتر کارکردگی دِکھانے لگے ہیں اور خسارے سے نکل کر منافع بخش ادارے کی صورت اختیار کرنے لگے ہیں۔ پی ٹی سی ایل ،کے ای ایس سی، الائیڈ بینک، مسلم کمرشل بینک سمیت کئی محکمے پرائیوٹائزیشن کے بعد اپنے بل بوتے پر نہ صرف عمدہ کارکردگی دکھا رہے ہیں بلکہ خوب منافع بھی کما رہے ہیں۔اِس سے قبل اُن کی جو حالت زار تھی وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ بینک کا عملہ اپنے کسٹمرز سے احترام اور حسنِ سلوک سے بات کرنے کی بجائے بد سلوکی اور بد تمیزی سے پیش آیا کرتا تھا۔
اُن کا لباس اور اُن کا اسٹائل کسی ڈاکخانے یا ریلوے اسٹیشن کے ملازمین سے خوب تر نہ تھا۔ماڈرن ، جدید اور بدلتی دنیا کے ساتھ چلنے کی بجائے وہ اپنے قدیم طور طریقوں پر ہی قائم رہنے پر مصر تھا ۔اُنہیں معاشرے میں مقابلے کے ذریعے ترقی حاصل کرنے کا کوئی شوق و جذبہ نہیں تھا۔ وہ صرف یونین بازی اور غنڈہ گردی سے فوائد حاصل کرنے کے خواہشمند ہو چکے تھے۔ کام نہ کرنا اور گھر بیٹھے تنخواہ لینے کی اُنہیں عادت سی ہو چکی تھی جسے خدا خدا کرکے پرائیوٹائزیشن کے ذریعہ سدھارا گیا ۔اب اِن اداروں کی حالت یکسر بدل چکی ہے۔ صاف ستھرا ماحول اور مہذب اور با تمیز عملہ اپنے کسٹمرز کی خدمت کے لیے ہمہ تن مصروف اور کوشاں رہتا ہے۔اِن کی مالی حالت پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہو چکی ہے۔پرائیوٹائزیشن کی پالیسی کے مخالف صرف اپنی سیاسی دُکان چلانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔ وہ مزدور دوستی کے نام پر مزدور دشمنی کر رہے ہیں۔
خساروں میں چلنے والے ادارے قوم پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ اُنہیں کوئی بھی حکومت جوں کا توں چلا نہیں سکتی ۔ گنجائش سے زیادہ ملازمین کسی بھی کمرشل ادارے کے لیے مالی خسارے کا سبب بنتے ہیں۔ وقت اور تجربے نے ثابت کیا ہے کہ نجی تحویل میں چلنے والے کمرشل ادارے مارکیٹ میں مقابلے کے رجحان اور اعلیٰ کارکردگی کی بدولت دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔لہذا پرائیوٹائزیشن پالیسی کے مخالفین اپنے طرزِ عمل اور اندازِ فکر پر نظر ثانی کریں اور قوم پر اپنی سابقہ غلط پالیسیوں کا مزید بوجھ نہ ڈالیں۔اداروں اور محکموں کی اصلاح کی اگر کوئی دوسری تجویز اُن کے ذہن میں موجود ہے تو وہ پیش کریں ورنہ خوامخواہ مخالفت برائے مخالفت کی خاطر پرائیوٹائزیشن کے شفاف عمل کی راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کریں۔ کوشش کریں کہ ملک کے تمام مالی اور کمرشل ادارے خسارے کی سرمایہ کاری سے نجات حاصل کر کے منافع بخش اداروں کے طور پر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کر دار ادا کریں۔