رمضان المبارک کو سیاست کی بھینٹ مت چڑھائیے

رمضان المبارک کے مہینے میں سیاستدانوں کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں


رمضان میں بھی عوام سیاست پر نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ظالموں نے رمضان المبارک کے مہینے کو ہی سیاست چمکانے کےلیے مختص کرلیا ہے۔ اس ماہ مبارک میں حکمرانوں کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں اور عدالتیں بھی اسی مہینے میں پہلے سے زیادہ متحرک ہوجاتی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کی توجہ عبادات کے بجائے سیاست پر مرکوز ہوجاتی ہے۔

گزشتہ برس بھی تحریک عدم اعتماد رمضان کے مہینے میں ہی ہوئی تھی، جس میں بڑی بڑی سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں۔ سیاسی رہنما آپس میں ملاقاتیں کرتے رہے اور لمحہ بہ لمحہ صورتحال تبدیل ہوتی رہی۔ عوام اقدار کے ایوانوں کی طرف کان لگائے ہوئے تھے اور نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی تھیں کہ ایوانوں کی صورتحال کیا ہے، کس کے نمبرز کتنے ہیں اور سپریم کورٹ سے کیا فیصلے آرہے ہیں؟ سیاسی جوڑ توڑ جاری رہا۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران وفاداریاں تبدیل کرتے رہے۔ یوں بالآخر اپوزیشن جماعتوں کا پلہ بھاری ہوگیا اور رمضان المبارک میں ہی حکومت تبدیل ہوگئی۔

اب ایک بار پھر رمضان المبارک میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر بحث اور ایک جنگ جاری ہے۔ جو سیاستدان اسمبلیوں سے باہر ہیں وہ اسمبلیوں میں واپس جانے کےلیے تڑپ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ انتخابات کا شور مچا رہے ہیں۔ اس کے برعکس جو سیاستدان اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں وہ اسمبلیوں سے باہر نہیں جانا چاہتے، جس کی وجہ سے وہ انتخابات سے بھاگ رہے ہیں۔ یوں سیاسی صورتحال پھر نہایت کشیدہ ہے۔ سپریم کورٹ نے تو 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دے دیا ہے لیکن اب بھی انتخابات ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت کے پاس کئی اور طریقے اور حیلے بہانے ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ ان سے بچ سکتی ہے۔ جیسے عدالت نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کرانے کےلیے 31 دسمبر کی تاریخ دی تھی لیکن حکومت نے نہیں کرائے اور حکومت کا بگڑا بھی کچھ نہیں۔ اسی طرح فی الحال تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ حکومت انتخابات سے فرار کا کوئی راستہ نکال ہی لے گی۔

بہرحال یہ تمام صورتحال عوام کےلیے پریشان کن ہے اور عوام اس سیاست پر نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ وہاں کیا ہونے والا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے سوشل میڈیا کے مورچے سنبھالے ہوئے ہیں اور وہاں سے سیاسی گولہ باری جاری ہے۔ سوشل میڈیا کھولیں تو وہاں سیاسی کارکنان چھائے ہوئے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ سیاسی پوسٹیں کررہے ہیں، اپنے تجزیے پیش کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ نہ رمضان کا احترام اور نہ عبادت کا خیال۔

رمضان المبارک کا مہینہ امت محمدیہ کےلیے ایک عظیم نعمت ہے۔ اس مہینے میں اللہ کی رحمتیں اور برکتیں موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہیں۔ رمضان کے مہینے میں اتنی رحمتیں اور برکتیں رکھی گئی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بخشنے کا ہی فیصلہ کرلیا ہے اور اس امت کے گناہگاروں کی بخشش کےلیے رمضان المبارک کو ایک بہانہ بنایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے''۔ اس حدیث میں آسمان کے دروازے کھولنے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جب تمام دروازے کھل گئے تو اللہ رب العزت کی عنایتیں براہ راست زمین پر اترتی ہیں جن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اس مہینے میں نیکیوں کا ثواب بڑھا چڑھا کر عطا کیا جاتا ہے۔

اس مہینے کے ثمرات و برکات سمیٹنے کےلیے ضروری ہے کہ اس میں خوب عبادات کی جائیں اور اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ جھوٹے اور مکار سیاستدانوں کی ترجمانی اور دفاع کرنے کے بجائے علم دین سیکھنے کی طرف توجہ کیجیے۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعات کی قدر و قیمت کو جانتے ہوئے اس میں اپنا وقت ان مباحثوں میں برباد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نہ تو حالات کو بدل سکتے ہیں اور نہ ہی ہماری بات کسی فورم پر سنی جاتی ہے۔ اس لیے رمضان میں خود کو زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول رکھیں، ذکر و تلاوت کی کثرت کیجیے۔ جو وقت ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتے ہیں اسے بھی عبادت میں لگائیے۔ ہاں ملکی ترقی و استحکام کےلیے دعائیں ضرور مانگیے۔ اس ملک کےلیے دعا کیجیے کہ اللہ اسے نیک دل حکمران عطا فرمائے جو ذاتی مفادات کے بجائے صرف ملکی مفادات کو عزیز رکھتے ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔