غزوۂ بدر اسلام کی عظیم الشان فتوحات کا افتتاحیہ
اس معرکے نے کفار کے بڑھتے ہوئے قدموں کو زنجیر پہنا دی
اسلام بنیادی طور پر امن و سلامتی کا علم بردار ہے۔ یہ عالم انسانیت کو اس کے بنیادی حقوق اور رحمت و رافت کا جاں فزا پیغام دیتا ہے۔ جو لوگ اس کے سایۂ عاطفت میں پناہ لیتے ہیں وہ خود کو دوسرے ادیان کے مقابلے میں از حد محفوظ و مامون تصور کرتے ہیں۔
اس کی دعوت الی الحق کی بنیاد ہی فلسفہ اخلاق اور تعمیر سیرت پر رکھی گئی ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو کبھی بلاوجہ شمشیر و سناں ہاتھ میں لینے کی ترغیب نہیں دیتا بلکہ اس کی ترغیب حق میں ایسی شیرینی و حلاوت اور کشش و جاذبیت پائی جاتی ہے کہ مخالفین خود بہ خود اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں البتہ اس کی تربیت گاہ میں جذبۂ جہاد کا سبق ضرور پڑھایا جاتا ہے کہ اگر کسی وقت آخری چارہ کار کے طور پر اسلام اور اس کے ماننے والوں پر کڑا وقت آ جائے، ان کی بقاء اور سالمیت کو خطرات لاحق ہو جائیں تو اس صورت میں جہاد کی ناصرف اجازت ہوتی ہے بلکہ فرض ہو جاتا ہے۔
حضور سرور عالم ﷺ کی حیات مکی کا اگر جائزہ لیا جائے اور آپؐ کے انداز تبلیغ کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے تو اسلامی تعلیمات کا فلسفہ روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے۔
ہر قدم پر آپؐ اور آپؐ کے فدائیوں کو کرب ناک صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آپؐ جہاں بھی تشریف لے جاتے آپؐ کا تمسخر اڑایا جاتا۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کو گالیاں تک دی جاتیں حتیٰ کہ آپؐ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے۔
(نعوذباﷲ)۔ مگر آپؐ ایک لحظے کے لیے بھی مشتعل نہیں ہوئے۔ حضور ﷺ کے تربیت یافتگان نے صبر و استقامت اور اخلاق کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑا وہ بہیمانہ اذیتوں کو خندہ پیشانی جھیلتے رہے۔
اُدھر سے پتھروں کی بارش ہوتی رہی اِدھر سے پھول برسائے جاتے رہے۔ اُدھر سے باد سموم کے جھونکے حضورؐ کے خرمن تسکین کو جھلساتے رہے، اِدھر سے باد نسیم کی دل خوش کُن لہریں بھیجی جاتی رہیں، اُدھر سے طعنوں، شکووں اور گالیوں کی سوغات بھیجی جاتی رہی، اِدھر بارگاہ رسالت مآب سے دعاؤں اور سلامتی کے جذبات کے نذرانے ارسال کیے جاتے رہے۔
اُدھر سے رحمت دو عالم ﷺ کو قتل کی دھمکیوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی اور اِدھر سے خیریت و سلامتی کا تحفہ ارسال کیا جاتا۔
غزوۂ بدر کا معرکہ اس وقت بپا ہوا جب جاں نثاران مصطفیؐ کو ناصرف ان کی جائے پیدائش پر زندگی گزارنے کے حقوق سے محروم کر دیا گیا بلکہ دوران ہجرت میں بھی انہیں ذہنی اذیتیں دی جانے لگیں۔ ان کے چین و قرار کو تہہ و بالا کرنے کے منصوبے بنائے جانے لگے حضورؐ کی حیات طیبہ کا (معاذ اﷲ) چراغ گُل کرنے کے ارادے باندھے جانے لگے۔
اس انتہائی صورت حال میں خدائے لم یزل کی طرف سے جہاد کی ناصرف اجازت دی گئی بلکہ اسے فرض عین قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ دشمن کو اس کی سفاکانہ حرکتوں کا ایسا منہ توڑ جواب دیا جائے کہ اس کی قوت کے اعضائے رئیسہ بکھر کر رہ جائیں۔
اس کی ہڈیاں توڑ کر اس کے گلے کا ہار بنا دی جائیں، اس کے مادی وسائل پر قبضہ کر کے اسے مال غنیمت کا نام دے کر مجاہدین اسلام میں تقسیم کر دیا جائے، مجاہدین حق اپنی برق پاش تلواروں سے کفر کی قیادت کو سر بریدہ کردیں، اسے بے دست و پا کر کے اس کا غرور پاش پاش کردیا جائے تاکہ اگر ان میں کوئی دم خم باقی رہے بھی تو وہ سر جھکا کر چلیں۔
ساتھ ہی قرآن میں اﷲ کے شیروں کو ایک تنبیہ بھی کی گئی کہ جب معرکہ حق و باطل بپا ہو جائے تو پیٹھ پھیر کر بھاگنا ناقابل معافی جرم بن جاتا ہے۔ دشمنان اسلام پر اس جلالت کے ساتھ حملہ کیا جائے کہ دشمن لرزتے ہوئے قبول اسلام پر آمادہ ہو جائے بہ صورت دیگر اس کا نام و نشان بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
اس ترغیب کے ساتھ یہ نوید جاں فزا بھی عنایت کی گئی کہ مجاہدین اسلام کی شہادت میں دائمی زندگی کی لطافت سیمٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ قدرت کی طرف سے یہ وہ عظیم و بے مثال تحفہ ہے جو کسی اور مذہب کے فدائیوں کو کبھی نصیب نہیں ہو سکتا۔
قضا مژدۂ زندگی لے کے آئے
کچھ اس طرح مرنے کو جی چاہتا ہے
ان رفیع الشان جذبوں کو اپنے دامن میں سمیٹتے ہوئے اﷲ کے یہ بے لوث سپاہی جن کا مقصد وحید اس کے دین کی سرفرازی تھا اپنے سالار اعظم ﷺ کی حیات بخش قیادت میں اپنے خالق و مالک کے بھروسے پر مقام بدر پر فروکش ہوئے۔ دونوں فریقوں کی قیادتوں کے چاہنے والوں کے انداز عقیدت و محبت میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔
کفار حرص و ہوا کے بندے تھے، ان کے پیش نظر فقط دنیاوی حشمت کا حصول، انا پرستی کے شعور کا فروغ، طاغوتی انداز فکر کا ارتقاء اور زر پرستانہ رجحانات کی پرستش تھی۔ دوسری جانب رحمت دو عالم ﷺ کے رفقاء کا اظہار عقیدت ایک جداگانہ نوعیت کا وجد آفرین منظر پیش کرتا تھا۔
یہ فقر و استغناء میں ڈوبے ہوئے خاک نشیں بے ریا اخلاص کے مظہر دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اﷲ کے دین کی سرفرازی، اسلامی تقدس کا فروغ، عصمت اسلام کی حفاظت و نصرت، زمین خدا کو قتل و غارت گری سے پاک کے جنت نظیر بنانے کا عزم، پرچم اسلام کی حفاظت اور اسے تا قیامت بلند رکھنے کا عزم صمیم شامل ہے۔
اب پہلا معرکہ حق و باطل بپا ہونے کو ہے، سینے تنے ہوئے ہیں مگر ان میں دلوں کے دھڑکنے کا انداز بالکل جدا جدا ہے۔ ایک جانب کے سپاہیوں کا دل دھڑکتا ہے تو اس سے سوز و ساز محبت رسول ﷺ کے نغمے کی لے سنائی دیتی ہے، دوسری جانب لشکریوں کے دلوں کی دھڑکن سے مادی محبت اور مجازی الفت کے نغمے بکھرتے محسوس ہوتے ہیں۔
ایک طرف کے سپاہیوں کی آنکھوں سے سرمستی صہبائے توحید چھلک رہی ہے اور دوسری طرف چشمان کفر و شرک سے نفرت کے الاؤ برس رہے ہیں۔
فدایان حق کے جذبۂ قربانی و محبت کا عالم یہ تھا کہ اگر کفر کی طرف سے بیٹے کے سامنے باپ بھی تلوار کی دھار کے سامنے آگیا ہے تو اس کا جسم بھی دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ ماموں بھانجھے کے سامنے ہے۔ بھانجا ماموں کا سر قلم کرنے میں فخر محسوس کر رہا ہے۔
بھتیجا چچا کی گردن کاٹ رہا ہے، چچا بھتیجے کو بے دریغ نشانہ شمشیر بنا رہا ہے۔ ایسے میں اسلام کے سالار اعظم حضور سرور کونین ﷺ اﷲ کی بارگاہ اقدس میں دست دعا بلند کر دیتے ہیں۔
دعا کے گداز سے چشم نبوت سے آنسو موتیوں کی طرح دست رسالت مآب ؐ پر گرتے ہیں، آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اے مالک کائنات! تُونے اپنے پرستاروں سے امداد کا وعدہ فرما رکھا ہے، آج اگر تیری توحید کے علم برداروں کی یہ چھوٹی سی جماعت صفحۂ ہستی سے مٹ گئی تو پھر طلوع حشر تک تیرا نام لیوا کوئی نہیں ہوگا۔ دعائے حبیب کبریا ﷺ کی اجابت دیدنی تھی۔
مانگے تھے مصطفیؐ نے اعانت کے چند پھول
سارا چمن دعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا
دعا کی قبولیت کے ساتھ ہی کفار کی شوکت و سطوت کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ شیر خدا سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ اور سیدنا حمزہ ؓ کی شمشیر بے نیام نے بسالت کے وہ جوہر دکھائے کہ سر زمین بدر بھی خوف سے لرزتی رہی۔
ذوالفقار حیدری جس طرف اٹھتی دشمنوں کے اعضاء کی دھجیاں فضائے صحرا میں بکھیر دیتی۔ رسالت مآب ﷺ اظہار تشکر و امتنان کے ساتھ احساس فتح مندی سے خالق کائنات کی بارگاہ اقدس میں جھک گئے۔
اس معرکہ کبریٰ میں کل چودہ سرفروشان اسلام نے جرأت کی شان دار روایت قائم کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور بہار خلد بریں کی لذت سے فیض یاب ہوئے۔ اس کے مقابلے میں دشمنان دین حق کو بھاری جانیں نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کی بڑی بڑی قد آور اور وجیہہ و شکیل شخصیات جہنم رسید ہوئیں اور ان کے نخوت و تکبر کا جنازہ نکل گیا۔
فتح بدر میں دیگر دور رس اثرات کے علاوہ جو فاتحانہ شان مسلمانوں میں ابھر کر سامنے آئی جس سے عالم کفر پر کپکپی طاری ہوئی اور ان کا تاج رعونت بوسیدہ ہڈیوں کی طرح ریزہ ریزہ ہوگیا اس نے کفار کے بڑھتے ہوئے قدموں کو زنجیر پہنا دی۔
ان کی نام نہاد جرأت ان کی اپنی انا اور خود پرستی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ آغوش باطل میں پرورش پانے والی اسلام مخالف لہر تھرتھراتی، ہانپتی کانپتی بہ صد حسرت و یاس صحرائے عرب سے غائب ہو گئی اور علم توحید و رسالت پوری آب و تاب سے لہرانے لگا۔
قرآن نے فتح بدر کو اسی لیے الفرقان کے سے یاد کیا کہ اس معرکہ خیر و شر میں دو ایسی قوتیں برسر پیکار تھیں جو اپنے اپنے نظریات کی بقاء کی جنگ میں مصروف تھیں ایک قوت سامان طرب اور تعشیات دنیا کا سہارا لے رہی تھی جب کہ دوسری طرف خدا پرستوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اپنے بوریا نشین تاج دار عرب و عجم کی قیادت میں نعرۂ توحید کی لے پر سرفروشانہ عزم کے ساتھ اس شان سے نبرد آزما تھی کہ جلال خداوندی سے رقص و سرود کے پجاریوں اور مے خواروں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ وہ الفقر و فقری کے مقدس نظریے کے مقلدوں کی ایک ضرب بھی برداشت نہیں کر سکے۔