ارادے نے یورپ کو دوبارہ زندہ کیا
قدیم برطانیہ اپنے ٹین کی وجہ سے اور جدید برطانیہ اپنے لوہے اور کوئلے کی وجہ سے
تاریخ کو قدیم، متوسط اور جدید زمانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ کی یہ تقسیم عہد وسطی کے مفکروں کی پیدا کی ہوئی ہے۔ مارکس کے مطابق انسانی تاریخ کو شکاری اور شبانی، زرعی اور دستکاری و صنعتی اور مشینی عہد میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
انسانی تاریخ میں جتنے عظیم واقعات پیش آئے ہیں وہ سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی ہیں ، وہ میرا تھون کی جنگ، سیزرکے قتل اور انقلاب فرانس کو نہیں بلکہ زرعی انقلاب اور صنعتی انقلاب کو تاریخ کے اہم اور عظیم واقعات سمجھتا ہے، اس لیے کہ ان میں سے ایک نے زندگی کے نظام کو شکاری سے زرعی بنایا اور دوسرے نے گھریلو صنعتوں کی جگہ کارخانہ کی صنعتوں کو رائج کیا۔
اقتصادی حالات سلطنتوں کے عروج و زوال کا سبب ہوتے ہیں سیاسی ، اخلاقی اور اجتماعی حالات کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بداخلاقی،کرپشن ، تعیش پرستی یہ اسباب نہیں بلکہ نتائج ہیں۔ ہر چیز کی تہ میں زمین کا فرق اور اس کی نوعیت اپنا کام کرتی ہے مصر اپنے لوہے کی وجہ سے مشہور ہوا۔
قدیم برطانیہ اپنے ٹین کی وجہ سے اور جدید برطانیہ اپنے لوہے اور کوئلے کی وجہ سے۔ ایتھنز کی چاندی کی کانیں جب خالی ہوگئیں تو ایتھنز کی قوت ختم ہوگئی مقدونیہ کے سو نے نے فلپ اور سکندرکے ہاتھ مضبوط کیے رومانے ہسپانیہ کی چاندی کی کانوں کے لیے کارتھیج سے جنگ لڑی اور جب اس کی زمین بنجر ہوگئی تو وہ زوال پذیر ہوگئی۔
قبل مسیح ایتھنز میں چرائے ہوئے سونے کی بدولت شاندار صنم خانے تعمیر کیے گئے فن کے اکثر زریں عہد دولت سمیٹنے کے بعد وجود میں آئے لیکن ایتھنز غذا کے لیے درآمد کا محتاج تھا۔ اسپارٹا نے جو نہی اس کا محاصرہ کیا، ایتھنز کے عوام بھوکے مرنے لگے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔
اس کے بعد عظیم شہر پھر نہ سبنھل سکا۔ یونان میں مزدوروں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے سے صنعتی جدت اور ترقی رک گئی عورتوں کی غلامی سے صحت مند محبت کے امکانات ختم ہوگئے اور مر د پرستی پیدا ہوئی اور اس نے یونانی صنم تراشی کو متاثرکیا۔
مادی چیزوں کی پیداوار کے طریقے زندگی کے اجتماعی سیاسی اور روحانی وظائف کو متاثر کرتے ہیں لوگوں کا شعور ان کے وجود کا باعث نہیں بنتا، ان کے اجتماعی وجود سے ان کا شعور پیدا ہوتا ہے۔
فرد یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے خیالات ، اپنا نظام فلسفہ، اپنے اخلاقی تصورات اور مذہبی عقائد، اپنا فنی شعور ، مطنق غیر جانب دار استدلال سے حاصل کیے ہیں وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی زندگی کے اقتصادی حالات نے اس کا افکارکوکس طرح متاثرکیا۔
ماضی میں کلیسیا کی طاقت ان مظلوم لوگوں کے افلاس اور تباہی پر مبنی تھی جو روحانی سکون اور امید کے بھوکے تھے اس کا انحصار لوگوں کی جہالت اور توہم پر ستی پر تھا جو افلاس کا لازمی نتیجہ ہے۔ سیاسی طاقت اقتصادی طاقت کے بعد ضرور حاصل ہوتی ہے کامیاب انقلاب ، اقتصادی فتوحات پر محض سیاسی دستخطوں کا کام کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہیر نگٹن نے کہا تھا کہ حکومت کی ہیت کا انحصار زمین کی تقسیم پر ہے اگر ملک کی پیشتر زمین ایک شخص کے ہاتھوں میں ہے تو نظام حکومت بادشاہت ہوگا اور چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے تو رئیسیت اور اگر عوام کے ہاتھوں میں ہے تو جمہوریت۔ تاریخ میں اخلاقی قوتوں اور قدروں کی کوئی جگہ نہیں۔ قوموں اور گروہوں کی آرزؤں کی بنیاد ہمیشہ معاشی ہوتی ہے جیسا کہ بسمارک نے کہا تھا کہ قوموں کے باہمی روابط میں اخلاق کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور مرد مجاہد اور مرد کی حیثیت محض ایک آلہ کی ہے اور عظیم شخصیتیں عوامی تحریکوں یا غیر ذاتی قوتوں کے اظہارکا ایک وسیلہ ہیں۔
نظریات کا تاریخ سے وہ ہی تعلق ہے جو فکر کا فرد کے عمل سے۔ دونوں صورتوں میں خیال نتیجہ کا سبب نہیں ہوتا بلکہ اس کا سبب آرزو ہوتی ہے جس کا ضروری نہیں کہ فرد کو شعورواحساس ہو حقیقت میں کسی خاص زمانے کے مخصوص تمدن کا اقتصادی زندگی کے ساتھ وہی رشتہ ہے جو خیال کا جسم کے ساتھ ہے، افکار ہر عہد کی روح ہوتے ہیں یعنی ہر عہد کے فکر اور احساس کا ایک منفرد انداز ہوتا ہے اور تاریخ اسی انداز کا نتیجہ ہے۔
تہذیب و تمدن تین منزلوں سے گذرتی آئی ہے پہلی منزل وحشت کی تھی جس میں فکر کا گذر نہیں تھا فقط جذبات تھے دوسری منزل بربریت کی تھی جس میں تخیلی علم نے ہومر اور ڈانٹے اور دیگر عظیم لوگوں کے عہد تخلیق کیے، تیسری منزل تہذیب کی ہے جس میں سائنس، قانون اور ریاست کو وہ جنم دیتی ہے ویکو کے خیال کے مطابق بربریت سرداروں کو وجود میں لاتی ہے جو بعد میں رئیس طبقے کی صورت میں منظم ہوجاتے ہیں۔
رئیسوں کے ظلم و ستم انقلاب پید ا کرتے ہیں اور پھر جمہوریت جنم لیتی ہے اور جمہوریت کے انتشار کی بدولت بربریت واپس آجاتی ہے۔
ڈانٹے نے جب جہنم کی تصویر کھینچنی چاہی تو اس کا مواد ہماری دنیا کی مصیبتوں ہی نے مہیا کیا تھا اور اس نے جہنم کی نہایت اچھی تصویر کھینچی لیکن جب اس نے جنت اور وہاں کی سعادتوں کا نقشہ کھینچا چاہا تو ناقابل تصور مشکلات میں الجھ کر رہ گیا، کیونکہ ہماری دنیا میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو جنت کی تخلیقی تصویر کے لیے آب و رنگ کا کام دے سکتی۔ لائبنیز ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ دنیا کے شرکا جواز یہ ہے کہ شر سے کبھی کبھی خیر بھی پیدا ہوجاتا ہے۔
والٹیئر نے لائبنیز کے افکار و تصورات سے متاثر ہو کر کنیڈیڈ لکھی تھی ۔ خیر ہمیشہ ارادہ سے پیدا ہوتا ہے۔ عقل تھک جاتی ہے مگر ارادہ نہیں تھکتا عقل نیند کی محتاج ہے لیکن ارادہ نیند میں بھی بر سر کار رہتا ہے۔ طاقت ارادے کی ایک صورت ہے یہ ارادہ ہی تھا جس نے یورپ کو دوبارہ زندہ کیا۔ ٹیگو نے کہا تھا فکر، فکرکو دورکرتی ہے۔
ایک دفعہ نہیں بلکہ ہزاروں مرتبہ ثابت کیا جاچکا ہے اور دنیا اسے قبول کرتی ہے کہ پاکستان تمام مہذب ممالک میں آج کل سب سے زیادہ مفلس ہے ہم اپنے قاتل خود ہی نکلے ہیں پہلے ہم نے اپنے رسم و رواج کو قتل کیا پھر برداشت ، رواداری ، محبت و اخوت کے قاتل ٹہر ے یہ ہی وجہ ہے کہ آج پاکستان پر تعصب ، نفرت ،عدم برداشت ، عدم مساوات اور عدم رواداری کا مکمل راج قائم ہے اور دوسری طرف دہشت گردی ، بدامنی، بھوک، افلاس ، غربت کے ہاتھوں لاکھوں زندہ انسان وقت سے پہلے اپنی اپنی قبروں میں جاکر سو گئے ہیں ہمارا سماج ایسا لٹا پٹا ہے کہ جسے دیکھ کرکپکپی ختم ہی نہیں ہو پاتی ہے لیکن بے حسی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہے کہ ہمارے اپنے ہاتھوں کیا سے کیا ہوچکا ہے۔