پشاور ہائیکورٹ نے کے پی میں تین حلقوں پر انتخابات کا انعقاد روک دیا
الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا
ہائیکورٹ نے 30 اپریل کو خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے خلاف حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے انتخابات کا انعقاد روک دیا اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس ایس ایم عتیق شاہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ درخواست گزار سابق رکن قومی اسمبلی علی محمد خان، شوکت علی اور فضل محمد کی جانب سے کیس کی پیروی بیرسٹر گوہر خان نے کی جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے محسن کامران صدیق اور وفاقی حکومت کی نمائندگی اشفاق داودزئی نے کی۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اشتیاق ابرہیم نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے؟ الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات کرانا چاہتا ہے لیکن جنرل الیکشن نہیں کرا رہا۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ صوبے کے جنرل الیکشن کے لیے سیکیورٹی اور فنانس کا مسئلہ ہے لیکن ضمنی کے لیے نہیں ہے۔
درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے ممبران نے ریجیم چینج کے خلاف استعفے دیے اور یہ استعفے 28 جولائی 2022 کو منظور کیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر الیکشن کا انعقاد کیا جس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ان حلقوں سے کامیاب ہوئے تاہم بعد میں انہوں نے 7 میں سے 6 نشستیں چھوڑیں جبکہ الیکشن کمیشن نے ان تین حلقوں پر دوبارہ الیکشن کے لیے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے۔
بیرسٹر گوہر خان کے مطابق قانون کے تحت اور آئین کی رو سے ان حلقوں پر الیکشن قومی اسمبلی کے جنرل الیکشن کے 120 روز پہلے نہیں ہو سکتے چونکہ 14 اپریل سے وہ وقت شروع ہوتا ہے۔ 14 اپریل اور 14 اگست کے درمیان مجموعی طور پر 120 دن کا گیپ آتا ہے جبکہ یہ الیکشن 30 اپریل کو ہوں گے جو کہ آئین کے آرٹیکل 124 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جو الیکشن کیے جا رہے ہیں اس سے پیسے کا ضیاع ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ آئین سے انحراف بھی اس ضمن میں کیا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل کے مطابق حکومت نے جان بوجھ کر یہ تاریخ دی ہے اور اس ضمن میں الیکشن آئینی طور پر نہیں ہو سکتے، اگر انہوں نے واقعی الیکشن کرانا تھا تو 30 اپریل سے پہلے پہلے اس کا انعقاد کیا جانا تھا تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور 30 اپریل کی تاریخ دی گئی جس سے بہت سے آئینی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جس آئینی شق کو بنیاد بنا کر انتخابات روکنے کی استدعا کی گئی ہے وہ صحیح نہیں کیونکہ یہ نشستیں 4 ماہ پہلے خالی قرار دی گئی ہے اسکے ساتھ ساتھ درخواست گزار متاثرہ فریق بھی نہیں ہے وہ تو سابق ارکان اسمبلی ہے۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد 30 اپریل کو ان تین حلقوں پر انتخابات کا انعقاد روک دیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کر دیا۔