حاذق الخیری بھی رخصت ہوئے
آپ کے دو ڈرامے ’’وہ آدمی‘‘ اور ’’دوسری کہانی‘‘ تبدیلی دماغ سے متعلق تھی
برصغیر پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے یہاں کی مسلم تہذیب و تمدن کو جس شدت کے ساتھ مٹانے کی کوشش کی اسی شدت سے ہمارے بعض غیرت مند علما، دانشوروں اور ادیبوں نے اسلامی تہذیب کی بقا اور ترویج کے لیے نہ صرف جدوجہد کا آغاز کیا بلکہ خود کو اس مشن کے لیے وقت کر دیا۔
ان محبان قوم اور مصلحین میں جہاں سرسید احمد خان، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی وغیرہ کا نام شامل ہے وہاں مصور غم علامہ راشد الخیری کے احسانات کو کسی طور بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
علامہ راشد الخیری کو ان تمام مصلحین پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ انھوں نے خاص طور پر مسلم خواتین کی اصلاح کے لیے خود کو وقف کیا اور پھر ان کے بعد ان کی اولاد نے بھی اس مشن کو جاری رکھا۔ حتیٰ کہ قیام پاکستان کے بعد بھی اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ علامہ راشد الخیری کی اس تحریک کا حوالہ ایک مایہ ناز ماہنامہ ''عصمت'' ہے جو تاریخی اور منفرد حیثیت کا حامل ہے۔
اس کی شروعات 1908 میں ہوئی اور یہ اب تک جاری ہے البتہ اب موجودہ دگرگوں حالات کی دست برد کے نتیجے میں وقفے وقفے سے شایع ہوتا ہے۔
پاکستان میں ماہنامہ ''عصمت'' کو جاری کرنے اور اسے مقبول بنانے میں علامہ راشد الخیری کے فرزند ارجمند مولانا رازق الخیری اور ان کی ادیبہ اہلیہ آمنہ نازلی بیگم نے اہم کردار ادا کیا پھر ان کے بعد بڑے صاحبزادے سعد اور پھر ان کی وفات کے بعد اس رسالے کو جاری رکھنے کی ذمے داری ان کی مایہ ناز بیٹی صفورا خیری اور بیٹے حاذق الخیری نے سنبھال لی۔ حاذق الخیری گوکہ ایک مشہور قانون دان تھے مگر ان کی ادبی اور سماجی خدمات کو کبھی نہیں بھلایا جاسکے گا۔ آپ کا گزشتہ یکم اپریل کو انتقال ہو گیا۔
یہ تو زمانے کی عادت ہے کہ مرنے والے کو چند دنوں بعد بھلا دیا جاتا ہے مگر بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنھیں صدیوں بعد بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مرحوم حاذق الخیری ایسی ہی شخصیات میں شامل ہیں۔ ان کے جانے سے ادبی محفلیں سونی رہیں گی بلکہ پرانے دوستوں کا حلقہ، ججوں کی برادری اور دانشوروں کی انجمنیں بھی بدمزہ رہیں گی۔
آپ کی شخصیت کا یہ پہلو قابل تحسین تھا۔ آپ کا رعب دار چہرہ مگر دھیما لہجہ، وضع داری اور مہمان نوازی ضرب المثل رہیں گی۔ وہ بلاشبہ مسلم لا کالج کے پرنسپل، سندھ ہائی کورٹ کے جج، سندھ کے محتسب اعلیٰ، اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ اور فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس رہے مگر اتنے اعلیٰ عہدے رکھنے کے باوجود بھی نام کو بھی غرور نہ تھا۔
ہر شخص خواہ شناسا ہو یا ناشناسا سب سے اپنائیت سے ملتے اور ان کے مسائل کو غور سے سنتے اور ان کو سلجھانے کی کوشش کرتے۔ وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے وکیل بھی رہے۔
غریبوں کے مقدمے بلا کسی اجرت کے لڑتے اور کامیابی دلاتے، ان کے آفس میں صرف قانونی معاملات سے متعلق اشخاص ہی ان سے مشورہ کرنے نہیں آتے بلکہ ادیب دانشور حضرات بھی آتے اور آپ سے گھنٹوں شعر و ادب پر گفتگو کرتے۔ شہر میں منعقد ہونے والی اکثر ادبی تقریبات کی صدارت کرتے۔ آپ کی ادبی زندگی کا آغاز 1950 سے ہوا اس وقت آپ طالب علم تھے۔
پہلا افسانہ ''احمق'' تھا جو نام ور رسالے ''ساقی'' میں شایع ہوا۔ یہ سلسلہ طالب علمی تک جاری رہا۔ ''ساقی'' کے ایڈیٹر شاہد احمد دہلوی تھے جو آپ کے افسانوں کو بڑی اہمیت دیتے تھے جب کبھی لکھنے میں دیر ہو جاتی تو ان کا خط افسانہ جلد بھیجنے کے لیے آ جاتا۔ جنوری 1961 میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ''گزرتی شب'' کے نام سے شایع ہوا جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔
آپ کے دو ڈرامے ''وہ آدمی'' اور ''دوسری کہانی'' تبدیلی دماغ سے متعلق تھی۔ ڈرامہ ''وہ آدمی'' آپ نے 1967 میں لکھا، جب جنوبی افریقہ کے ڈاکٹر برنارڈ شاہ کے ہاتھوں تبدیلی دل ممکن ہو سکا اور یہ کامیابی سے ہم کنار ہوا۔ جس نے آپ کے ذہن میں ایک ممکنہ صورت کو جنم دیا کہ اگر ایک انسان کا دماغ دوسرے انسان کے دھڑ میں یا ایک انسان کا دھڑ دوسرے کے دماغ میں لگا دیا جائے تو پھر کیا ہوگا؟ آپ کا ذہن یہی سوچتا رہا اور پھر تین دن بعد ڈرامہ ''وہ آدمی'' تحریر کرلیا۔
جو 17 مارچ 1968 کو پاکستان ٹیلی وژن کراچی سے ٹیلی کاسٹ ہوا۔ اسے عوام نے بہت پسند کیا کیونکہ یہ ڈرامہ ایک نئی سوچ کا عکاس تھا۔
آپ کے ڈرامے ''وہ آدمی'' پر تبصرہ کرتے ہوئے نامور ادیب ملا واحدی نے لکھا ''میں قصے کہانیاں بہت کم پڑھتا ہوں مگر حاذق الخیری کے ڈرامے ''وہ آدمی'' کا پلاٹ تو بالکل انوکھا اور لاجواب ہے۔
حاذق الخیری صاحب نے اچھا ادیب ہونے کا ہی ثبوت نہیں دیا بلکہ اچھا ایڈووکیٹ ہونے کا بھی ثبوت دیا۔ '' شاہد احمد دہلوی نے لکھا ''حاذق الخیری کے انداز نگارش سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے یگانہ روزگار باپ دادا کی طرح اپنے ادبی کارناموں کے باعث شہرت دوام حاصل کریں گے۔''
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ایڈیٹر ماہنامہ ''سات رنگ'' نے لکھا ''حاذق الخیری چاروں طرف سے ادیب ہیں۔ ان کی مادری زبان اردو ہی نہیں بلکہ ادبی اردو ہے۔ لہٰذا ان کی زبان مسلم ہی نہیں بلکہ قدرتی چیز ہے جس تک لوگ اکتساب سے پہنچتے ہیں۔''
آپ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سرگرم رکن رہے اور اس وقت جو اس کے ممبران میں نااتفاقی ہے اسے سلجھانے کی ذمے داری بھی آپ کو سونپی گئی تھی کراچی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا ''یونی کیریئر'' کے ابتدائی عہدیدار رہے۔
ان کے مطابق اس تنظیم نے ان کے دفتر میں ہی جنم لیا تھا۔ آپ ادیبوں کی تنظیم ''رائٹرز گلڈ'' کے عہدیدار رہے۔ یہ تنظیم 1980 میں قائم ہوئی تھی اس کی پرورش میں آپ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ شوریٰ ہمدرد میں حکیم سعید نے خود آپ کو اس میں شامل کیا تھا۔ آپ حکیم سعید سے بہت متاثر تھے جس کی وجہ ان کی سادگی اور حق گوئی تھی۔ آپ نے اپنی خود نوشت ''جاگتے لمحے'' میں لکھا ہے ''1998میں، میں شوریٰ ہمدرد کا صدر تھا۔
ایک دفعہ میں نے شوریٰ ہمدرد کا اجلاس حکیم صاحب کے انتظار میں وقت پر شروع نہیں کیا۔ وہ کہیں ٹریفک میں پھنس گئے تھے آتے ہی کہنے لگے 'حاذق میاں! تم نے اجلاس وقت پر کیوں شروع نہیں کیا؟ میں نے کہا آپ کے انتظار میں۔ کہنے لگے میں آؤں نہ آؤں آپ وقت کی پابندی کریں تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔'' حاذق صاحب چونکہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اچھے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔
اس لیے وہ بھی اعلیٰ اخلاق اور اچھے خیالات کے آدمی تھے۔ راقم کو ان کی قربت حاصل رہی۔ شوریٰ ہمدرد میں آپ نے ہی مجھے شامل کرایا تھا۔ آپ میری کتاب ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' کے بہت مداح تھے۔