کراچی ماضی حال اور مستقبل پہلا حصہ
کراچی غالباً دنیا کا ایک ایسا بڑا شہر ہے جہاں لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی پوری طرح دستیاب نہیں ہیں
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں میں لوگوں کو شہری سہولتیں فراہم کرنے کو اولین ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان گنجان ترین شہروں کے لوگوں کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
کراچی غالباً دنیا کا ایک ایسا بڑا شہر ہے جہاں لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی پوری طرح دستیاب نہیں ہیں۔ کراچی عالمی درجے کا شہر بننے کی دوڑ میں کیوں پیچھے رہ گیا، اس کی ایک نہیں کئی وجوہ ہیں۔ علی اشعر انجم نے اس موضوع پر ایک تحقیق کی ہے جس کے مطالعے سے کراچی کے ماضی، حال اور امکانی مستقبل کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوسکتی ہے۔
وہ کراچی شہر کے ارتقاء کا پس منظر بتاتے ہوئے کئی اہم حقائق اجاگرکرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ1729میں کولاچی کا حصار بند گائوں، 2021 میں دنیا کا پانچواں انتہائی گنجان آباد شہر بن گیا۔ کسی شہر کی ساختی ترقی عالمی طور پر نمایاں تاریخی واقعات کے ساتھ پیچیدہ طور پر وابستہ ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر امریکی خانہ جنگی نے کراچی کی بندرگاہ پر تجارتی حجم میں اضافہ کر دیا تھا یا نہر سوئز کی تعمیر نے ہندوستان میں داخل ہونے کے لیے ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان مختصر ترین مقرر کردہ راستہ کراچی کو بنایا۔ بعدازاں 1947 کے بعد انسانی تاریخ کی انتہائی غیر معمولی نقل مکانی کے سبب شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ 1960 کی دہائی کے سبز انقلاب ، سوویت افغان جنگ امریکا افغان جنگ اور 2010کے سیلاب، جیسے عوامل نے مل کر اس شہر میں مہاجروں کی بھر مارکر دی۔
اس حقیقت سے کراچی کے زیادہ شہری ناواقف ہوں گے کہ 1839 سے قبل 8000 سے 14000 افراد پر مشتمل کراچی کو 3 فروری 1839کو تالپور کے میروں سے جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے قبضے میں لے لیا تو کراچی نے عظیم شہر بننے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی۔
برطانیہ بندرگاہ کی قدرتی محل وقوع سے استفادہ کرنے میں بہت تیز تھا، اس نے ابتدائی طور پر کراچی چھائونی تیار کی تاکہ 1842سے 1899 کے درمیان پہلی اینگلو افغان جنگ میں برطانوی جنگی عزائم کو پروان چڑھایا جائے۔ بعدازاں 1854 میں کراچی کی تزویراتی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے اس نے کراچی پورٹ قائم کی۔
ریلوے انفرا اسٹرکچر کے سبب برطانوی ہند کے لیے کراچی تیزی سے حمل و نقل اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ علاوہ ازیں پنجاب اور اندرون سندھ میں تازہ سیراب کردہ زمینوں کے پیداواری راستوں کے کھلنے سے زرعی برآمدات میں اضافہ ہوگیا اور ابھرتے ہوئے معاشی مرکز نے دیگر علاقوں کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
علی اشعر کے مطابق دو تاریخی واقعات نے زمین کی اہمیت میں اضافہ کردیا اور کراچی شہر کو عالمگیر تجارت اور عالمگیر سیاست کی دوڑ میں شامل کردیا۔ پہلا واقعہ امریکا میں 1861 میں خانہ جنگی کا اچانک شروع ہونا تھا اور دوسرا 1859 میں نہر سوئز کی تکمیل تھی۔
امریکی خانہ جنگی کے وقت امریکا کی اہم برآمدی شئے روئی تھی۔ ایک کنگ کاٹن سفارت کاری کی حکمت عملی برطانیہ کو دبائو میں رکھنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔ جنوب میں روئی کی 2.5 لاکھ گانٹھیں جلادی گئیں تاکہ روئی کی قلت پیدا کردی جائے۔
یورپ کو برآمد کی جانے والی جنوبی روئی کی گانٹھوں کی تعداد جو 1860میں 30 لاکھ تھی وہ 1863 میں کم ہوکر چند ہزار رہ گئی۔ 1860میں روئی کی ایک پونڈ کی قیمت 10 سینٹ تھی۔ وہ 1863 میں بڑھ کر 1.89 ڈالر فی پونڈ ہوگئی۔ تب برطانیہ نے دیگر ممالک کا رخ کیا جو روئی مہیا کرسکتے تھے جن میں ہندوستان، مصر اور برازیل شامل تھے۔
دیگر برطانوی نو آبادیوں میں زرعی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے کنگ کاٹن سفارت کاری ناکام ہوگئی۔ برطانوی حکومت نے حمل و نقل کا ایک بہتر نظام قائم کرنے پر زور دیا تاکہ پیداوار کو کراچی پورٹ کے ذریعے برطانیہ لایا جائے۔ 1877 میں کراچی کو برطانوی ہند کے وسیع و عریض ریلوے نظام سے منسلک کردیا گیا۔ بعدازاں 1887 میں جیٹی تعمیر کی گئی تاکہ پورٹ کی توسیع اور ڈریجنگ کے ساتھ ساتھ ریلوے کے رابطے کو بہتر کیا جاسکے۔
1899 تک کراچی گندم اور برآمد کرنے والا مشرق کا سب سے بڑا اور 1914 تک پوری برطانوی سلطنت میںسب سے بڑا گندم برآمد کرنے والا پورٹ بن گیا۔ اس سلسلے میں ایک ادیب اور نقاد آصف فرخی اپنے ایک مضمون میں کراچی کے ایک اخبار سندھ گزیٹر میں شایع ایک دلچسپ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ ''ہندوستانی منڈی تک رسائی حاصل کرنے کے لیے حوصلہ مند تاجر، خواہ درآمد کنندہ ہو یا برآمد کنندہ، دی گیٹ آف انڈیا تک جانا بہتر سمجھے گا۔ دارالحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل ہونے کے بعد گیٹ وے ٹو انڈیا کراچی متعین کر دیا گیا۔ کراچی، ایشیا میں انتہائی کار گزار اور انتہائی غیر معمولی صلاحیت کا حامل بحری بندرگاہ ہے۔''
دوسری عالمی جنگ کے دوران کراچی کو فوجی اڈے کے طور پر استعمال کیا گیا کیونکہ کراچی نہر سوئز میں داخل ہونے والے بحری جہازوں کے لیے نزدیک ترین بندرگاہ اور روسی سلطنتوں کے لیے گزرگاہ تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہزاروں زخمی فوجیوں کو کراچی لایا گیا تھا اور اس بندرگاہی شہر نے ہندوستان میں وسیع ترین کیمپ اسپتالوں جیسی خدمات انجام دی تھیں۔
وار میموریل سیمیٹریز میں پہلی عالمی جنگ کے 576 فوجی دفن کیے گئے تھے جب کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران کراچی وار سیمیٹریز میں 642 فوجی دفن کیے گئے تھے۔ اس عرصے کے دوران یہ دونوں قبرستان برطانیہ کے لیے کراچی کی اہمیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
1947میں کراچی کی 4 لاکھ آبادی زیادہ تر ہندوئوں اور پارسی برادریوں پر مشتمل تھی۔ جب ہندو، ہندوستان ہجرت کرگئے تو کراچی، ہندوستان سے ہجرت کرنیوالے مسلم مہاجروں کی آباد کاری کا مرکز بن گیا۔ مئی 1948میں تقریباً 470,000 مہاجر پاکستان آئے تھے۔ 1952 تک کراچی میں لگ بھگ 10,000 مہاجرین پناہ کے لیے آتے رہے تھے۔ 1941 اور 1951 کے درمیان شہر کی آبادی تین گنا بڑھ چکی تھی۔
برطانوی حکومت نے شہر میں بلدیاتی حکومت قائم کی تھی۔ سیٹھ ہرچند رائے وشنداس نے حفظان صحت / صفائی ستھرائی میں بہتری کے کام کے علاوہ شہرکا اہم انفرا اسٹرکچر بھی تعمیر کیا۔ برطانیہ ، اپنے دور حکمرانی میں پہلے ہی کراچی کو ایک انتظامی مرکز کے طور پر ترقی دے چکا تھا۔ پرانے شہر میں واقع اہم عمارتیں انگریزوں نے بنائی تھیں۔ پرانے شہر کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کراچی کو پاکستان کا اولین دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا گیا جسے 1958 میں اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔
1960 میں پرانے شہر کو معاشی رول ماڈل کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، یہاں تک کہ شہر کے دوسرے '' پانچ سالہ منصوبہ کو'' سیول، جنوبی کوریا نے بھی اپنا لیا۔ اس عرصے میں شہر ملک کے لیے صنعتی اور تجارتی مرکز کے طور پر ابھر رہا تھا۔ مزید برآں، اس عرصے میں شہر کی کئی نشانیاں تعمیر ہوئیں جن میں مزار قائد اور جنوبی ایشیا کا اس وقت کا بلند ترین کثیر منزلہ حبیب بینک پلازہ شامل تھا۔ 1960 کی دہائی کے وسط تک لوگوں کی بڑی تعداد جو پشتونوں اور پنجابیوں پر مشتمل تھی، پورٹ سٹی میں نفع بخش ملازمتوں کے لیے کراچی منتقل ہوئی۔
علی اشعر انجم بتاتے ہیں کہ 1960 کے عشرے میں جب ایوب خان کے دور میں جدید مشینی طریقے کے استعمال سے سبز انقلاب کا آغاز ہوا تو اس عمل سے پیداوار ضرور بڑھی لیکن بہت سے کسانوں کو خصوصاً جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسانوں کو کراچی کا رخ کرنا پڑا کیونکہ مشینی زراعت کی وجہ سے ان کا روزگار ختم ہوگیا تھا۔
1960 کے عشرے کی صنعتی ترقی کے علاوہ 1970 کی دہائی کے ابتدائی برسوں کے بعد شہر کو خلیجی ریاستوں سے بھاری ترسیلات زر اور سرمایہ کاری حاصل ہوئی اور جائیدادوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں جس کے نتیجے میں شہر میں رہائش کا بحران پیدا ہوگیا۔ 1970 کی دہائی کے وسط میں صنعتی جبر کی وجہ سے مزدوروں میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی۔
سوویت افغان جنگ 1980 اور 1990 کے دوران تقریباً 10 لاکھ افغان مہاجرین کراچی میں آگئے۔ اس وقت کراچی پہلے ہی سیاسی ہنگامہ آرائی کا سامنا کر رہا تھا کیونکہ نسلی تنازعات عروج پر تھے، افغانستان میں جنگ کے دوران نیٹو کی فوجی رسد کے ذریعے اسلحے آنے کے ساتھ شہر میں جرائم کی شرح شدید طور پر بڑھ گئی۔ (جاری ہے)