حمزہ یوسف کی کامیابی
آئین میں غیرمسلم شہریوں پرعائد پابندیاں ختم کی جائیں اورانھیں وہی حقوق دیے جائیں جو ہر ایک پاکستانی شہری کو حاصل ہیں
پنجاب کے چھوٹے شہر میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر منتخب ہوگئے۔ اسکاٹ لینڈ میں فرسٹ منسٹر کا عہدہ ریاست کے سربراہ کے برابر ہوتا ہے۔
حمزہ یوسف کو اسکاٹ لینڈ نیشنل پارٹی (S.N.P) میں قیادت کے لیے سخت مقابلہ کرنا پڑا۔ حمزہ یوسف نے اردو زبان میں حلف اٹھایا۔ حمزہ یوسف نے یونیورسٹی آف گلاسکو سے ڈگری حاصل کی ہے۔ اس اہم عہدہ پر منتخب ہونے سے پہلے بھی کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ حمزہ یوسف 17اپریل 1985 کو برطانیہ کے شہر گلاسکو میں پیدا ہوئے، یوں حمزہ یوسف پہلے پاکستانی مسلمان ہیں جنھیں مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
حمزہ یوسف کے دادا اور ان کے بھائی 60ء کی دہائی میں برطانیہ آئے تھے۔ یہ لوگ بنیادی طور پر مزدور تھے، حمزہ یوسف کے دادا اور پھر والد پہلے اٹلی گئے، وہاں سے اسکاٹ لینڈ میں جاکر آباد ہوگئے۔ ان کا تعلق ایک قدامت پرست مسلم خاندان سے ہے۔ حمزہ یوسف نے جب اپنے عہدہ کا حلف اٹھایا تو وہ روزہ سے تھے۔ انھوں نے Beaunt House میں جہاں ان کا خاندان مقیم ہے روزہ افطار کیا اور نماز ادا کی۔
اسکاٹ لینڈ بنیادی طور پر برطانیہ کا حصہ ہے۔ اس کی 96 میل طویل سرحد برطانیہ سے ملتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رومن نے اس علاقہ پر قبضہ کیا تھا۔ پھر Mons Graupic کے مقام پر یہ جنگ جیت لی تھی۔ اسکاٹ لینڈ کی خودمختار ریاست 843ء میں قائم ہوئی پھر برطانیہ نے اسکاٹ لینڈ پر قبضہ کیا ۔ 9ویں صدی میں اسکاٹ لینڈ کی ریاست متحد ہوگئی۔
اسکاٹ لینڈ Same Constitution Monarchy ایک نیم آئینی بادشاہت قائم ہے اور وحداتی طرز حکومت بھی۔ اب بھی بادشاہ Crown کو سب سے اہم حیثیت حاصل ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں آج بھی پارلیمنٹ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں Privey Council قائم ہے۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ کا قانونDistinctive System کی طرح ارتقاء پذیر ہوا، مگر یہ قانون قانونی روایات اور مختلف آبادیوں کی شناخت پر مبنی ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں 14ویں صدی سے لارڈ کا ادارہ مستحکم ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد متحدہ ہندوستان اور دیگر ایشیائی علاقوں سے بڑی تعداد میں مزدور اسکاٹ لینڈ میں آباد ہوئے۔ ان تارکین وطن کو مقامی شہریوں کی طرح تمام بنیادی حقوق حاصل ہوئے۔ اسکاٹ لینڈ میں مذہب، نسل، زبان اور برادری کی بنیاد پر امتیاز کرنا غیر قانونی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تارکین ِ وطن کا ایک بڑا حصہ اسکاٹ لینڈ کی آبادی کا حصہ بن گیا ہے۔
حمزہ یوسف کی سب سے اہم عہدہ پر کامیابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ ایک سیکولر ریاست ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ میئر حمزہ یوسف کے تقرر کا خیرمقدم کرتے ہوئے انھیں ٹیلی فون پر مبارکباد دی ہے۔ رشی سونک کے والدین کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ رشی سونک اکتوبر 2022 میں برطانیہ کے سب سے اہم عہدہ پر منتخب ہوئے۔ وہ 12 مئی 1980 کو Southampton General Hospital, Southampton برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ کی قدامت پرست پارٹی میں شامل ہوئے۔
انھیں رجمینڈ پارکس سے پارلیمنٹ کا رکن منتخب کیا گیا۔ ان کے والد ہندوستان کی تقسیم سے پہلے برطانیہ میں آباد ہوگئے تھے۔ رشی سونک وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے وزیر خزانہ رہے اور دیگر عہدوں پر فائز رہے۔ رشی سونک کا تعلق ایک امیر خاندان سے ہے۔ انھوں نے گزشتہ سال 1ملین پاؤنڈ کا ٹیکس ادا کیا۔ اس وقت لندن کے میئر صادق علی خان ہیں، ان کا تعلق کراچی کے ایک متوسط طبقہ کے خاندان سے ہے۔ اسی طرح آئرلینڈ کے وزیر اعظم Leovaradkar کا تعلق بھی بھارت سے ہے۔
حمزہ یوسف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے مکمل آزادی کے لیے قانونی کوشش کریں گے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں وزیر اعظم کے بعد سب سے زیادہ اختیارات لندن کے میئر کے ہوتے ہیں۔ صادق علی خان کے مقابل سابق وزیر اعظم عمران خان کے سالے نے انتخاب میں حصہ لیا تھا۔
موصوف کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر نسل پرست ہیں، اگرچہ برطانیہ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی حکومتوں میں بھارتی اور پاکستانی نژاد شہریوں کی اہم عہدوں پر کامیابی سے ان ممالک کے مضبوط جمہوری سیکولر نظام کا پتہ چلتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے قیام میں اقلیتوں کا اہم کردار ہے۔
جب متحدہ پنجاب اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد پیش ہوئی تو قرارداد کی حمایت اور مخالفت میں ووٹ برابر ہوگئے تھے تو اس وقت اسمبلی کے عیسائی اسپیکر نے قرارداد کے حق میں ووٹ دے کر اس کو کامیاب کرایا تھا۔ کوئی غیر مسلم پاکستانی جن کے آباؤ اجداد صدیوں سے اس ملک میں آباد ہیں مگر ملک کے اہم عہدے ان کے لیے ممنوع ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد بیرسٹر محمد علی جناح نے جو نئی کابینہ ترتیب دی تھی اس میں وزیر قانون کا عہدہ مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک شیڈول کاسٹ مینڈل کو مقرر کیا گیا تھا۔ ایک اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھے والے سر ظفر اﷲ خان کو وزیر خارجہ جیسے اہم عہدہ پر تعینات کیا گیا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کے وعدہ کے تحت 23 مارچ 1940کی قراردادِ لاہور کے مطابق وفاقی آئین بنانے پر توانائی صرف کرنے کے بجائے قراردادِ مقاصد منظور کرائی، یوں غیر مسلم شہریوں پر ملک میں اہم عہدوں پر انتخاب میں حصہ لینے پر پابندیاں لگ گئیں۔
1965 کی جنگ میں پاک فضائیہ کے عیسائی کمانڈر نے ایک ہی حملہ میں کئی بھارتی طیاروں کو مار گرایا تھا۔ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں جسٹس اے آر کارلینئس ، جسٹس دوہراب پٹیل اور جسٹس بھگوان داس کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ جسٹس کارلینئس نے مولوی تمیز الدین کیس میں چیف جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کو مسترد کردیا تھا۔
جسٹس دراب پٹیل سپریم کورٹ کی اس بنچ کا حصہ تھے جو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی موت کی سزا کے خلاف مقدمہ کی سماعت کررہی تھی۔ دراب پٹیل (Dorab Patel) نے ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ انھیں سینیارٹی کے اعتبار سے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننا تھا مگر جب جنرل ضیاء الحق نے عبوری قانون کا حکم (P.C.O) نافذ کیا تو جسٹس پٹیل نے اس قانون کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا اور خاموشی سے گھر چلے گئے۔
جسٹس دراب پٹیل نے اپنی زندگی انسانی حقوق کی بالادستی میں وقف کی، وہ انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ رہے۔ جسٹس بھگوان داس نے جنرل مشرف کے دباؤ کے باوجود چیف جسٹس افتخار چوہدری کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے امتناعی قوانین نافذ کر کے مختلف فرقوں کے حقوق غصب کرلیے۔ یہی وجہ ہے کہ 80ء کی دہائی سے فرقہ وارانہ کشیدگی کی جڑیں گہری ہوگئیں۔
پاکستانی اور بھارتی نژاد شہریوں کے یورپ کے اہم ممالک میں اہم عہدوں پر منتخب ہونے سے ایک ہی سبق ملتا ہے کہ ہمارے آئین میں غیر مسلم شہریوں پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں اور انھیں وہی حقوق دیے جائیں جو ہر ایک پاکستانی شہری کو حاصل ہیں۔