زباں فہمی 181 اردو کا پنجابی سے تعلق دوسرا حصہ

اردو زبان زیادہ تر، خانقاہ نشینوں کی گود میں پلی ہے


زباں فہمی 181؛ اردوکا پنجابی سے تعلق (دوسرا حصہ) تحریر: سہیل احمد صدیقی، فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

ریختہ کی طرز کی نظموں میں سب سے قدیم ریختہ، شیخ فرید الدین گنج شکر (1173ء تا 1265ء)کی طرف منسوب ہے، علاو ہ بَریں اُن کے بعض اُردو فقرے بھی ملتے ہیں۔ان کے بعد شیخ عثمان، شیخ جنید اور منشی ولی رام کے ریختوں کی باری آتی ہے جوگیارہویں صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں۔

بارہویں صدی ہجری کی متفرق نظموں میں زیادہ تر صوفیانہ نظمیں داخل ہیں جن میں اکثر حضرت غوث الاعظم کی شان میں ہیں۔ایسی نظمیں چونکہ کثیر تعدادمیں ملتی ہیں، اس لیے میں نے صرف چنداِنتخاب کرلی ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان زیادہ تر، خانقاہ نشینوں کی گود میں پلی ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ ان بزرگوں کا تعلق زیادہ تر عوام الناس سے تھا۔دیسی اور پردیسی اُن سے فیض کے طالب تھے۔ لوگ دوردور سے اپنی مرادیں لے کر اُن کے پاس جاتے تھے، اس لیے ملکی زبان کا جاننا، اس میں بات چیت کرنا اُ ن کے لیے ضروری تھا۔

دوسرے، صوفی پیشہ لوگ،اکثر سیا ح اور جہاں گرد ہوا کرتے تھے اور اُردو اُن ایام میں ہندوستان کے گوشے گوشے میں بولی جاتی تھی، اس لیے سیاحوں، صوفیوں اورسپاہیوں کے لیے، اس زبان کا جاننا اَز بَس ضروری تھا"۔(پنجاب میں اردو از شیرانی، اشاعت اول، ص 226)۔

پروفیسر شیرانی کے اس بیان کے متعلق فوری ردعمل کے طور پر ایک محقق قاری یہی کہہ سکتا ہے کہ بابافرید کے بعد کے نام، پانچ سو سال کے وقفے سے کیوں سامنے آئے، جبکہ اردو کی پرداخت کا سلسلہ جاری تھا، دیگر یہ کہ یہ سلسلہ بہ یک وقت، برِ عظیم کے مختلف دوردراز مقامات پر جاری تھا، اس لیے ان سب کو یکجا کیے بغیر کسی ایک بھی حصے کی اردو کے فروغ کے لیے انجام دی گئی خدمات کا ذکر ادھورا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں : زباں فہمی 180؛ اردوکا پنجابی سے تعلق (پہلا حصہ)

یہاں دور کیوں جاتے ہیں، سندھ اور بلوچستان، سرحد (خیبر پختون خوا)تو بالکل جُڑے ہوئے ہی تھے، دِلّی و نواح کے مقامات بھی کچھ دور نہیں تھے اور پھر حیرت انگیز طور پر دکن یعنی پورا جنوب شانہ بہ شانہ چل رہا تھا، تو پھر آپ گوجری، گجراتی، دکنی اور ہریانی سمیت تمام زبانوں اوربولیوں میں تخلیق ہونے والے ادب بشمول لو ک ادب کو ایک جگہ رکھ کر دیکھیں۔

گزشتہ قسط میں بھی بابا فرید کے کلام کا ذکرہوا تو لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھتے چلیں کہ اُن کی پنجابی اور اردو میں کتنا فرق تھا۔گُرو (گورو)گرنتھ صاحب(یعنی سکھوں کی مقدس مذہبی کتاب) میں شامل، ان سے منسوب ایک اشلوک یوں ہے:
بے نمازا کُتیا! ایہہ نہ بھلی رِیت
کبھی چل نہ آ یا پنجے وقت مَسےِت
اُٹھ فریدا! وضو ساج صبح نماز گزار
جو سر سائیں نہ نیویں،سو سرکپ اُتار
(ترجمہ:"اے بے نمازکُتے!تیرا یہ طریق اچھا نہیں کہ تو کبھی پانچ وقت نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں نہیں جاتا۔اے فرید! صبح اُٹھو اور نماز پڑھنے کے لیے وضو کرو، وضوکرکے نماز اداکرو۔جوشخص اپنا سر خدا کے حضورنہیں جھکاتا،اُس کو دَھڑ سے الگ کردینا چاہیے")

یہاں خاکسار،تفسیری انداز تحریر میں بے اختیار یوں لکھنا چاہتا ہے:

فائدہ: یہاں بہ یک وقت دو اہم نکتے دریافت ہوئے۔الف)، صوفی باصفا کبھی بھی خلاف ِ شریعت کوئی درس نہیں دیتا اور خود پابندی کے ساتھ ساتھ اپنے مریدین کو پابندی شریعت کی تاکید کرتاہے اور ب)، بابا فرید جیسے صوفیہ نے عربی، فارسی اور مقامی زبانوں،بولیوں کے الفاظ کچھ اس طرح لڑی میں پروئے کہ خود بخود،ایک عظیم تر زبان، ریختہ المعروف اردو کی بنیاد پڑتی چلی گئی اور یہی رِیت ہر شعبے سے متعلق عوام وخواص نے اپنائی۔(صحبت علماء کا اثر ہے،ورنہ اپنے آپ کو عالم یامفسر بتاناہرگز مقصود نہیں!)
بابا فرید ہی کا ایک اور اشلوک دیکھیے جس میں زبان کا رنگ، ملتانی یا سرائیکی معلوم ہوتاہے:
فریداؔ روٹی میری کاٹھ دی، لاون میری بھُکھ
جیہناں کھاوی چوپڑی،گھنے سہن گے دُکھ
("اے فرید! میری روٹی لکڑی کی ہے جو میری بھوک مٹاتی ہے لیکن جنھوں نے چپڑی ہوئی کھائی ہیں، وہ دکھ سہتے ہیں"یعنی عیش وعشرت کی زندگی بسرکرنے والے بالآخر دُکھ سہتے ہیں، سادہ خوراک اور فقر وفاقہ میں مست رہنے والے نہیں)

اب آئیے بابافرید کی اردو بھی دیکھ لیں جو بقول سلیم یزدانی اس بات کا گویا اشارہ ہے کہ "اردو زبان کی ابتداء تو بابافرید کی خانقاہ ہی سے ہوئی ہے"۔بہت مشہور حکایت ہے کہ شیخ جمال الدین ہانسوی کے انتقال کے بعد اُن کی خادمہ، مادرِ مومناں اُن کے فرزند کو بابا صاحب کے پاس لائیں تو انھوں نے اُس بچے پر عنایات فراواں کرتے ہوئے خوب نوازا اور جب خادمہ نے کہا کہ "خوجا (خواجہ)برہان الدین بالا ہے" یعنی چھوٹا ہے تو مراد یہ تھی کہ ایک بچہ اتنی بڑی ذمے داریاں کیسے اُٹھائے گا، یہ سن کر بابافرید نے تبسم فرماتے ہوئے ارشادکیا: "مادرِ مومناں! پنوں کا چاند بھی بالا ہوتا ہے" یعنی چودھویں رات کا چاند بھی،پہلی تاریخ کو چھوٹا ہوتا ہے اور بتدریج بڑا ہوکر،اپنے درجہ کمال کو پہنچتا ہے۔ بابا فرید کا ایک دوہا دیکھیں جو قدیم ہندی اور ہندوی یعنی اردو کا شاہکار ہے:
کاگا نین نکاس دوں اور پی کے رُخ لے جائے
پہلے دَرس دکھا کے پاچھے لیجے کھائے
یہاں ہمیں بہ یک وقت دکنی اور گجراتی کے رنگ بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
بابا فرید ہی سے منسوب یہ مشہورترین کلام بھی یاد رہے:
کاگا سب تن کھائیو،چُن چُن کھائیو ماس
دونیناں مت چھوئیو پر ویکھن دی آس
(اس کے متن میں بہت اختلاف ہے)
بابا فریدہی کی ایک نظم "جھولنا شیخ فرید گنج شکر" سے اقتباس دیکھیں تو یہی بات مزید پختہ ہوتی نظر آتی ہے:
جلی یاد کی کرنا ہرگھڑی یک تل حضور سوں ٹلنا نہیں
اُٹھ بیٹھ میں یادسوں شاد رہنا گواہ دار کو چھوڑ کے چلنا نہیں
پاک رکھ توں دل کو غیر ستی آج سائیں فرید کا آوتا ہے
قدیم قدیمی کے آونے سیں لازوال دولت کوں پاوتا ہے

اسی طرح حضرت شکرگنج کی ایک غزل میں ریختہ بھرپورنظر آتا ہے، طوالت کے خوف سے ترک کرتاہوں۔
عین الحق فرید کوٹی نے اردو اور پنجابی دونوں ہی کا ماخذ،دراوڑی کو قراردیا جس کی مزید اولادیں، پاکستان میں براہوئی اور ہندوستان میں تَمِل، تِیلَگُو، ملیالَم اور کنڑ۔یا۔کنڑی ہیں۔ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر سلیم اختر بھی اسی رائے کے حامی تھے، جبکہ ہمارے معاصر ڈاکٹر ناصر رانا نے فرمایا کہ "جب اردو زبان کے دوچار الفاظ حضرت بابا فرید شکر گنج کے قلم سے نکلے تو اُس وقت پنجابی زبان ایک پختہ زبان کے طور پر استعمال ہورہی تھی اور وہ زبان ایسی تھی کہ آج بھی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے"۔

یہاں آمنا صدقنا کہنے سے پہلے یاد رکھیں کہ اردو کے قدیمی تعلق سے ہریانی/ہریانوی(روہتکی، رانگڑی، رانگھڑی، کھڑی بولی)، گوجری،ہندکو اور سرائیکی کے دعوے بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے، نیز زبان کی تشکیل کے ضمن میں بابا فرید سے بھی صدیوں پہلے، سنسکِرِت سے بھی پہلے، ویدِک بولیوں میں اردو الفاظ کی موجودگی کی بِناء پر ڈاکٹر اَجے مالوی اور اس کے ساتھ ساتھ ابوالجلال ندوی کی بے نظیر تحقیق بھی ناقابل فراموش ہے کہ وادی سندھ وبلوچستان کی قدیم زبان، ابتدائی دورکی عربی (تصویری رسم الخط میں) تھی،جس کے اس خطے نیز عرب میں پھلنے پھولنے کے عرصے ہی میں اردو جیسی منفرد زبان کے سوتے پھُوٹے۔

بات ہورہی تھی پنجابی و اُردو کے (غالباً) قدیم ترین شاعر بابا فرید کی تو لگے ہاتھوں یہ اشعاربھی ملاحظہ فرمائیں جو بقول مولوی عبدالحق،'اردو کے پہلے معلوم شعر ہیں':
وقتِ صبح، وقت ِ مناجات ہے
خیز دراں (درآں)وقت کہ برکات ہے
نفس مبادا کہ بگوید تُرا
خسپ چہ خیزی کہ ابھی رات ہے
مزید منسوب کلام کے لیے 'اردو ادب کی مختصر تاریخ' از ڈاکٹر انورسدیدملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

ماقبل، اس خاکسارنے حضرت مخدوم بِہاری شیخ شرف الدین یحیٰ مَنیری(1263ء تا 1370ء) اور حضرت اشرف جہانگیر سمنانی کے متعلق پروفیسر ڈاکٹر اختر اورینوی سمیت بعض محققین کی رائے کا پرچار کیاتھا کہ وہ اردوئے قدیم میں تصنیف شعرونثر کے اعتبار سے اولیت کے حامل ہیں،مگر اب اس کا کیا کیا جائے کہ مخدوم بِہاری سے محض دس سال چھوٹے بابا فرید کے کلام میں نسبتاً صاف زبان موجودہے، جبکہ دونوں معاصر بھی ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ بِہار وبنگال و آسام وغیرہ میں اُس وقت اردوئے قدیم کی یہی کیفیت ہو اور اِدھر پنجاب میں زبان بہ سرعت تمام، صاف وآسان ہوچکی ہو۔
اب میں یہاں ایک اور نکتہ بھی نقل کرنے پر مجبور ہو ں کہ معین الدین دردائی صاحب کی تحقیق کی رُو سے امیر خسروؔ سے بہت پہلے،
کے ایک بِہاری شاعر (نامعلوم) نے یہ شعر کہاتھا جو اُن کے نزدیک یقینا قدیم ترین اردو کلام میں شمار ہوگا:
مَنکی اوجڑی نگری کو تَب کریں آباد دان
(من کی) (اُجڑی): س ا ص
ناصردیں ؔ سے جب ملیں موجدین کبادان
(سلطان ناصرالدین محمود) : س ا ص]

"بہار اور اُردوشاعری" از معین الدین دردائی، منقول در"بِہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء: 1204 ء تا 1857ء" از ڈاکٹر اختر اورینوی[
سلطان ناصرالدین محمود(1228ء تا 1266ء)کا دورِ حکومت 1246ء تا 1266 ء رہا، اسی عہد میں امیر خسرو ؔ موجودتھے، مگر دوسرے نام کی باوجودکوشش، کوئی شناخت نہ ہوسکی۔اگر یہاں سلطان جیسے متقی حکمراں کی بجائے کوئی صوفی بزرگ مرادہوں تواُن کے کوائف بھی معلوم نہیں۔
اب آتے ہیں مخدوم بِہاری کی اردو کی طرف تو نمونے ملاحظہ فرمائیں:
کالا ہنسا نہ ملے بسے سمندر تےِر
پنکھ پسارے یکہ ہر ے نرمل کرے سرِیر
درد رہے نہ پےِڑ
شرفؔ حرف مائل کہیں درد کچھ نہ بسائے
گر د چھوئیں دربار کی سو درد دور ہوجائے
(یہاں لفظ "پِیڑ" موجودہے جو آج بھی پنجابی اور غالباً پنجاب کی دیگر زبانوں میں بمعنی درد مستعمل ہے: س ا ص)
(حافظ شیرانی نے اس طرح نقل کیا: کالا ہنسا نِرملا بسے سمندر تیر
پنکہ پسارے بکہ ہرے نِرمل کرے سریر
درد رہے نہ پےِر
میراخیال ہے کہ مولوی صاحب کی نقل درست ہے، ورنہ ' پِیڑ' کی جگہ 'پِیر' کی کوئی تُک نہیں: س ا ص)
یہ نمونہ کلام بہت صاف ہے جو مولوی عبدالحق اور اے حمید صاحب نے نقل کیا، مگرشیرانی اور اختر اورینوی کا منقولہ اتنا صاف نہیں۔اس کی وجہ بظاہر یہی سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت مخدوم بِہاری کی عمر سو سال سے زائد ہوئی تو یقینا ان کے عہد ہی میں زبان بہت کچھ تبدیل ہوچکی ہوگی۔حافظ شیرانی نے حضرت کا "کج مندرہ" نقل کیا ہے، اس کے آخر میں کچھ یوں ارشاد فرمایا گیا:

"آپکار دہس ہے دوہائی (دُہائی) سلیمان (علیہ السلام)بن داؤد (علیہ السلام)پیغمبر کی، جل بھسمنت ہو بیک بلاجائے....سراپ جِی جِی کرنت، تِی تِی مرنت"۔بقول ڈاکٹر اورینوی کے اس عبارت میں یہ فقرہ "آپکار دہس ہے"،تمام ریختہ کے علاوہ، اس لحاظ سے ممیز ہے کہ 'دہس'، بِہاری کی خاص علامت ہے، یعنی دی ہے یا دیا ہے اور پھر اس فقرے میں 'ہے' کا استعمال کھڑی بولی کی پہچان ہے۔اس "کج مندرہ" کی نقل کے ساتھ ساتھ، مجھے مجبوراً (ماضی کی اپنی ہی ایک تحریر کی طرح) وہ "دستک" نقل کرنی پڑرہی ہے جو ہمارے نانھیال میں سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے جس کی رات کے وقت خواندگی، کسی بھی چور سمیت ہرقسم کی آفت سے محفوظ رکھنے کی روحانی بندش ہوتی ہے جسے(اول وآخرگیارہ گیارہ مرتبہ درودابراہیمی کے ساتھ)، غالباً سات مرتبہ پڑھا جاتا تھا اور آخر میں تالیاں بجاکر اس عمل کے پہرے دار مؤکلین کو حاضر کیا جاتاتھا، اب شاید ہی ہمارے کسی گھرمیں اس پر عمل درآمد ہوتا ہو، خاکسار کو والدہ مرحومہ سے ودیعت ہوئی تھی، مگربوجوہ،بہت مدت پہلے ترک کرچکا۔دستک ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری (1190ء تا 1295ء)، مدفون اُچ شریف (پنجاب، پاکستان)کے خانوادے میں رائج اس عبارت میں کیسا قدیم رنگ ہے:
"شیخ فرید بَنَج (سیر) کو نِکلے، خواجہ قطب الدین (بختیار کاکی: 1173ء تا 1235ء)لیے ہمراہ، چورا (چور)سانپا(سانپ)، بچھّو، بھیڑیا، اِ ن چاروں کی داڑھ (ڈاڑھ) بندھا، حضرت سلیمان پَےَمبر کی آں (آن یعنی قسم)"
اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کے خانوادے سے متعلق ایک سابق بزرگ پڑوسی نے اپنے گھرانے کی ایک مختلف "دستک" کا ذکر کیا تھا جو میں نے ان کی اجازت سے کہیں نقل کرکے رکھی تھی۔
بات کہیں سے کہیں جاپہنچی اور پھر لوگ کہیں گے کہ پنجاب کدھر رہ گیا...تو صاحبو! پنجاب سے جُڑی ہوئی مندرجہ بالا عبارت بھی تو دیکھیں، ہرجگہ نہیں ملے گی۔
مخدوم بِہاری کا ایک نمونہ کلام یوں بھی ملتا ہے:
شرفاؔ! گور ڈرا دِن نس اندھیاری رات
وان نہ پوچھے کون تمہاری جات
بہت ہی صاف اردو ہے کہ شاعر اپنے آپ کو مخاطب کرکے قبر کے خوف کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں دن بھی اندھیری رات کے مانند ہونے کا خدشہ ہے اور وہا ں کسی کا حسب نسب کام آنے والا نہیں!
یہاں ہمیں اگلے پڑاؤ پر شیخ حمیدالدین ناگوری (1193ء تا 1274ء)کا اسم شریف ملتا ہے جو راجستھان کے نامی گرامی صوفی تھے۔انھو ں نے ایک مرتبہ پہلے اپنی والدہ،پھر اپنے والد کی خدمت میں اپنی معاشی تنگ دستی کا ذکر کیا تو والد نے فرمایا:"ہاں بابا! کچھ کچھ"۔والدہ کے مشورے پر اپنا گھر بسانا چاہا تو سلطانِ وقت نے اپنی بیٹی کے عقدِ نکاح کا پیغام بھیج دیا اور شہزادی دلھن بن کرآئی تو اس قدر دولت ساتھ لائی کہ سمیٹے نہ سمٹے،والدہ نے شیخ حمید سے کہا کہ "اچھا ہوا کہ (تمھارے والد نے)کچھ کچھ کہا، اگر کچھ زیادہ کہتے تو نہ معلوم کیا ہوتا" یعنی وہ صاحب ِ کرامت والدین تھے جن کے منھ سے نکلی ہوئی بات بھی حق تعالیٰ ایسے پوری فرمادیتا تھا۔ان کے بعد شیخ شرف الدین بُوعلی قلندر پانی پتی (وفات: 1323ء) ہوگزرے ہیں جنھوں نے ایک موقع پر امیر خسرو سے استفسار فرمایا،" تُرکا! (اے ترک)کچھ سمجھدا ہے (یعنی کچھ سمجھتا بھی ہے؟)۔حضرت قلند ر کا دوہا ہے:
سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے
بدھنا ایسی رین کو بھور کدھی نہ ہوئے
خواجہ معین الدین چشتی اور خواجہ نظام الدین اولیاء کی اردودانی مُسَلّم ہے، مگر کوئی نمونہ کلام میسر نہیں، البتہ خواجہ نظام کے محبوب مُرید، امیر خسرو (1236ء تا 1324ء)ہندوی یعنی قدیم اردو، خصوصاً ریختہ کے بڑے سخنور تھے۔اُن کا یہ قطعہ ریختہ میں قابل ذکر ہے:
زر گر پسرے چو ماہ پارا
کچھ گھڑیے سنواریے پُکارا
نقدِ دل من گرفت وبشکست
پھر کچھ نہ گھڑا نہ کچھ سنوارا
(منقول در تذکرہ "نِکات الشعراء" از میر تقی میرؔ)
(جاری)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔