نظریہ ضرورت
نظریہ ضرورت اب عدالتوں سے باہر اپنی پوری طاقت کے ساتھ برسرپیکار ہے
''برطانیہ کا آئین جس طرح ہمارے قوانین میں نمایاں ہے، بالکل اسی طرح یہ ہمارے دلوں' ذہنوں اور عادات میں بستا ہے''۔ یہ بات برطانیہ کی لیبر پارٹی کے ممتاز سیاست دان اور پارلیمنٹیرین جیک اسٹرا نے اپنے دستور کے بارے میں کہی تھی۔
جیک اسٹرا برطانوی وزراء اعظم ٹونی بلیئر اور گارڈن براؤن کے ادوار میں داخلہ' خارجہ اور دولت مشترکہ جیسی اہم وزارتوں کے سربراہ رہے۔ برطانیہ کے آئین کو دنیا کی دیگر جمہوریتوں میں رائج دستاویز سے بالکل الگ حیثیت اس لیے حاصل ہے کہ یہ شاید دنیا کا واحد آئین ہے جو ایک مکمل الگ دستاویز کے طور پر دستیاب نہیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ آپ کو برطانوی آئین ایک کتاب کی صورت میں مل جائے۔
یہ دستور کچھ بکھری ہوئی تاریخی دستاویزات پر مشتمل ہے جن سے اخذ ہونے والے اصول و ضوابط پر عملدرآمد کی تاریخ نے آئین کی پاسداری کے عمومی رویے کوجنم دیا۔
دوسرے لفظوں میں ملک چلانے کے بنیادی اصولوں پر ان کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد پر قائم رہنے والے واقعات قابل تقلید مثالوں کے طور پر باقی رہ گئے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پاسداری پر اصرار نے مستحکم مثبت روایات کی شکل اختیار کر لی جب کہ ان سے انحراف کو عدالتوں سے لے کر عوام تک کہیں بھی پذیرائی نہیں ملی جس بنا پر اگر کہیں کسی بے اصولی کی کوشش کی بھی گئی تو وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔
ریاستی اداروں اور عوام الناس نے ایسی کسی کوشش کو حمایت و موافقت کا وہ پانی ہی نہیں دیا جسے پا کرکوئی غلط سیاسی رویہ جڑ پکڑ سکتا ہے۔
کیسی عجیب بات ہے کہ برطانیہ میں ایک ایسے آئین کے ساتھ حکومتی نظم و نسق چلایا جا رہا ہے جو باقاعدہ آئین کی صورت میں لکھا ہوا موجود نہیں، اس کے باوجود دستوری قواعد و ضوابط کی جو بنیادی روح لوگوں کی سمجھ آ چکی ہے اس سے رتی برابر انحراف کی کوئی جرات ہی نہیں کرتا۔ اس سے ایک انتہائی بنیادی بات طے ہوتی ہے کہ تحریری صورت میں لکھے ہوئے الفاظ اس بات کی ضمانت فراہم نہیں کرتے کہ ان کا واضح طور پڑھے جانے کا وصف ان کی روح کے مطابق ان پر عملدرآمد کو یقینی بنا سکتا ہے۔
اسی لیے جیک اسٹرا کے مطابق برطانیہ کا غیر تحریری آئین درحقیقت عدالتوں سے لے کر عوام الناس تک کے دلوں میں تحریر ہے اوراس کے بنیادی خد وخال عدالتی فیصلوں' تشریحات سے لے کر لوگوں کی عادات تک کا حصہ بن چکے ہیں۔
یہ دستوری رویہ ایک ہزار برس کے طویل عرصہ میں ارتقاء پذیرہوا ہے اور اس کی بنیاد پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین'تاریخی دستاویزات' عدالتی فیصلوں' قانونی نظائر اور روایات نے فراہم کی ہے۔
جیسے ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقہ استثنائی حیثیت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے اسی طرح سن 1200 میں فرانس سے آ کر برطانیہ پر قابض برطانوی شاہی خاندان بھی قانون کے نیچے آنے پر آمادہ نہ تھا۔ 1215 میں بادشاہ کے مصاحبین (لارڈز) نے 'جن میں زیادہ مقامی تھے' 'کنگ جان' پر اس قدر دباؤ ڈالا کہ اسے اپنے کچھ اختیارات سے دستبردار ہونا پڑا۔ ایک معاہدے کے ذریعے بادشاہ کو قانون کے نیچے لانے میں کامیابی حاصل کر لی گئی۔
اس معاہدے کی رو سے ہر شہری کو کسی الزام کا دفاع کرنے اور عدل و انصاف کی بنیاد پر مقدمہ لڑنے کا حق اور غیر قانونی قید و بند سے تحفظ مل گیا۔ اس معاہدے کو دنیا میگنا کارٹا کے نام سے جانتی ہے۔
اسی معاہدے نے امریکی آئین میں بھی شہریوں کے حقوق کے تعین کی بنیاد فراہم کی تھی۔ پھر 1285 میں نظم حکومت کے بنیادی اصول طے کیے جاتے ہیں جسے The Provision of Oxford کہا جاتا ہے۔یوں پہلی شہنشاہ کی کونسل میں وہ لوگ بھی شامل ہوئے جو لارڈز نہیں تھے۔
1628میں لوگوں کو احکامِ شاہی پر گرفتاری اور سزا سے تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ برطانوی تاریخ میں ایک انتہائی اہم موڑ اس وقت آتا ہے جب 1680 The bill of Rights کے ذریعے بادشاہ کو اس بات کا پابند بنا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پارلیمنٹ کی رضا مندی کے بغیر نہیں کرے گا۔ یہ برطانوی اس پارلیمنٹ کی برتری کے سفر کا آغاز ہے۔
اس بل کے تحت لوگوں کو اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار رکھنے' غیر انسانی سزاؤں سے تحفظ اور ایسے ٹیکسوں سے آزادی ملی جو بادشاہ پارلیمنٹ کی رضا مندی کے بغیر نافذ کرے گا۔
1701 میں The Act of Settlement کے ذریعے تخت نشینی کے اصول طے کر دیے گئے۔ 1832 میں Gheat Reform Act کی رو سے ووٹ دینے کے اہل افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور 1928ء میں 21برس کے ہر شہری کو ووٹ کا حق حاصل ہو گیا۔
برطانوی آئین کے بارے میں قومی اداروں اور لوگوں کا رویہ درحقیقت اسے دنیا کی باقی جمہوریتوں کے لیے قابل تقلید بناتا ہے۔ایسا ہر گز نہیں کہ کسی دستور کے اصول و ضوابط کو لفظی حیثیت میں کسی دوسرے دستور میں شامل کر لینے سے معاشرے میں آئین اور قانون کی عملدرآمدی قائم نہیں ہو جائے۔ اس کے لیے آئین اور قانون کے سامنے رضا کارانہ طور پر سرنگوں ہونا لازم ہے۔
قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں سے لے کر آج دن تک آئین کی بالادستی کی جدوجہد کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کی ضرورت ہمیشہ اُن سیاسی قوتوں کو محسوس ہوتی ہے جو اقتدار سے باہر ہوں۔
دستورکو اس کی حقیقی روح کے مطابق اختیار کرنے یا اسے اپنی ضرورت جسے ''ملک و قوم کا مفاد'' قرار دے دیا جاتا ہے' کے مطابق استعمال کرنے کی کشمکش بھی اوائل سے لے کر آج تک قومی بحث کا حصہ ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ نظریہ ضرورت کا ہمارا تصور اور اس پر بحث کا دائرہ صرف مارشلاؤں کو عدالتوں کی طرف سے قانونی تحفظ فراہم کرنے یا نہ کرنے تک محدود ہے حالانکہ نظریہ ضرورت سے موافقت پورے نظام میں ہر سطح پر موجود ہے۔
پاکستان کے حالیہ آئینی بحران کو لے لیں جو اب دو صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنانے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے لیکن اس حوالے سے کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ پی ٹی آئی کے جن ارکان قومی اسمبلی نے بغاوت کر کے حکومت گرائی تھی ان پر رقم لینے کے الزامات کی تحقیقات کرائی جاتی۔ یہ کس کی ضرورت تھی کہ اس سنگین الزام کی تحقیقات نہ ہو حالانکہ عدلیہ نے ان لوگوں کو غیر موثر بنانے کے لیے وہ کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھی۔ ضروری تھا کہ ووٹ کی تضحیک کرنے والے بے نقاب ہوں۔
جس بحران سے ہم آج گزر رہے ہیں اس کی خشت اول یہی واقعہ تھا۔ پھر کیا یہ ضروری نہ تھا کہ امریکا کی جانب سے آنے والے سائفر سے حکومت گرانے کے واقعہ کے تعلق کی تحقیق ہوتی اگر نہیں ہوئی تو کیا یہ ریاست کی ضرورت تھی۔
اب عدالت اعظمیٰ کے انتخابات کے انعقاد کے حالیہ فیصلے ہی کو دیکھ لیں۔ یہ کس کی ضرورت تھی کہ 90دن سے پہلے انتخابات کے بنیادی آئینی تقاضے کو پس پشت ڈال کر معاملے کو انتہائی کم تر درجے پر لاتے ہوئے اس بحث میں اُلجھا دیا جائے کہ آیا سوموٹو ہونا چاہیے تھا یا نہیں۔ یہ بات جاری بحث کے شور میں کہیں پیچھے دھکیل دی گئی کہ آئینی قانون' عام قوانین اور قواعد و ضوابط میں پہاڑ جتنا فرق ہوتا ہے۔
دستوری فریم ورک ملک میں بننے والے تمام قوانین اور قواعد و ضوابط کی تشکیل کے لیے بنیادی اصول فراہم کرتا ہے جب کہ ازخود نوٹس عدالتی نظام کے اپنے قواعد سے متعلق ایک معاملہ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ آئین کے بنیادی تقاضے پر عملدرآمد کو ایک عدالتی طریقہ کار کی آڑ میں نظرانداز کرنے کی کوشش کی جائے۔
جمہوری نظام عوام الناس کے اعتبار پر استوار ہوتا ہے۔ آئین عوام کے حق نمایندگی کے بارے میں غیر معمولی طور پر حساس ہے لیکن نظریہ ضرورت اب عدالتوں سے باہر اپنی پوری طاقت کے ساتھ برسرپیکار ہے کہ عوام کی منتخب حکومت کے قیام کو کسی بھی قیمت پر روکا جائے۔
یہاں امریکا کی عدالتی تاریخ کی ایک غیر معمولی شخصیت کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا جس نے امریکا کے نظام انصاف پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ یہ تھے امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس اولیور وینڈل ہولمز۔ شاید ہولمز دنیا کے واحد جج ہوں جنھوں نے 90برس 10ماہ کی عمر تک بطور جج خدمات انجام دیں۔
لوگوں کے حق نمایندگی پر اپنی ایک آبزرویشن میں انھوں نے کہا تھا' ''اگر میرے ملک کے عوام جہنم میں جانا چاہتے ہیں تو میرا فرض ہے کہ میں ان کی مدد کروں''۔