جناب نواز شریف کی پریس کانفرنس
اس پریس کانفرنس کے خلاف عمران خان اور پی ٹی آئی کی ساری قیادت نواز شریف اور نون لیگ پر برس رہی ہے
31مارچ2023کو لندن میں تین سال اور تین مہینے سے مقیم نون لیگی قائد اور سابق وزیر اعظم ،جناب محمد نواز شریف، نے پہلی بار ایسی پریس کانفرنس کی ہے جو بیک وقت پورے پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں براہِ راست دکھائی گئی ۔
براہِ راست دکھائی گئی اِس پریس کانفرنس پر پی ٹی آئی اور جناب عمران خان خاصے جزبز ہُوئے ہیں۔ مذکورہ پریس کے کئی مندرجات اور نکات اتنے قوی ہیں کہ ان کی ارتعاش سے پیدا ہونے والی تھرتھراہٹ سے پی ٹی آئی اور عمران خان کا وضع کردہ اور ترتیب دیا گیا بیانیہ لرزاں اور ڈانواں ڈول ہو گیا ہے ۔
نواز شریف کی اس پریس کانفرنس کو کئی لحاظ سے تہلکہ خیز کہا جانا چاہیے کہ ایک تو یہ پریس ٹاک خاصے عرصہ بعد ملکی میڈیا پر دکھائی گئی اور دوسرا یہ کہ اس پریس کانفرنس میں اعلیٰ ترین عدلیہ میں زیر سماعت بعض حساس نوعیت کے بعض مقدمات بارے نواز شریف نے پہلی بار اوربروقت لب کشائی کی ہے ۔
اس پریس کانفرنس کے خلاف عمران خان اور پی ٹی آئی کی ساری قیادت نواز شریف اور نون لیگ پر برس رہی ہے لیکن یہ غصہ بے معنی اور لایعنی ہے ۔ نواز شریف کی یہ پریس کانفرنس 15منٹ کو محیط تھی اور لندن میں کی گئی ہے۔
اس پریس کانفرنس کی باز گشت پورے پاکستان کے میڈیا میں یوں بھی سنائی دی گئی ہے کہ اس سے گزشتہ روز ( یکم اپریل2023 کو) پاکستان بھر کے پرنٹ میڈیا نے اسے شہ سرخیوں میں شایع کیا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف نے اپنی اس پریس کانفرنس کے لیے وقت کا خوب انتخاب کیا ہے۔ اِس کی داد دینی چاہیے ۔
اس پریس کانفرنس کو ہُوئے تین دن گزر چکے ہیں مگر ابھی تک اِس کی بنیاد اور اساس پر ٹی وی ٹاک شوز کیے جارہے ہیں ۔ اخبارات میں تجزئیے اور تبصرے شایع ہو رہے ہیں ۔ اور نواز شریف کے مخالفین اور حریف ابھی تک اِس کے خلاف ''وِس'' گھول رہے ہیں ۔
سچی بات یہ ہے کہ نواز شریف کی اِس پریس کانفرنس کو ملک بھر میں جس دلچسپی اور غور سے سنا اور دیکھا گیا ہے ، یہ اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ نواز شریف اب بھی ملک میں ممتاز اور مقبول ہیں ۔ اُن کے چاہنے والے کم نہیں ہُوئے ہیں۔
اُن کا ووٹ بینک ٹوٹا ہے نہ بکھرا ہے ۔اُن کی زبان سے نکلا ہر لفظ اب بھی خبر بنتا ہے ۔اِس کا ایک مطلب اور معنی یہ بھی ہے کہ جن لوگوں، گروہوں اور اداروں نے چارسال قبل نون لیگی قائد جناب محمد نواز شریف کو ''بڑی محنت'' سے سیاست اور اقتدار سے منہا اور مائنس کرنے کی بے حد اور ''ثمر آور'' کوششیں کی تھیں،وہ سب کوششیں ضایع اور اکارت گئی ہیں۔
یاد کیجیے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک سابق معزز جج صاحب( جناب شوکت صدیقی) کی انکشافی گفتگو جس میں مبینہ طور پر اُن سے ایک طاقتور شخص ملے تھے اور اُن سے مبینہ '' استدعا'' کی تھی کہ اگر نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز، کے خلاف فیصلہ نہ سنایا تو ''ہماری برسوں کی محنت'' ضایع ہو جائے گی ۔
انکار اور بعدازاں برسرِ مجلس انکشاف کرنے پر مذکورہ جج صاحب کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔ مگر لگائے گئے زخم ابھی بھرے نہیں ہیں۔ یہ ابھی تازہ اور ہرے بھرے ہیں۔ اِس زخم کی باز گشت اور ٹیس جناب نواز شریف کی مذکورہ لندنی پریس کانفرنس میں بھی سنائی اور دکھائی دی گئی ہے۔
مذکورہ تہلکہ خیز پریس کانفرنس میں جناب نواز شریف نے منظم اور صابر لہجے میں جب یہ کہا:''(سابق) جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے جو باتیں کیں، کیا کسی نے اس کا نوٹس لیا؟۔''ساتھ ہی سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کا ایک گلہ بھی سامنے آیا ہے ۔
انھوں نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں منصفِ اعظم کو یوں مخاطب کیا ہے :'' آج آپ کا اپنی ذات اور ساتھی جج صاحبان کے حوالہ سے جذباتی ہونا اچھا لگا، مگر رمضان میں اللہ کو گواہ بنا کر بتائیں کہ میری ایمانداری اور بے گناہی کا مکمل یقین ہونے کے باوجود مجھ پر ہونے والے ظلم پر کبھی آپ کو ترس آیا؟۔''
ترس تو نواز شریف کو بے جا طور پر اقتدار اور سیاست سے نکالنے والوں کو بھی نہیں آیا تھا۔نواز شریف کو اِس کا ہنوز غصہ اور گلہ ہے۔
انھوں نے اپنی مذکورہ پریس کانفرنس میں اِس بارے بھی اشارہ یوں کیا ہے: ''کیا جنرل( قمر جاوید) باجوہ کی باتوں پر نوٹس نہیں بنتا؟کیا اس بات پر سوؤموٹو نہیں بنتا کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی؟''۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ تین بار پاکستان کے منتخب ہونے والے وزیر اعظم، نواز شریف، ابھی تک اُن لوگوں بارے شکوہ کناں ہیں جنھوں نے اُن کے خلاف فیصلے دیے اور انھیںسیاست اور اقتدار سے زبردستی نکال باہر کیا۔ انھیںتاحیات نااہل کیا۔
انھیں، اُن کی صاحبزادی مریم نواز اور اُن کے برادرِ خورد شہباز شریف کو جیلوں میں ڈالا۔ کیا نواز شریف اور شریف خاندان کے وہ سب افراد اس استحصال ، زیادتی اور ظلم کو فراموش کر دیں؟وہ بھی ''کسی کی طرح'' انسان ہیں ۔ وہ بھی جذبات میں آ کر ان فیصلوں کو یاد کر سکتے ہیں ۔ پھر گلہ کاہے کا؟
نواز شریف اپنی مذکورہ پریس کانفرنس میں جب جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ بارے شکوہ کرتے ہیں تو وہ دراصل اُن تازہ ترین انکشافات اور اعترافات کا ذکر کررہے ہیں جو دراصل قمر باجوہ نے مبینہ طور پر ایک صحافی کے رُوبرو کیے ہیں اور جن کی بازگشت پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں بلند آہنگی سے سنائی دے رہی ہے ( اگرچہ قمر باجوہ صاحب اس مبینہ انٹرویو کے مندرجات سے انکار بھی کر چکے ہیں ، لیکن اِس کے باوجود اِس انٹرویو کی تین اقساط منظرِ عام پر آ چکی ہیں) نواز شریف کو لگایا گیا یہ زخم بھی ہنوز ہرا ہے کہ انھیںاقتدار سے کیوں نکالا گیا؟ یہ شکوہ اُن کی تازہ ترین پریس کانفرنس میں پھر سے اُبھر کر سامنے آیا ہے ۔
آنا بھی چاہیے اور انھیںیہ شکوہ کرنے کا پورا پورا حق ہے کہ اب تو کئی ایسے شواہد منصہ شہود پر آ چکے ہیں کہ نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دینا، انھیںاور اُن کی صاحبزادی کو جیل میں ڈالنا اور اُن کے جواں سال بھتیجے حمزہ شہباز کو کئی ماہ تک حوالہ زنداں کرنا دراصل ایک منظم منصوبہ تھا جو ( بظاہر) کامیاب بھی رہا ۔ نون لیگی قائدین کو عقوبتوں اور صعوبتوں کا جس طرح بے محابہ ہدف بنایا گیا۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کے وابستگان نے تو ابھی تک اِس بارے خواب بھی نہیں دیکھا۔ اگرچہ ہم سب اِس بات پرمتفق ہیں کہ سیاست میں عناد اور انتقام کا طریق قابلِ فہم ہے نہ قابلِ قبول۔
نواز شریف کی یہ پریس کانفرنس اِس امر کی بھی یاددہانی ہے کہ ماضی قریب میں ہماری ریاست نے اپنے ملازمین کو جن ریاستی اختیارات اور قوتوں سے لَیس کیا، ان میں سے بعض سینئر ملازمین نے اِس طاقت کو ریاستی مفادات کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفادات و مقاصد کے لیے بطور طاقتور ہتھکنڈے کے استعمال کیا۔
اِسی سے قومی سطح پر ایسی خرابیاں پیدا ہُوئی ہیں جن کا بھگتان آج ساری قوم اور سارا ملک معاشی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں بھگت رہی ہے۔ یہ مقامِ عبرت ہے ۔