سیاست سے جڑا معاشی بحران

پاکستان میں معاشی و اقتصادی بحران کی سنگینی میں اضافہ کیوں ہوا، اس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں


Editorial April 05, 2023
پاکستان میں معاشی و اقتصادی بحران کی سنگینی میں اضافہ کیوں ہوا، اس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔ فوٹو فائل

گزشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف کے بغیر رہنا سیکھنا ہوگا، پاکستان ڈیفالٹ کرنے کے لیے نہیں بنا، یہ انکشاف بھی کیا غیرملکی قرضہ چار ارب ڈالر کم ہوا، خسارے پر قابو پائیں گے۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف پروگرام جلد سائن ہوجائے گا اور بورڈ میٹنگ بھی ہوجائے گی۔ یہ خاصا امید افزا بیان ہے۔اس سے لگتا ہے کہ پاکستان کے اکنامک منیجرز درست سمت میں کام کررہے ہیں۔

پاکستان میں معاشی و اقتصادی بحران کی سنگینی میں اضافہ کیوں ہوا، اس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔ ناقص اور ڈنگ ٹپاؤ معاشی اور اقتصادی پالیسیوں نے ترقی کے عمل کو پائیدار بنیادوں پراستوار نہیں ہونے دیا۔معیشت کے ایک سیکٹر کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں دیگر سیکٹر نظرانداز کردیے گئے۔

صنعتی ترقی کے لیے زراعت کو نقصان پہنچایا گیا، کسانوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر کاروباری طبقے کو فائدہ پہنچا یا گیا، امریکا، یورپ، سعودی عرب اور عالمی مالیاتی امداد ملتی رہی تو سب چلتا رہا لیکن جیسے ہی صورتحال تبدیل ہوئی،پاکستان کی معیشت دھڑام سے نیچے گر گئی ۔ملک کو چلانے کے ذمے داروں کے پاس کوئی معاشی منصوبہ اور حکمت عملی موجود نہیں، یوں بحران گہرے سے گہرا ہوتا گیا۔

اقتصادی بحران کے ساتھ سیاسی بحرانوں نے صورتحال مزید خطرناک کردی ، موسمیاتی تبدیلیوں اور دہشت گردی نے رہی سہی کسر نکال دی ، ریاست اور عوام کا رشتہ بھی لاتعلقی کا شکار ہوگیا۔ اس اقتصادی بحران کی ذمے دار اشرافیہ ہے جس نے ملکی معیشت کی ڈرائیونگ سیٹ پر ٹیلنٹ اور انٹرپرائزز کے بجائے نااہلوں، دوستوں اور رشتہ داروں کو بٹھا دیاہے۔

ملک کے معاشی فیصلے تیئس کروڑ لوگوں کے لیے ہونے چاہئیں نا کہ ایک دو فی صد مراعات یافتہ طبقات کے لیے۔ حکومت اور وفاقی وزیر خزانہ بار بار آئی ایم ایف سے معاملات طے پانے کی نوید دیتے آرہے ہیں لیکن حتمی معاہدہ تاحال نہیں ہوسکا، ادھر سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہیں،اس لڑائی میں ادارے بھی شامل ہوگئے ہیں جب کہ عوام کی کسی کو فکر نہیں۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ وفاقی حکومت زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور شرح مبادلہ میں استحکام کے لیے اسٹیک ہولڈرزکی تجاویز پر توجہ دے رہی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بھی ایکسچینج کمپنیز کے نمایندوں کو بریفنگ کے لیے طلب کیا ہے، ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومت کو ماہانہ ایک ارب ڈالر اور سالانہ 12 ارب ڈالر فنڈز فراہمی کی پیشکش کی ہے،10سے 15ہزار ڈالرز کی خرید و فروخت پر شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے سمیت فاریکس ٹریڈ مارکیٹ کے لیے شرائط نرم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس وقت عام آدمی کا مسئلہ مہنگائی ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اوپر ہی اوپر جا رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں مفادات کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں، عدالتیں سیاسی مقدمات سن رہی ہیں،لگتا ہے کہ ان کے دل میں عوامی مسائل و مشکلات کا احساس ہی پیدا نہیں ہو رہا، ہر اسٹیک ہولڈر اپنے مفادات سے آگے نہیں جا رہا اور اقتدار کے کھیل سے باہر نہیں آرہا ، یوںامور مملکت نمٹانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو رہا ہے ۔

یورپ ، جاپان، چین اور جنوبی کوریا میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں لائی گئیں، یہی وجہ وہاں امن بھی ہے اور خوشحالی بھی ہے۔لازمی ہے کہ اب شعور و آگہی کے اس دور میں طرز سیاست و حکمرانی میں تبدیلی لائی جائے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کا آغاز کیا جائے۔ جاگیرداری و سرمایہ داری کو نئے سرے سے دیکھا جائے۔

آئین میں موجود خامیوں اور ابہام کا خاتمہ کیا جائے، آمرانہ اور فاشسٹ ذہنیت کا خاتمہ کرنا انتہائی اہم ہوگیا ہے۔جب تک یہ ذہنیت ختم نہیں کی جاتی، سیاست ، معیشت اور معاشرت میں استحکام نہیں آسکتا۔ یہ وقت کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کا نہیں کھولنے کا ہے، حالات وہ نہیں جو چند برس پہلے ہوتے تھے۔

آگہی کے سفر نے یکسر ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، لوگوں میں یہ خیال در آیا ہے کہ انھیں اشرافیہ نے ایک منصوبے کے تحت اندھیرے میں رکھا، غربت و نا انصافی کے دائرے میں رکھ کر کمزور و ناتواں بنایا گیا ،خود کھربوں کے مالک بن گئے، ملکی خزانے کو وراثت کا مال سمجھ کراس پر ہاتھ صاف کرتے رہے، اب جب خزانہ خالی ہوا ہے تو شور مچایا جا رہا ہے۔

سنگین ترین اقتصادی بحران کی ذمے داری کسی ایک سیاسی جماعت یا ادارے پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ملک کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے میں سیاسی جماعتوں، مذہبی لیڈر شپ، اہل علم، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی سمیت سب کا ہاتھ ہے۔

ملک کے معاشی بحران کا سب سے زیادہ ذمے دار طبقہ طاقتور اشرافیہ کا ہے جس نے غلط پالیسیاں بنا کر، کرپشن کر کے، ناجائز مراعات حاصل کرکے اور قرضے معاف کروا کر ملک کو بحران سے دوچار کیا اور پھر آئی ایم ایف کا بہانہ کرکے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔

یہ طبقہ ہر جگہ موجود ہے اسے بعض سیاست دانوں کا تعاون بھی حاصل ہے، انھیں اداروں سے بھی ریلیف مل جاتا ہے، اس لیے آج بھی بجٹ خسارہ درست کرنے کے لیے شاہانہ حکومتی اخراجات کم کرنے، کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کے بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔

ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر کالے دھن کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے، ڈالر کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند رکھ کر پاکستان کا نقصان کیا گیاہے اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے بھی توڑے گئے ہیں۔ موجودہ بحران کی زیادہ ذمے داری ملکی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے، جو چار ہزار ارب کی مراعات لیے ہوئے ہے وہ اگر دو ہزار ارب کی مراعات چھوڑ بھی دے تو اس سے بھی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔

پاکستان کی بہترین بائیس فی صد زرعی زمین اس وقت ایک فی صد اشرافیہ کے پاس ہے جو اس سے نو سو پچاس ارب روپے سالانہ کما کر صرف تین ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے۔ دوسری طرف گھی، چائے اور ڈرنکس سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگا کر غریب لوگوں سے چار سو پچاس ارب روپے لے لیے جاتے ہیں۔ صرف آٹھ سال کے قلیل عرصے میں ملکی قرضے دگنا ہو گئے ہیں۔

پاکستان پر ایک سو چھبیس ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں۔ یہ بحران حکومتوں کا پیدا کردہ ہے۔ ہر سال قرض کی ادائیگی کے لیے تیرہ ارب ڈالر درکار ہیں اور ملک کو ضروری امپورٹس کے لیے ہر ماہ پانچ چھ ارب ڈالر درکار ہیں۔

ملک کو سب سے پہلے سیاسی بحران سے نکالنے کی تدبیر کی جائے کیونکہ ایسا کیے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا، بجٹ میں توازن لانے، ٹیکس ریونیو ہر صورت میں بڑھانے کے ساتھ ساتھ سبسڈیز ختم کی جائیں۔

لوگوں کو تربیت دے کر ملکی معیشت میں کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا جائے اور ''ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹس'' کی حوصلہ افزائی کی جائے، اگر ایسا ہوا تو اقتصادی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا وگرنہ بیرونی قرضے پہلے سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جائیں گے اور کچھ عرصے کے بعد پھر معاشی بحران آن کھڑا ہو گا۔

اس وقت جواذیت ناک صورت حال جنم لے چکی ہے، اس سے چھٹکارا پانے کے لیے غیرمعمولی اور جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

سیاست میں گھیراؤ جلاؤ اور قانون شکنی کے کلچر کی گنجائش نہیں ہوتی ہے' جمہوری نظام اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے' سیاسی جماعتوں کو جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ آزادیاں مادر پدر نہیں ہوتیں بلکہ مشروط ہوتی ہیں' دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں ذمے داریوں اور فرائض کے بغیر آزادیاں حاصل ہوں' آزادی اظہار اور سیاسی آزادیاں قانون کے دائرے میں رہ کرہی ممکن ہوتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا بنیادی مقصد اپنے سیاسی منشور کو لے کر عوام کو اپنے حق میں کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے حکومت بنا سکے اور حکومت سازی کے بعد اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے کے لیے کام کرے لیکن پاکستان میں سیاسی کلچر اس قدر کمزوراور شخصیت پرستی کے چنگل میں پھسا ہوا ہے کہ پارٹی منشور کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہ گئی ہے۔پارٹی کا قائد جو کہہ دے وہی پارٹی کا منشور سمجھا جاتا ہے۔

الیکشن ایک ماہ ہونے ہیں یا چھ ماہ بعد یہ تو طے ہے کہ بہرحال الیکشن ہونے ہیں ' مین اسٹریم سیاسی پارٹیوں نے ابھی تک اپنے اپنے منشور کی تیاری پر کام ہی شروع نہیں کیا' بس طاقتور لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے جوڑ توڑ کاعمل جاری و ساری ہے' اداروں کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے ' ایسی صورت میں معیشت کیسے ترقی کرے گی 'کسی کے پاس کوئی حل نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں