بحران میں اضافہ ہوگا

لوگ بنچ سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اگلی چال کیا ہوگی، یہ بنچ کیوں بنایا گیا ہے، اس کا مقصد کیا ہے اور کیا فیصلہ آئے گا


مزمل سہروردی April 05, 2023
[email protected]

سپریم کورٹ کے تین رکنی بجچ نے پنجاب کے صوبائی انتخابات کے حوالے سے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور 14مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کرانے کا فیصلہ دیا ہے۔ جب کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے الیکشن کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا کہا گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ملک میں جاری بحران ختم ہو جائے گا؟ کیا 14مئی کو پنجاب میں انتخابات ہو جائیں گے؟

سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے لاہور ہائی کورٹ کو بائی پاس کر کے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کرانے کا فیصلہ دے دیاہے تو پھر خیبر پختونخوا کا کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔ کیا اس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے اندر جو بحران جا ری ہے، وہ ختم ہو جائے گا؟ کیا حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان جو جنگ جاری ہے، وہ ختم ہو جائے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ جیسے بنچ متنازعہ بن گیا تھا ویسے ہی یہ فیصلہ بھی تنازعات کا شکار ہو جائے گا۔ چیف جسٹس ایک ایسی بند گلی میں پھنس چکے تھے کہ ان کے پاس اس فیصلے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں بچا تھا، وہ یہی فیصلہ کر سکتے تھے، کسی اور فیصلے کی توقع ہی نہیں تھی۔ البتہ اس فیصلے کے جواب میں حکومت اور ملک کے دیگر اسٹیک ہولڈرز نے جو کرنا ہے، اس کی بھی تیاری ہے لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ اس فیصلے کے بعد بحران ختم ہو گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جواب میں کیا کیا جائے گا؟

حکومت کے پاس ایمر جنسی لگانے کا اختیار ہے۔ ایمر جنسی لگا کر انتخابات پھر ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔ پارلیمان چھ ماہ کے لیے معاشی ایمر جنسی لگا سکتی ہے، اس کے بعد ملک میں بحران مزید بڑھے گا، اس لیے یہ فیصلہ بحران ختم کرنے کا باعث نہیں ہوگا بلکہ بحران میں اضافے کا باعث ہوگا۔اگر یہی فیصلہ فل کورٹ نے کیا ہوتا تو ساری لڑائی ختم ہو جاتی، تمام اسٹیک ہولڈرز کو فیصلہ قابل قبول کرنا پڑنا تھا۔

اگر یہی فیصلہ یا اس سے ملتا جلتا فیصلہ فل کورٹ کرتا تو اسے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرزکی حمائت حاصل ہوتی۔ عمران خان بھی فل کورٹ کی حمائت کر چکے تھے، حکومتی اتحاد بھی بار بار کہ رہا تھا کہ فل کورٹ بنا دیا جائے، اس لیے تین رکنی بنچ کے فیصلے سے لڑائی ختم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہے جو اچھا نہیں ہے۔

یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود رہے گا، جب پنجاب میں انتخابات کے لیے لاہور ہوئی کورٹ میں سماعت جاری تھی تو چیف جسٹس نے ازخود ٹوٹس لے کر اس سماعت کو ختم کر دیا اور لاہور ہائی کورٹ کے بجائے خود فیصلہ کیا۔ پھر جو اصول پنجاب کے لیے بنایا گیا تو وہی کے پی کے لیے کیوں نہیں بنایاگیا؟

اب یہ کیوں کہا گیا ہے کہ پہلے پشاور ہوئی کورٹ فیصلہ کرے ، حالانکہ میں سمجھتا ہوں قانون اور آئین یہی کہتا ہے، پہلے ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنا ہے ۔ سپریم کورٹ کو اس فیصلے کے خلاف اپیل سننی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب کے لیے الگ قانون اور آئین ہے اور کے پی کے لیے الگ قانون اور آئین ہے۔ اس فیصلے کے بعد بھی ایک عمومی رائے یہی ہے کہ انتخابات تو پھر بھی نہیں ہونے ہیں۔ پہلے بھی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا، الیکشن پھر بھی نہیں ہوئے لہٰذا اب بھی نہیں ہوںگے۔ یہ فیصلہ پہلے فیصلے کی نسبت زیادہ متنازعہ ہو چکا ہے۔

سیاسی عدم استحکام بڑھے گا، ترازو کے پلڑے برابر نہیں ہیںکے سیاسی بیانیے کو مزید طاقت ملے گی۔ کسی کے لاڈلے اور کسی کے سوتیلے ہونے کا بیانیہ مزید مقبول ہوگا، اگر اس فیصلے کے بعد بھی انتخابات نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟ کیا چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججز عدالت عظمی کو آخری حد تک لے جائیں گے۔ کہاں جا کر سیزفائر ہوگا؟ یہ سیز فائر کا بہترین موقع تھا جو گنوا دیا گیا۔

میں سمجھتا ہوں ، اس فیصلے سے انتخابات اکتوبر سے بھی آگے چلے گئے ہیں، اگر سپریم کورٹ اکتوبر میں الیکشن کرانے کے لیے حکومت سے انڈر ٹیکنگ لے لیتی تو ایک اتفاق رائے بن جاتا۔

یہ سوال ضرور ہے کہ آئین میں اس کی کتنی گجائش ہے لیکن کیا اب تک جو رہا ہے، وہ آئین کے مطابق ہے۔ انتخابات نوے دن سے آگے جا چکے ہیں، پھر سوموٹو بھی آئین کے مطابق تھا کہ نہیں، یہ سوال بھی اٹھایا جارہاہے ، لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران سو موٹو کیسے لیا جا سکتا ہے؟ عمران خان اس فیصلے کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں ۔ لیکن یہی فتح اگر فل کورٹ سے آتی تو بہتر تھا۔

اس فیصلے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے خلاف لارجر بنچ بنا کر اسے ختم کیا گیا۔ اب یہ سوال تو ہوگا کہ پی ڈی ایم کے لیے تو لارجر بنچ نہیں بن سکتا۔لیکن جسٹس قاضی عیسیٰ کے فیصلے کو ختم کرنے کے لارجر بنچ ایک دن میں بن گیا، پھر اس بنچ پر بھی بات ہوگی، کیوں سنئیر ججز اس بنچ میں نہیں تھے؟

کیوں یہ بنچ جونئیر ججز اور ہم خیال ججز کو لے کر بنایا گیا، یہ سوال بھی ہوگا کہ سوموٹو کے فیصلے کے خلاف لارجر بنچ کیسے بن گیا؟ اس پر تو صرف نظر ثانی ہوسکتی ہے اور وہ بھی جسٹس قاضی عیسیٰ نے ہی سننی تھی۔ کیا یہ سب رجسٹرا ر کو بچانے کے لیے کیا گیا۔ کیا لارجر بنچ کا قیام یہ نہیں بتا رہا کہ رجسٹرار کا سرکلر غیر قانونی تھا، اس بارے میں جسٹس قاضی عیسیٰ کا موقف درست ثابت نہیں ہوگیا۔ جب سرکلر غیر قانونی تھا تو پھر اس کی سز ابھی ہونی چاہیے۔ کیوں جاری ہوا ، کیسے جاری ہوا۔

یہ فیصلہ حکومت کے لیے کوئی سرپرائز نہیں ہے۔بلکہ اس سے بھی سخت فیصلے کی توقع کی جارہی تھی۔ اسٹبلشمنٹ کو بھی اس فیصلے کا اندازہ تھا۔ اگر چیف جسٹس کوئی مفاہمتی راستہ نکالتے تو وہ سرپرائز ہوتا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے لیے حکومت اتنی بڑی پریشانی نہیں ہے بلکہ برادر ججز کا اختلاف زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ یہ لڑائی اب آئین وقانون کے دائرے میں نظر نہیں آرہی بلکہ تخت اور تختے کی لڑائی بن گئی ہے۔

لوگ بنچ سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اگلی چال کیا ہوگی، یہ بنچ کیوں بنایا گیا ہے، اس کا مقصد کیا ہے اور کیا فیصلہ آئے گا۔ یہ اچھی صورتحال نہیں ہے۔ اس سے ملک میں جاری بحران بڑھتا جائے گا۔ پھر کون اس سے فائدہ اٹھائے گا؟ کون جانے۔ اسٹیج تیار ہے، مگر کس کے لیے کوئی پتہ نہیں۔ پتہ نہیں کو ن کب کیا چال کھیلے گا،کس کے لیے سب ہو رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں