روزہ کی جسمانی اور طبی افادیت

ذہنی انتشار اور بدنی خلفشار کی بہتات کے اس دور میں روزے سے بڑی کوئی نعمت ہو ہی نہیں سکتی


Hakeem Niaz Ahmed Diyal April 06, 2023
ذہنی انتشار اور بدنی خلفشار کی بہتات کے اس دور میں روزے سے بڑی کوئی نعمت ہو ہی نہیں سکتی۔ فوٹو:فائل

ماہِ مقدس اللہ کی خوشنودی و رضا اور مغفرتِ بے بہا کا پیغام بر تو ہے ہی لیکن صحت و تندرستی کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔

رمضان الکریم میں عام طور پر لوگوں کا عبادات کی طرف رجحان قدرتی طور پر بڑھ جاتا ہے۔ جوان، بچے اور بوڑھے سب بڑے شوق و ذوق سے دن میں روزہ رکھنے کا اہتمام، رات میں نمازِ تراویح کے ذریعے قیام کرتے ہیں۔ پنجگانہ نماز کی ادائیگی باقاعدہ کی جاتی ہے۔

حصول ثواب اور قربِ ذات باری تعالیٰ کے لیے ہر مسلمان دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ اگرچہ نماز، روزہ اللہ کی خوشنودی کا صدیوں سے ذریعہ چلا آ رہا ہے لیکن جدید سائنسی اور طبی تحقیقات نے ان عبادات کی بدنی افادیت کو بھی ثابت کر دیا ہے۔

روزہ ایسی عبادت ہے جس میں انسانی جسم اور روح دونوں شامل ہو تے ہیں۔ روزہ محض بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ فطرت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی عملی مشق ہے۔ آج بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سائنسی ارتقاء اور اسبابِ دنیوی کی فراوانی سے انسان کے روحانی و جسمانی مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس نے روپے پیسے کی ریل پیل سے اپنے طرزِ رہن سہن اور لباس و خوراک میں غیر فطری عوامل شامل کرکے اپنے کئی ایک جسمانی عوارض کو دعوت دے رکھی ہے۔

ذہنی انتشار اور بدنی خلفشار کی بہتات کے اس دور میں روزے سے بڑی کوئی نعمت ہو ہی نہیں سکتی۔ روزہ صرف روحانی عبادت کا نام ہی نہیں ہے بلکہ یہ بدنی کسرت کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ روزے کی مدد سے موجودہ دور کے کئی خطرناک امراض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ فی زمانہ انسانوں کی اکثریت بلڈ پریشر، یورک ایسڈ، کو لیسٹرول، موٹاپا، جوڑوں کا درد، بواسیر اور شوگر جیسے موذی اور خطرناک امراض کے نرغے میں پھنس چکی ہے۔

اسلام کی دستوری کتاب قرآنِ پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک میں فرمایا ہے: ''اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ نکلو، بے شک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔'' (الاعراف31) روزہ پرہیز کے حوالے سے ہمیں بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔ سارا دن بھوک و پیاس معدے میں جمع ہونے والے فاضل مادوں کو جلا کر جسم کو ان کے نقصانات سے محفوظ کر دیتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق روزہ بدن کی زکوٰت ہے۔ روزہ رکھنے سے انسان میں ضبطِ نفس کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ صبر، استقامت اور حوصلے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ روزے سے نفسانی و شہوانی خواہشات کمزور پڑ جاتی ہیں یوں انسان غلبہ شہوت کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

جس طرح مالی زکوٰۃ مال کو آلائشوں سے پاک کرتی ہے با لکل اسی طرح روزہ جسم کو غیر ضروری اور مضر مادوں سے پاک و صاف کرتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر خون کے بڑھے ہوئے دباؤ کا نتیجہ ہو تا ہے۔ جب انسانی معدہ خالی ہوتا ہے تو وہ جسم میں پائی جانے والی اضافی چربیوں کو پگھلا کر مفید بنا دیتا ہے۔ جگر میں جمع شدہ گلائیکوجن، جس کی اضافی مقدار ٹرائیگلائسائیڈ کی شکل میں نقصان دہ ثابت ہو تی ہے، بحالتِ روزہ توانائی کی شکل میں جسم کو توانائی مہیا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔

دورانِ ماہِ صیام دھیان رکھیں! غذا کے حوالے سے یہ بات ہر گز اہم نہیں ہوتی کہ ہم کتنا کھا رہے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم کیا کھا رہے ہیں۔ ہمارے بدن کی نشوونما اور طبعی تبدیلیوں کا دارومدارغذا پر ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی جسمانی ضروریات، فطری رجحانات اور طبعی میلان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یومیہ غذاؤں کا استعمال کریں تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہم 50 فیصد تک بیماریوں کے خطرات سے محفوظ ہو جائیں گے۔

اپنے ماحول کو آلودگی اور پراگندگی سے بچا کر مزید 20 فیصد امراض کے حملوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اور اگر ہم ہر حال میں راضی بہ رضائے خدا رہنا سیکھ لیں یعنی خود ساختہ پریشانیوں سے خود کو بچا لیں تو ہم 90 فیصد تک مختلف امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

بیماریوں کے حملوں اور اثراتِ بد سے بچنے کے لیے فطری غذائیں بہترین ہتھیار ہیں۔ فطری غذاؤں میں ہمارے لیے بیماریوں سے حفاظت اور شفایابی کی مکمل صلاحیت پائی جاتی ہے۔ متوازن اور مناسب غذائیں ہمیں خاطر خواہ حد تک ضدی اور موذی امراض سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔

متوازن اور مناسب غذائیں ایسے غذائی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں جو ہمارے بدن کی بنیادی اورلازمی ضرورت ہوتے ہیں۔ ان بنیادی اور لازمی غذائی اجزاء میں کیلیشیم، پوٹاشیم، فاسفورس، گندھک، جست، فولاد، کیراٹین ،آیوڈین،کاربوہائڈریٹس، وٹامنز اور پرو ٹینز وغیرہ شامل ہیں۔ سحر و افطار کے اوقات میں منتخب غذائی اجزا کے استعمال سے ہم روزے کے فلسفے اور روح سے خاطر خواہ روشناس ہو سکتے ہیں۔

ہمارے یہاںماہِ رمضان میں دن بھر روزہ رکھنے کے بعد خوب تلی غذاؤں کا دستر خوان پہ سجانا فیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سموسے، پکوڑے ، کچوریاں اور دوسری بھنی ہوئی ڈشیں افطاری میں بڑے شوق سے شامل کی جاتی ہیں۔ لذت، مزے اور چسکے کے چکر میں روزے کی بدنی افادیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے اور روزے کا مقصد بھی فوت ہوجاتا ہے۔ روزے کا مقصد تو جسم کو فاضل مادوں اور آلائشوں سے پاک کرنا ہے جبکہ بسیار خوری اور غیر متوازن خوراک کا بے دریغ استعمال فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بنتا ہے۔

کیوں کہ اگر ہم اپنے بدن کی غذائی ضرورت سے زیادہ چکنائیاں وغیرہ استعمال کرتے ہیں تو وہ جسم کے مختلف حصوں میں جمع ہو کر کئی ایک امراض پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ایسے تمام غذائی اجزاء جو جسم کی ضرورت سے زیادہ ہوتے ہیں وہ چربیلے ذرات کی شکل میں جوڑوں میں جمع ہو کر جوڑوں کے درد، گنٹھیا، نقرص، موٹاپا اور کمر درد جیسے امراض پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح یہی چربی خون میں شامل ہو کر خون گاڑھا کرکے کو لیسٹرول، شوگر اور بلڈ پریشر جیسے موذی عوارض کا باعث بنتی ہیں۔

بعد ازاں یہی فاضل مادے گردوں پر اثر انداز ہو کر یوریا اور یورک ایسڈ کی زیادتی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یوں وہ خوراک جسے ہم اپنی صحت اور تندرستی کے لیے استعمال کرتے ہیں، کئی ایک موذی امراض کو ہم پر مسلط کردیتی ہے۔آج دنیا بھر میں اتنے لوگ بھوک اور افلاس سے نہیں مر رہے جتنے بسیار خوری سے مر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ ہماری اپنی انفرادی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی خوراک میں توازن پیدا کریں،کھانے کے درمیانی وقفے کو مناسب رکھیں اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے ایک خوشگوار ، خوشحال اور آسودہ زندگی گزارنے والے بن جائیں۔

اگر آپ روزے کی روح کو سمجھتے ہوئے اور اس کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے روزے رکھیں گے تو ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ درج ذیل فوائد اور مقاصد کے حصول میں یقینی طور کامیاب ہوںگے:

آپ کا جسم اضافی چربی اور فاسد مادوں سے پاک ہو گا۔ موٹاپے کے شکار خواتین و حضرات وزن میں خاطر خواہ کمی کرسکتے ہیں۔ کولیسٹرول اور کولیسٹرول کے نقصانات سے نجات ملے گی۔ خون کا گاڑھا پن ختم ہو کر کئی دیگر امراضِ خون سے جڑے عوارض سے چھٹکارا ملے گا۔ بلڈ پریشر جیسے خاموش قاتل پر قابو پانے کی ہمت اور سبیل پیدا ہوگی۔ ذیابیطس جیسے موذی مرض سے نجات حاصل ہوگی۔ یورک ایسڈ کے عوارض سے جان چھو ٹ جائے گی۔ سگریٹ، چائے اور شراب نوشی کی صحت دشمن عادات سے بہ آسانی پیچھا چھوٹ جائے گا۔

روزہ رکھنے سے جسم کو فرحت وتازگی ملے گی۔ ذہنی امراض ڈپریشن، سٹریس اور انگزائٹی سے بھی نجات ملتی ہے۔ ضبطِ نفس،برداشت اور جنسی جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔ بے خوابی دور ہو کر پر سکون نیند میسر آتی ہے اور خواب آور ادویات سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔

انتڑیاں اور معدہ فاسد رطوبات سے پاک ہو جاتے ہیں، یوں ان کی کارکردگی اور افعال میں بہتری پیدا ہوجاتی ہے۔ روزے سے انسانی خد وخال اور ڈیل ڈول میں خوب صورتی اور دل کشی پیدا ہوتی ہے۔ چہرے کے کیل، مہاسے اور گرمی دانوں سے نجات ملتی ہے۔ روزہ رکھنے سے اعصابی اور جسمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔

یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ 14 گھنٹے روزے کا دورانیہ ہے، کم از کم چھ گھنٹے سونے کے لئے درکار ہوتے ہیں، باقی بچے چارگھنٹے۔ ان چار گھنٹوں میں اپنے نفس اور خواہش پر قابو پانا ہی اصل مجاہدہ ہے۔ ایسے افراد جو سگریٹ نوشی کی علت میں بری طرح گرفتار ہوں، تھوڑی سی ہمت کا مظاہرہ کریں تو اس عادت سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔

اسی طرح چائے، پان، نسوار اور دیگر نشے والی کسی بھی عادت میں گرفتار ہونے والے افراد بھی اپنی ان قبیح عادات سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں ذرا سی ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرکے ان عادات اور ان کے اثراتِ بد سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ سگریٹ نوشی کے عادی افراد روزانہ ایک ،ایک سگریٹ کم کرتے جائیں تو مہینے بعد عادت چھوٹ جائے گی۔

رمضان کے بعد عید کی خوشیوں بھری ساعتیں آتی ہیں۔ عید کے روز تو مزید احتیاط اور پرہیز کی ضرورت ہوگی۔ زیادہ مرغن اور تیز مصالحہ جات والے کھانوں سے دور ہی رہا جائے تو بہتر ہے۔ چٹخارے دار اشیاء کا کھانا بہت زیادہ ضروری ہو تو ان کے ساتھ کو لا مشروبات سے اجتناب کیا جائے۔ اسی طرح کھا نے پینے کے معمول میں بھی احتیاط کا دامن ہر گز نہ چھوڑیں۔

کم از کم چھ گھنٹے کے وقفے سے کھانا کھائیں ورنہ معدہ جو مہینہ بھر14گھنٹے خالی رہنے کا عادی ہو چکا تھا ردِ عمل کے طور پر غذائی بد پرہیزی میں مبتلا ہو کر آپ کو اور آپ سے جڑے افراد کو پریشانی لاحق کرنے کا باعث بن جائے گا۔ روزہ رکھنے کا مقصد ہمیں سال بھر کے لیے اپنے معمولات متعین کرنا ہو تا ہے، جسمانی اور روحانی طور پر پاکیزگی کا حصول ہوتا ہے۔

مرغن و متنوع کھانوں سے سجی افطار پارٹیوں میں شریک افراد جس طرح خورو نوش کا مظاہرہ کرتے ہیں، یوں دکھائی دیتا ہے کہ شاید کھانے پینے کا یہ پہلا اور آخری موقع ہے۔ سارا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بعد اس قدر زیادہ کھانا با لکل بھی صحت مندانہ طرزِ عمل نہیں۔ روزے کا مقصد اور تقاضا بھی ضبط نفس اور خواہشات پر قابو پانا ہے، جب تک ہم روزے کی روح، مقصد اور تقاضے کو پورا نہیں کریں گے تو ماسوائے بھو کا اور پیاسا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔