صیہونی ایجنڈا پاکستان میں
پاکستان میں جو لابی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کام کر رہی ہے اْس کی جانب سے یہ ایک ٹیسٹ کیس ہو؟
دنیا بھر کے یہودیوں اور اسرائیل کی دیرینہ خواہش ہے کہ عالم اسلام کی واحد سپر طاقت پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے اور اس کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات استوار کرے۔ اس خیال کے حامی پاکستان کے اندر بھی ہیں لیکن زیر زمین ہیں۔
نئی صدی کے آغاز سے ہی اس سلسلے کی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ بہت سے ایسے واقعات وقتاً فوقتاً سامنے آئے جن سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ وہ کیا واقعات تھے، کس کس دور حکومت میں یہ واقعات رونما ہوئے، ایک تسلسل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ایجنڈے کی کڑی تو نہیں؟
آج کے کالم میں اسی موضوع پر کچھ واقعات و شواہد قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کرونگا۔ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہوئی کہ ایک مبینہ پاکستانی شہری نے اسرائیل کو پاکستانی مصنوعات پہنچائی، جو کھیپ یروشلم پہنچائی گئی اس میں خشک میوہ جات اور مصالحہ جات شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر اسرائیلی مارکیٹوں میں ان اشیاء کی تصاویر بھی وائرل ہوئیں۔
امریکی یہودی کانگریس اور اسرائیلی صدر نے اسے پاکستان کے ساتھ تجارت کہہ کر پاکستان کے مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ انھوں نے ایک فرد کی تجارت کو پاکستان کے ساتھ تجارت سے تعبیر کرکے پراپیگنڈا کیا کہ تجارت ہی وہ ذریعہ ہے جو ایک دوسرے کو قریب لانے کا سبب بنتا ہے۔
یہ خبر پوری دنیا کے کونے کونے تک پھیل گئی۔ اس اقدام پر دنیا بھر کے یہودیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی، جس مبینہ پاکستانی نے یہ تجارت شروع کی ہے اس کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ عرصے سے پاکستان اسرائیل تعلقات کی بحالی کے لیے کام کر رہا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے باقاعدہ کمپین چلاتا رہا ہے۔
اِس خبر نے صرف نہ پاکستانیوں کو بلکہ پورے عالم اسلام کو مضطرب کردیا ہے۔ صیہونیوں کے ظلم جبر اور استبداد کا شکار مظلوم فلسطینیوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ وہ فلسطینی جو پاکستان کو اپنا ایک مضبوط سہارا سمجھتے رہے، اسی کی مصنوعات یروشلم کے بازاروں میں فروخت ہورہی ہیں۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ فلسطین کی سرزمین ہر مسلمان کے لیے مقدس ہے، یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ جس پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ناقابل ِتردید عالمی حقیقت ہے۔
ارض مقدس فلسطین پر 1948سے ایک ناجائز ریاست قائم ہے۔ اِس دوران ساٹھ کی دہائی میں عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف جنگی کارروائی بھی کی لیکن امریکا اور اْس کی اتحادی قوتوں نے اسرائیل کی مکمل مدد کی۔ اْس کے بعد سے آج تک ہر امریکی حکومت اِس ناجائز ریاست کی حمایت میں کھڑی ہوتی ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کی اخلاقی اورسفارتی حمایت کی اور آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کے متعلق جو موقف اختیار کیا تھا آج تک ہر حکومت نے اس کی پاسداری کی اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کیے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی پاکستانی اسرائیل کے ساتھ ٹریڈ کا راستہ کھولے اور اسے پاکستانی مصنوعات سپلائی کرے یہ عمل پاکستان کے قانون اور آئین کی صریحاً خلاف ورزی اور امیگریشن قوانین کی پامالی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ شخص کون ہے؟وہ پاکستانی شہری ہے یا پاکستانی نژاد ہے اور کسی اور ملک کا شہری ہے تاہم یہ پتا چلا ہے کہ اس کا نام فشل خالد ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق فشل کا کہنا ہے کہ میرے والد پاکستانی مسلمان اور والدہ یہودی تھی، جب کہ میں نے یہودی مذہب اختیار کیا۔
عمران خان کے دور میں اْس نے ایپ کے ذریعے وزارت امور خارجہ کو اجازت نامے کے لیے درخواست دی جس پر دفتر خارجہ نے ٹیلی فون کے ذریعے آگاہ کیا کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جاسکتا ہے۔ پاسپورٹ ملنے کے بعد فشل خالد نے ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ میں اسرائیلی سفارتخانے میں ویزے کے لیے درخواست دے رہا ہوں۔ فشل پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ کرچکا ہے۔
2022میں پاکستانی صحافی احمد قریشی نے پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کے ایک وفد کے ہمراہ اسرائیل کا دورہ کیا تھا، اسرائیلی صدر سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اِس وفد میں فشل خالد بھی شامل تھا۔ اِس دورے میں فشل خالد کی اسرائیلی حکومت کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے ۔
اس نے باقاعدہ ایک مبینہ وڈیوکے ذریعے بتایا کہ مجھے بطورپاکستانی مبارک ہوکہ میں نے پاکستان کی مصنوعات کی پہلی کھیپ اسرائیل کی منڈی میں برآمد کی۔
پاکستانی حکمرانوں میں کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں مگر جو اطلاعات سامنے آئی ہیں' ان کے مطابق سابق حکومت نے اسے ایسا پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا جس پر وہ اسرائیل بھی جاسکتا تھا۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار پی ٹی آئی کی ایک رکن پارلیمنٹ نے فلور آف ہائوس پر کھڑے ہوکر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی۔ یہ سب معاملات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتی تھی۔
پرویز مشرف کے دور میں بھی اسرائیلی حکام سے خفیہ ملاقاتیں ہوتی رہیں لیکن ان کی حکومت بھی یہ کام نہیں کر سکی۔ عمران خان حکومت اگر فشل خالد کو ایسا پاسپورٹ جاری نہ کرتی جس پر وہ اسرائیل جاسکتا ہے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا لیکن جب چیزوں کو بغیر سوچے سمجھے آگے بڑھایا جاتا ہے تو پھر نتائج ایسے ہی نکلتے جیسے آج ہمارے سامنے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ اور وزیر اعظم کے نمایندہ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ امور حافظ محمد طاہرمحمود اشرفی نے گوکہ واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، فشل خالد نے کسی تیسرے ملک کے ذریعے اسرائیل کو پاکستانی مصنوعات فروخت کیں۔ میرے خیال میں یہ وضاحت ناکافی ہے۔ عمران خان کی حکومت نے اسے پاسپورٹ جاری کیا اور پی ڈی ایم کی حکومت میں اس نے اسرائیل سے تجارت شروع کردی اور ابھی تک حکومت نے اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔اس معاملے کی جامع تحقیقات ہونی چاہیے۔
اگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی تو اس کا واضح مطلب یہ سابق حکومت ہی نہیں بلکہ موجودہ حکومت میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ اس معاملے میں حکومت ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائے جو اس خصوصی پاسپورٹ سے لے کر تجارت تک کے سارے عمل کی تحقیقات کرے اور حقائق کو بے نقاب کیا جائے ۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ممکن ہے پاکستان میں جو لابی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کام کر رہی ہے اْس کی جانب سے یہ ایک ٹیسٹ کیس ہو؟ جس کے ذریعے پاکستان کے عوام کے ردعمل کوچیک کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اِس عمل میں بڑی پلاننگ کے ساتھ تجارت کا سہارا لے کر اِس حساس مسئلے پر پاکستانی عوام کے ردعمل کو چیک کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شاید ایک نئی مارکیٹ اور زیادہ منافع دیکھ کر پاکستانی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نرمی دکھائیں۔
فشل نے جس ایجنڈے پر کام شروع کیا، اْس میں اْسے کسی حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔ اِس تجارتی تعلقات کی حمایت میں کچھ کاروباری شخصیات اور ماہرین اقتصادیات بولنا شروع ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے کے آگے آج بند نہ باندھا گیا تو صیہونی ایجنڈا کامیاب ہوجائے گا۔ ہمیں اسے ہر حال میں روکنا ہوگا۔