جماعت اسلامی کا انتخابی منشور
جماعت اسلامی نے الیکشن 2023کے لیے چودہ نکاتی انتخابی منشور کااعلان کر دیاہے
ملک میں ویسے تو انتخابات کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود ہیں۔ کیس سپریم کورٹ میں چل بھی رہا ہے، لیکن تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاری بھی کر رہی ہیں، کسی سیاسی جماعت نے اپنا منشور پیش کیا ہے لیکن جماعت اسلامی نے الیکشن 2023کے لیے چودہ نکاتی انتخابی منشور کااعلان کر دیاہے۔
جماعت اسلامی نے اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے سب سے پہلے منشور عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق، سیکریٹری جنرل امیر العظیم اور منشور کمیٹی کے ارکان فرید پراچہ اور ڈاکٹر اصغر نے ایک تقریب میں یہ منشور عوام کے سامنے پیش کیا۔اس منشور میں جماعت اسلامی نے میثاق معیشت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے بات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
میں جماعت اسلامی کا منشور اس لیے لکھ رہا ہوں تا کہ باقی سیاسی جماعتوں کو بھی احساس ہو کہ پہلا کام منشور دینا ہے۔جماعت اسلامی نے مہنگائی کم کرنے، ناجائز منافع خور ی کا خاتمہ اور اشیائے خورونوش میں استحکام لانے کا پلان پیش کیا ہے۔
قومی اداروں کو منافع بخش بنانے کی بات کی ہے۔ زرعی ٹیکس میں چھوٹ دینے اور براہ راست کسانوں کو فائد ہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ دستور پاکستان کے مطابق قرآن وسنت ؐ کی بالادستی قائم کی جائے گی اور قرآن و سنت سے متصادم تمام قوانین منسوخ کیے جائیں گے۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے حتمی ہوں گے اور اسے بدنیتی سے چیلنج نہ کیا جاسکے گا۔پارلیمنٹ کو بالادست بنایا جائے گا۔پارلیمنٹیرینز /قانون سازوں کی استعداد بڑھانے کے لیے ایک ''تربیتی اکیڈمی'' قائم کی جائے گی۔
تمام بین الاقوامی معاہدوں کی حتمی منظوری پارلیمنٹ دے گی۔الیکشن کمیشن کو انتظامی ،مالی اورعدالتی خودمختاری دی جائے گی۔قومی اسمبلی ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی اہلیت ،دیانت اور شہرت جانچنے کے لیے ایک آزاد ،غیر جانبدار اور خودمختار کمیشن تشکیل دیا جائے گاجو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے نفاذ کو یقینی بنائے گا۔قومی مالیاتی کمیشن وفاق اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر نظرثانی کرے گا۔
بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے آئین میں ایک نیاباب اورشیڈول شامل کیا جائے گا۔بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی خود مختاری دینے کے لیے قومی و صوبائی مالیاتی کمیشن بنائے جائیں۔ میڈیا کوناجائز حکومتی اور غیر حکومتی دباؤ سے آزاد رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔
اْردو کو سرکاری زبان اوربنیادی تعلیم کا ذریعہ بنایا جائے گا۔ ''میثاقِ معیشت ''تیار کیا جائے گا۔سودی معیشت اور سْودی بینکاری کا خاتمہ کیا جائے گا۔جنرل سیلز ٹیکس کو 5فیصد سے کم کیا جائے گا۔ ''ترسیلاتِ زر پر بینک فیس'' کم کی جائے گی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ پرنظرثانی کر کے ''گورنربینک دولت پاکستان'' کو پارلیمنٹ اور حکومت کے سامنے جوابدہ بنایاجائے گا۔ زرعی ٹیکس بتدریج نافذ کیا جائے گا جب کہ ای آبیانہ اورای مالیہ اسکیموں کا اِجرا کیا جائے گا۔
حاضر اور سابق صدور، وزرائے اعظم ، وزرائے اعلیٰ ،وفاقی و صوبائی وزرائ، اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی ، چیئرمین سینیٹ، وفاقی و صوبائی وزرائے کرام ،چیف جسٹس ، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججوں، اعلیٰ سول اور فوجی افسران کو قیمتی لگژری سرکاری گاڑیوں اور مفت پٹرول کی سہولت ختم کی جائے گی۔
سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ما لدار ترین اشرافیہ کو حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کر کے 200 ارب روپے سالانہ بچائے جائیں گے۔ نیب ،ایف آئی اے سمیت تمام تفتیشی اداروں کی تنظیم نو کی جائے گی۔
صوبوں کے قدرتی وسائل پر پہلا حق صوبوں کا ہوگا،''حقوق دو گوادر کو'' تحریک اور حکومت بلوچستان کے درمیان تحریری معاہدے پر عمل درآمد کرایا جائے گا۔ناراض بلوچ قبائل کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے۔
قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں خیبرپختونخوا کا حصہ بڑھایا جائے گا۔خوشحال کراچی کے لیے جامع ترقیاتی منصوبہ پیش کیا جائے گا۔صوبہ بہاول پور بحال کیا جائے گا۔ جنوبی پنجاب کو انتظامی بنیاد پر الگ صوبہ بنایا جائے گا۔خواتین کو میٹرک تک لازمی مفت تعلیم دی جائے گی ۔
اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کو والد اور شوہر کی جائیداد سے وراثت اور ملکیت کے حقوق دلوانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔جہیز، قرآن سے شادی، ونی ، وٹہ سٹہ ، سوارہ،کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کا سدِ باب کیا جائے گا۔
خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینے والے اْمیدواروں کے انتخابات میں حصہ لینے اور بیرون ملک سفرپر پابندی عائد کی جائے گی۔طلبہ یونین پر پابندی ختم کردی جائے گی۔گریجویٹس کو لیزپر بنجر رقبہ دیا جائے گا۔یوتھ بینک قائم کر کے نوجوانوں کو کاروبار کے لیے بلاسود قرضے اور پیشہ ورانہ تربیت دی جائے گی۔زرعی قرضوں پر سْود ختم کیا جائے گا۔
کسانوں کو بجلی ،پانی ،ڈیزل ،کھاد ،بیج اور زرعی ادویات سستے داموں فراہم کی جائیں گی۔بے زمین کسانوں اور ہاریوں کو غیرآباد سرکاری زمینیں پانی کی سہولت اور آباد کاری کی شرط کے ساتھ فراہم کی جائیں گی۔•کھاد کی بوریوں پر قیمتیں چھاپی جائیں گی،باغات اورزرعی زمینوں پر نئی رہائشی سوسائٹیوں اور کارخانوں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے گی۔
سرکاری اور نجی اداروں میں یومیہ اْجرت کا خاتمہ کر کے تمام آسامیوں پر مستقل ملازمت دی جائے گی۔غیرمسلم آبادی کے لیے اقلیت کے بجائے ''پاکستانی برادری'' کی اصطلاح استعمال کی جائے گی۔
سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن میں ہرسال مہنگائی کی شرح سے اضافہ کیا جائے گا۔ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اور اْن کی بیوہ گان اور بچیوں کو پنشن کی ادائیگی کاخود کار نظام بنایا جائے گا۔
افواج کو جدید ترین اسلحہ اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے گا۔ سروسز چیفس کی تقرر ی سنیارٹی اور میرٹ کے اْصول پر ہو گی جس کی منظوری پارلیمنٹ دے گی۔کسی ملک یا بین الاقوامی ایجنسی کو پاکستان کی بری، بحری اور فضائی حدود اور خفیہ معلومات تک رسائی نہیں دی جائے گی۔
اسلام کی بالادستی ،پاکستان کی سلامتی و یکجہتی ، ریاست جموں وکشمیر کی آزادی اورکشمیریوں کاحق خودارادیت خارجہ پالیسی کے اہم ستون ہوں گے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تمام منصوبے جلد مکمل کیے جائیں گے۔
بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کومسئلہ جموں و کشمیر کے حتمی حل تک زیرغور رکھا جائے گا۔ اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔تمام بین الاقوامی معاہدوں کی اسلامی اْصولوں کے مطابق پاسداری کی جائے گی۔ انصاف، اَمن ،تعلیم،خوراک،صحت ، چھت اور روزگار سب کے لیے۔