اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
آپؓ نے جہاں آنکھ کھولی وہ گھر صداقت کا گہوارہ تھا اور جہاں جا کر ازدواجی زندگی بسر کی وہاں نبوتؐ کا بسیرا تھا
اہل اسلام ایک خاندان کی مانند ہیں اور قرآن کریم کی تصریح کے مطابق آپؐ کی ازواج مطہراتؓ روحانی مائیں ہیں۔ اہل اسلام کی ان عظیم ماؤں نے اپنے اقوال و افعال، عمدہ اخلاق اور اعلیٰ کردار سے امّت کی تربیّت کی ہے۔ انہی میں سے ایک عظیم المرتبت، عظیم النسبت اور جلیل القدر ماں جناب سیّدہ عائشہ صدیقہؓ بھی تھیں۔
آپ کا نام عائشہ بنت ابوبکر صدیقؓ اور والدہ کا نام ام رومان ہے۔ آپؓ کا لقب صدیقہ اور حمیرا، جب کہ آپؓ کا قرآنی اعزاز ''اُم المومنین'' ہے۔
اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ کا بچپن بہت خوش گوار گزرا۔ چاق و چوبند ہونے کے ساتھ بے پناہ صلاحیتوں نے آپؓ کی شخصیت کو خوب نکھارا۔ علم و ادب سے گہری وابستگی، فطری حاضر جوابی، ذکاوت و ذہانت، مذہبی واقفیت اور غیر معمولی قوّت حافظہ کی وجہ سے آپؓ دیگر اپنی ہم جولیوں سے ممتاز حیثیت رکھتی تھیں۔
آپؓ کی فضیلت و منقبت ہر لمحہ رُو بہ عروج رہی۔ جہاں آنکھ کھولی وہ گھر صداقت کا گہوارہ تھا اور جہاں جا کر ازدواجی زندگی بسر کی وہاں نبوتؐ کا بسیرا تھا۔ حضرت خولہ بنت حکیمؓ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ آپؐ نکاح فرما لیں۔
آپؐ نے پوچھا: کس سے؟ حضرت خولہؓ نے جواب دیا کہ اگر بیوہ سے شادی کے خواہش مند ہیں تو حضرت سودہ بنت زمعہؓ موجود ہیں اور اگر کسی کنواری سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ابُوبکرؓ کی صاحبزادی عائشہؓ موجود ہے۔
آپؐ نے حضرت خولہؓ سے فرمایا کہ چلو تم بات کر دیکھو۔ حضرت خولہؓ سیّدہ ام رومانؓ کے پاس گئیں اور کہا: آپ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کے لیے پیغام نکاح دیا ہے۔ ام رومانؓ بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ ابُوبکرؓ کا انتظار کر لینا چاہیے۔ سیدنا ابُوبکرؓ تشریف لائے تو انہیں سارا معاملہ بتایا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ محمد ﷺ تو میرے منہ بولے بھائی ہیں، اس نسبت سے تو میری بیٹی عائشہ ان کی بھتیجی ہوئی۔ بھتیجی سے نکاح کیسے ہو سکتا ہے ؟ حضرت خولہؓ نے آپ ﷺ کو بتایا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ میرے دینی بھائی ہیں، لہذا نکاح جائز ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے اس سعادت پر لبّیک کہا۔ چناں چہ آپ ﷺ تشریف لائے اور حضرت ابوبکرؓ نے نکاح کر دیا۔ نکاح کے کچھ عرصے بعد تک آپؓ میکے میں رہیں۔ بالآخر ہجرت کے بعد آپؓ مدینہ طیبہ تشریف لے گئیں اور وہاں آپؓ کی رخصتی ہوئی۔
آپ ﷺ نے امہات المومنینؓ سے جو ازدواجی سلوک کا سبق امت کو دیا ہے، بالخصوص سیّدہ عائشہؓ کے ساتھ نرمی شفقت اور تربیت کا برتاؤ، وہ ہم سب کے قابل عمل نمونہ ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے ازراہ محبت سیدہ عائشہؓ کے ساتھ دوڑ لگانے کو کہا، چناں چہ جب دوڑ لگائی تو اپنی بیوی کا دل رکھنے کے لیے از خود پیچھے رہ گئے اور سیدہ عائشہؓ پہلے پہنچ گئیں۔ ایک مرتبہ کسی سفر سے واپسی پر نبی کریمؐ نے پھر دوڑ لگانے کا کہا، اس بار آپؐ مقررہ جگہ تک جلدی پہنچ گئے اور فرمایا یہ ادلے کا بدلہ ہے۔
باہم خوش مزاجی کے ایسے واقعات ہیں کہ اگر ہمارے گھریلو نظام زندگی میں ان کو اپنا لیا جائے تو گھروں میں پروان پاتی رنجشیں، کدورتیں اور نفرتیں اپنی موت آپ مر جائیں اور خوشیوں سے گھر جنّت کا نقشہ پیش کرنے لگے۔
نبی کریمؐ فرماتے ہیں کہ مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا۔ معلم انسانیت ﷺ نے نُور علم سے جن ہستیوں کو فیض یاب کیا ان میں سیدہ عائشہؓ بھی ہیں۔ آپؐ نے اپنی لاڈلی اور محبوب بیوی کو دنیا کی سلیقہ مندی، آداب معاشرت، تہذیب و شائستگی سے شناسا بھی کرایا اور کتاب و حکمت اور فقہ و اجتہاد سے بھی آشنا کرایا۔ معاشرتی زندگی میں باہمی برتاؤ کا طریقہ اور نجی زندگی میں فکر آخرت کی دولت بھی عطا فرمائی۔
سیدہ عائشہؓ انتہاء درجے کی عبادت گزار تھیں۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریمؐ جب تہجد کے لیے اٹھتے تو آپؓ بھی اٹھتیں اور نماز تہجد ادا فرماتیں۔ چاشت کی نماز میں کبھی ناغہ نہ کرتیں۔ اکثر روزے سے ہوتیں۔ ایک دفعہ عرفہ کا دن تھا، آپؓ روزے سے تھیں، گرمی اس قدر سخت تھی کہ بار بار سر پر پانی ڈالتیں۔ آپؓ کے بھائی حضرت عبدالرحمنؓ نے کہا جب اتنی گرمی تھی تو روزہ کیوں رکھا؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں بھلا یوم عرفہ کا روزہ کیسے چھوڑ سکتی ہوں، جب کہ میں نے نبی کریمؐ سے خود سُنا ہے کہ عرفہ کے روزے سے سال بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
حج کی پابند تھیں، بہت کم ایسا ہوا کہ آپؓ نے حج نہ کیا ہو۔ آپؓ نے کثرت کے ساتھ غلاموں کو آزاد کیا۔ شرح بلوغ المرام میں ہے کہ آپؓ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے۔ حاجت مندوں کا بہت خیال فرماتیں۔ مالی صدقہ کثرت سے دیتیں۔ فقراء اور مساکین کو بہت نوازتیں۔ ان کی عزت و توقیر کا خیال رکھتیں۔
فضائل و مناقب: مستدرک حاکم اور طبقات ابن سعد میں ہے کہ خود سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: نو باتیں ایسی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں۔ ''خواب میں فرشتے نے آپؐ کے سامنے میری صورت پیش فرمائی، سات سال میں میرے ساتھ اﷲ کے نبیؐ نے نکاح فرمایا، نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی، امہات المومنینؓ میں میرے سوا کوئی بیوی پہلے کنواری نہیں تھی، امہات المومنینؓ میں سے صرف میرے بستر پر قرآن کریم نازل ہوتا، مجھے آپؐ کی محبوب ترین بیوی ہونے کا شرف حاصل ہے، میرے حق میں قرآن کریم کی آیات اتریں، میں نے جبرئیل امینؑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، رسول اﷲ ﷺ نے میری گود میں سر رکھے وفات پائی۔''
علمی کمالات: جامع الترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت موجود ہے کہ ہم اصحاب محمد ﷺ کو جب کوئی مشکل بات پیش آ جاتی تو ہم حضرت عائشہؓ سے رجوع کرتے وہ ہماری راہ نمائی فرماتیں۔ مستدرک حاکم میں حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کا فرمان موجود ہے کہ سیدہ عائشہؓ سب سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والی، لوگوں میں زیادہ علم رکھنے والی اور دینی معاملات میں سب سے بہتر رائے دینے والی تھیں۔
امام ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ سے بڑے بڑے صحابہ کرامؓ دین کے بارے میں سوالات کرتے آپؓ ان کو جواب عنایت فرماتیں۔ امام زرقانی نے حاکم و طبرانی سے بہ سند صحیح نقل کیا ہے کہ عروہ بن زیبرؓ فرماتے قرآن، علم میراث، حلال و حرام، فقہ و اجتہاد، شعر و ادب، حکمت و طب، تاریخ عرب اور علم انساب میں حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام سخاویؒ نے فتخ المغیث میں سیدہ عائشہؓ سے مرویات کی تعداد 2210 بتا کر کے آپؓ کو کثیرالروایۃ صحابہؓ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
پاک دامنی کی قرآنی شہادت: سیدہ عائشہؓ کے زندگی کے بہت سے واقعات ایسے ہیں جو حوادثات کہلاتے ہیں۔ دشمنان اسلام منافقین نے آپؓ کی عفت پاک دامنی پر انگلیاں بھی اٹھائیں۔ جسے عرف عام میں واقعہ افک کہا جاتا ہے، یہ بہت دل خراش سانحہ تھا، کئی دنوں کے صبر و استقلال کے بعد بالآخر اﷲ رب العزت نے آپؓ کی پاک دامنی پر قرآنی مہر ثبت کردی۔ جو کہ قرآن کریم کی سورۃ نور میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
وفات: 58 ہجری رمضان المبارک کی17 تاریخ کو آپ سخت بیمار ہوئیں۔ امام ابن سعد نے لکھا ہے کہ کوئی خیریت دریافت کرنے آتا تو فرماتیں کہ اچھی ہوں۔ عیادت کرنے والے بشارتیں سناتے تو جواب میں کہتیں: ''اے کاش! میں پتھر ہوتی۔ کبھی فرماتیں کہ اے کاش! میں کسی جنگل کی جڑی بوٹی ہوتی۔'' نماز وتر کی ادائی کے بعد آپؓ اِس جہاں سے اُس جہاں کو کوچ فرما گئیں۔
سیدنا ابُوہریرہؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا۔ آپؓ کے بھانجوں اور بھتیجوں قاسم بن محمد بن ابُوبکرؓ، عبداﷲ بن عبدالرحمٰن بن ابُوبکرؓ، عبداﷲ بن عتیقؓ، عروہ بن زبیرؓ اور عبداﷲ بن زبیرؓ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیاری زوجہ اور امت کے مومنین کی ماں کو لحد میں اتارا۔