کتاب نصر اللہ خان فکر و فن اور رائٹر محمود عزیز
آج کل ادیبوں اور افسانہ نگاروں سے زیادہ ہر اخبار میں کالم نگاروں کو اہمیت دی جانے لگی ہے
یہ کالم نگاری بھی خوب ہے آج کل ہر اخبار میں کالموں کی بھرمار ہوتی ہے، لوگ اخبار کے دیگر مضامین کی طرف توجہ کم دیتے ہیں جب کہ کالم نگاری کی طرف ان کی توجہ زیادہ ہوتی ہے۔
دنیا کے حالات، واقعات اور مشاہدات کو اگر کوئی ناول نگار اپنے ضخیم ناول میں سموتا ہے اور کرداروں کا رنگ دیتا ہے یا پھر کوئی افسانہ نگار اپنے کئی افسانے لکھ کر قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے مگر اپنی باتوں کو ایک کالم نگار بڑی ذہانت کے ساتھ اپنے کالم میں نچوڑ کر قارئین کی نذر کر دیتا ہے۔
آج کل ادیبوں اور افسانہ نگاروں سے زیادہ ہر اخبار میں کالم نگاروں کو اہمیت دی جانے لگی ہے۔ ہم نے بھی اپنے اسکول کے زمانے سے خبروں کے ساتھ ساتھ اخبار کے کالم پڑھنے شروع کر دیے تھے جب کہ اس عمر میں دوسرے بچے مقامی اخبار میں ٹارزن کی تصویری کہانیاں یا پھر شہزادہ اسفند یارکی محبت بھری داستانوں کو بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔
ہمارے کالم پڑھنے کے شوق کی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے۔ ہمارے والد محترم جب صبح کی نماز پڑھنے مسجد جاتے تھے تو گھر آتے وقت دو روزنامے لے کر آتے تھے اور پھر وہ ایک اخباراپنے ساتھ لے جاتے اور دوسرا پڑھنے کے بعد گھر پر ہی چھوڑ جاتے تھے۔
ہماری رہائش کراچی کے ایک پرانے علاقے رامسوامی میں تھی ایک بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر ہمارا گھر تھا اور سامنے والی دوسری بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور کے کونے پر ہمارے حکیم والد صاحب کا ایک چھوٹا سا مطب تھا جہاں فجر کی نماز کے کچھ دیر بعد ہی چلے جاتے تھے۔
ان کے جاتے ہی ہماری والدہ صاحبہ ہم سے کہتی تھیں چلو اب تم ہمیں اس اخبار کی بڑی بڑی کچھ خبریں سنا دو اور ہم ان کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے اخبار کی بڑی چھوٹی خبریں روزانہ سنایا کرتے تھے اس طرح ہمارا مطالعہ بھی بڑھتا چلا گیا تھا۔
ہماری والدہ اخبار کی وہ خبریں سن کر یہ روزانہ ہی کہتیں آج بھی کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملی، وہی دنگا فساد کی خبریں، ہر طرف برائی ہی برائی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے نہ جانے اس دنیا کو کیا ہو گیا ہے یہ کہہ کر وہ ہمارے لیے اسکول جانے سے پہلے ناشتہ تیار کرنے میں لگ جاتی تھیں اور ہم اخبار میں مشہور رائٹر ابراہیم جلیس کا کالم پڑھنے میں لگ جاتے تھے۔
ان کا کالم طنز و مزاح سے بھرپور ہوتا تھا کبھی کبھی اس میں وہ لطیفے بھی شامل کردیا کرتے تھے۔ جب ہم نے اسکول کے بعد کالج سے بی۔اے بھی کرلیا تو ہم بھی صحافت کے شعبے میں آگئے تھے۔ ساتھ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے بھی لکھنا شروع کردیا تھا۔
اسی دوران خوش قسمتی سے ہمیں کراچی کی کچھ فلموں میں کہانی، مکالمے اور گیت لکھنے کے مواقع بھی حاصل ہوگئے تھے اور پھر ہم بھی لاہور کی فلمی دنیا میں جانے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔
اس دوران بطور فلمی صحافی کراچی کے مشہور ہفت روزہ نگار میں لکھنا شروع کیا اور پھر نگار اخبار کے شعبہ ادارت سے بھی وابستہ ہوگئے اور پھر اسی اخبار کے لاہور میں فلمی نمایندہ بنا کے ہمیں الیاس رشیدی ایڈیٹر نگار ویکلی نے لاہور بھیج دیا۔ اب ہمیں لاہور میں بحیثیت فلم رائٹر تمام وسائل بھی میسر آگئے تھے اور ہمارا نغمہ نگار بننے کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو گیا تھا۔
ہم جن مشہور شاعروں قتیل شفائی ، حمایت علی شاعر اور کلیم عثمانی کے پرستار تھے اب ان کے ہم عصروں میں بھی ہم شامل ہوگئے تھے لاہور کی فلم انڈسٹری میں دس بارہ سال گزارے بہت سی فلموں کے گیت اور بعض فلموں کی کہانی اور مکالمے بھی لکھے اور جب لاہور کی فلم انڈسٹری کو زوال آیا تو لاہور سے واپس کراچی لوٹ آئے اور یہاں آ کر اپنے دیرینہ دوست قومی اخبار کے ایڈیٹر الیاس شاکر کے کہنے پر ان کے اخبار میں ''بات ہے برداشت کی'' کے عنوان سے ہفتہ وار کالم نگار وابستہ ہوگئے اسی دوران نوائے وقت کے کالم نگار محمود عزیز سے ہماری دوستی ہوگئی ہم دونوں نارتھ ناظم آباد جی بلاک حیدری میں قریب قریب ہی رہتے تھے۔
حیدری میں ان کی آفس نما ایک دکان بھی تھی جہاں ہماری ہر دوسرے تیسرے دن ملاقات بھی رہتی تھی اور شعر و ادب پر خوب کھل کر باتیں ہوتی تھیں پھر میں اپنی فیملی کے ساتھ امریکا آگیا اور ریاست نیوجرسی میں سکونت اختیار کی کچھ دن پہلے ہی فیس بک کے ذریعے دیرینہ دوست کالم نگار محمود عزیز صاحب سے رابطہ ہو گیا تو انھوں نے مشہور کالم نگار نصر اللہ خان پر لکھی گئی اپنی ایک کتاب ''نصر اللہ خان فکر و فن'' بذریعہ میل ہمیں بھیجی، ہم نے بھی وہ کتاب پہلی فرصت میں بڑی دلچسپی سے پڑھی تھی اور پھر ریڈیو پاکستان کراچی کی یادیں تاز ہوگئی تھیں ہماری بھی نصراللہ خان صاحب سے کئی یادگار ملاقاتیں ہوئی تھیں اس ہفتے ہم نے بھی اپنے کالم میں اسی کتاب کو موضوع بحث بنایا ہے۔
نصراللہ خان ایک زمانے میں اردو کے مشہور روزنامہ حریت کراچی میں کالم لکھتے تھے اور اخبار کے بند ہونے تک وہ اس اخبار میں باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے تھے۔
اخبار کے کالم کے علاوہ نصراللہ خان نے ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے بہت سے پروگرام لکھے خاص طور پر ریڈیو پاکستان کراچی کے اسٹوڈیو نمبر 9 کے لیے بھی کافی پروگرام لکھے ایک ڈرامہ لائٹ ہاؤس کے محافظ بھی ان کا لکھا ہوا بڑا مشہور ہوا تھا اور دیگر ڈراموں میں ایک حقیقت سو افسانے اور سومناتھ کو بھی بڑی پذیرائی ملی تھی۔ نصراللہ خان صاحب نے ادب، صحافت، ثقافت، سیاست غرض ہر موضوع پر لکھا ان کی ایک کتاب کیا قافلہ جاتا ہے جو پچاس سے زیادہ قلمی خاکوں پر مشتمل تھی بھی قارئین کی جانب سے بہت پسند کی گئی تھی۔
مشہور ادیب اور کالم نگار محمود عزیز کے نصراللہ خان صاحب سے بڑے گہرے مراسم تھے اور اسی قربت ہی کی وجہ تھی کہ انھوں نے نصراللہ خان فکر و فن کے عنوان سے ایک خوبصورت کتاب مرتب کی جسے پڑھنے والوں نے بھی خوب سراہا اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہمیں بھی پتا چلا نصراللہ خان اپنے دور کی نام ور شخصیات مولانا ظفر علی خان جناب عبدالمجید سالک اور چراغ حسن حسرت جیسے جید ادیبوں سے والہانہ عشق رہا ہے محمود عزیز کی زیر تذکرہ کتاب اردو ادب کا ایک انمول موتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مستند دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہے مذکورہ کتاب کالم نگاری کے ایک نصاب کا درجہ بھی رکھتی ہے۔
اب میں کچھ اس کتاب کے مرتب مشہور رائٹر اور کالم نگار محمود عزیز کا تذکرہ کرتا چلوں محمود عزیز ایک طویل عرصہ تک پاکستان کے مشہور اخبارات اور ادبی رسائل میں لکھتے رہے ہیں ان کی بھی اب تک کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں سے ایک کچھ ذکر دلی والوں کا اور دیگر میں قابل ذکر مضامین رشید احمد صدیقی اور ہمارے کچھ شاعر و ادیب ہیں محمود عزیز دہلی کے ایک مشہور محلے چیلان میں پیدا ہوئے۔
ان کے والد محترم عزیز الرحمان مشہور اینگلو عربک اسکول دہلی کے پڑھے لکھے تھے جو اس زمانے میں تعلیمی اعتبار سے ایک بڑے اعزاز کی بات ہوتی تھی ان کے تایا امان الرحمان بھی مشہور ادیب تھے۔
دہلی کے مشہور رسالے آج کل کے مدیر تھے اور پھر کراچی کے مشہور رسالے ماہ نو سے بھی کافی عرصہ تلک منسلک رہے۔ اس طرح محمود عزیز کا گھرانہ ادب کا آنگن تھا اور انھیں بھی کم عمری ہی سے شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوگئی تھی مگر انھوں نے شاعری سے ہٹ کر نثرنگاری کی طرف اپنی ساری توجہ مبذول کردی تھی انھوں نے انٹر ایس۔ایم آرٹس کالج اور پھر بی ۔اے اسلامیہ آرٹس کالج سے کیا تھا جب کہ میں نے بھی اسلامیہ کالج ہی سے بی۔اے کیا تھا۔ میں نے بھی لکھنے کی ابتدا ریڈیو کے مشہور پروگرام بزم طلبا سے کی تھی جب کہ محمود عزیز نے ریڈیو کے لیے بہت سے بچوں کے پروگرام لکھے تھے۔
محمود عزیز نے ہفت روزہ تکبیر میں کچھ عرصہ کام کیا اور پھر یہ ریڈیو پاکستان کراچی میں کافی دنوں تک نیوز مانیٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے یہ کچھ عرصہ بقائی یونیورسٹی سے بھی بقائی نیوز انگریزی میں شایع کرتے رہے ہیں ان کی وساطت سے مجھے نصراللہ خان کی کتاب سے شناسائی حاصل ہوئی اور میرے ادبی ذوق کو ایک نئی تازگی میسر آئی ہے۔