وِیران باغ
ہمارے مسلے کو سادہ الفاظ میں سمجھنے کے لیے اس حکایت پر توجہ دینا ضروری ہے
ایک ویران باغ کے درخت پر بیٹھے طوطے نے طوطی سے پوچھا کہ جب ہم پہلی بار یہاں آئے تو یہ باغ سرسبز و شاداب اور آباد تھا لیکن یہ آخر کیوں اُجڑ گیا؟
طوطے نے جواب دیا کہ جب سے اُلو یہاں آیا ہے، باغ اپنی شادابی کھونے لگا اور آخر اُجڑ گیا۔ اُلو بھی قریب بیٹھا، یہ باتیں سن رہا تھا وہ جھٹ سے بولا، یہ باغ میری وجہ سے نہیں اُجڑا، اُجاڑ ہونے کی وجہ کچھ اور ہے اور یہ وجہ ناانصافی ہے۔
طوطے نے اس کی بات نہ مانی تو اُلو بولا ، چلو آزما لو۔ اُلو نے کہا کہ میں عدالت میں دعویٰ دائر کرتا ہوں کہ طوطی میری بیوی ہے اور تم نے اسے اغوا کر لیا ہے! اگر میں مقدمہ جیت گیا تو تمہیں یقین آ جائے گاکہ نا انصافی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ اُلو نے طے شدہ پروگرام کے تحت مقدمہ دائر کیا اور دونوں فریق عدالت میں پیش ہوئے۔ اُلو نے دلائل اور شہادتوں سے ثابت کر دیا کہ طوطا غاصب ہے اور طوطی اصل میں اس کی بیوی ہے۔
عدالت نے اُلو کے حق میں فیصلہ دے دیا اور طوطی کو حکم دیا کہ وہ اُلو کے ساتھ جائے۔ طوطا سرپکڑ کر بیٹھ گیا کہ، عدالت نے کس بنیاد پر یہ فیصلہ دیا ہے۔پوری دینا جانتی ہے کہ طوطا اور طوطی ہم جنس ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دو غیر جنس آپس میں شادی کر سکیں۔ طوطا یہ سوچ کر رونے لگا۔ اُلو نے جب طوطے کی یہ حالت دیکھی تو کہا کہ اب تجھے پتہ چلا کہ باغ کیوں وِیران ہوا۔ جب کسی معاشرے میں نا انصافی انتہا کو پہنچ جائے اور انصاف کاحصول ممکن نہ ھو تو خوشحالی ختم ہو جاتی ہے۔
طوطے اور اُلو کا یہ واقعہ بظاہر ایک کہانی ہے لیکن اس میں بڑی دانائی اور حکمت پوشیدہ ہے۔ آج اگر ہم دنیا کے مختلف ممالک اور معاشروں کا تجزیہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے جن ممالک اور معاشروں میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے وہ بتدریج اپنی ترقی اور خوشحالی کھودیتے ہیں اوروہاں کے عوام پریشانی اور مشکلات کا شکاررہتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے بھی ہمیں اپنے نظام انصاف کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہمارا نظام انصاف کے تقاضے پورے کر رہا ہے ؟ نچلی عدالتوں سے لے کر اعلیٰ عدالتوں کی صورتحال کیا ہے؟ عام آدمی کو انصاف کے حصول میںکیا دقتیں ہیں؟ گواہی اور شہادت کا نظام کیسا ہے؟ وکلاء کی فیس اور ان کی صلاحتیں کیسی ہیں؟
ججز کی سلیکشن اور ترقی کا طریقہ کار کیا میرٹ کے سبھی تقاضے پورے کر رہا ہے؟عدالتی چارہ جوئی کے دوران سائل کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس وقت پاکستانی عوام کو جن مشکلات کا سامنا ہے، ان میں انصاف تک رسائی تقریباً نا ممکن ہے۔ لوگ مقدمہ کی طوالت اور تاریخ پر تاریخ کے کلچر سے تنگ آ کر انصاف خریدنے کے جتن میں لگ جاتے ہیں ۔ اس عمل کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب دینا آسان نہیں۔
اخبارات میں ایک خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی ہے کہ پاسپورٹ اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ سے پاسپورٹ بنانے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ اعدادوشمار کے مطابق ہر تین ماہ کے دوران تقریبا پانچ لاکھ افراد پاسپورٹ بنوانے کی درخواستیں دیا کرتے تھے لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر سات لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔یہ تعداد بڑھنے کی وجہ ملک کے معاشی سیاسی اور سماجی حالات ہیں۔
لوگوں کو روزگار کے مواقع نہیں مل رہے ہے، تعمیراتی کام بھی رکا ہوا ہے جس کی وجہ سے مستری اور مزدوروں کو دھاڑی نہیں مل رہی۔بہت سی فیکٹریاں بند ہیں۔نجی اداروں میں بھی کارکنوں کی چھانٹی کی جارہی ہے جس سے لاکھوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔
آپ قانونی طور پر ملک سے باہر جائیں یا غیر قانونی طور پر دونوں صورتوں میں آپ کے پاس پاسپورٹ کا ہونا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ مجبور لوگ پاسپورٹ کے دفاتر کا رخ کرتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر باہر جانے کے دھندے میں لوگوں کی جان تک چلی جاتی ہے۔ حال ہی میں ایک کشتی کے ڈوبنے سے بہت سے پاکستانی جان بحق ہوئے، یہ پہلا موقع نہیں بلکہ ایسی افسوسناک خبر یں پاکستانیوں کا مقدر بن چکی ہیں۔یہ سب کچھ ہمارے ملک میں بیڈ گورننس اور غلط ترجیحات کا نتیجہ ہے۔
جس ملک میں لوگ مفت آٹے کا تھیلہ حاصل کرنے کے لیے ہر روز اپنی جانیں گنوا رہے ہوں وہاں سے ہجرت کا خیال آنا کوئی انہونی بات نہیں۔ بات صرف مزدور اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کی ہی نہیں بلکہ ایک اور خبر کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران کئی لاکھ صاحب علم افراد بھی پاکستان سے ہجرت کرگئے ہیں۔
پاکستانی عوام کواس وقت جس صورتحال کا سامنا ہے، اس پر دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی عالمانہ باتوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن ہمارے مسلے کو سادہ الفاظ میں سمجھنے کے لیے اس حکایت پر توجہ دینا ضروری ہے۔ ستر سال میں یہ ادارے اپنا قومی فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ Grand dialogueگرینڈ ڈائیلاگ شروع کیا جائے۔