اداروں کی بالادستی کی جنگ
وقت آگیا ہے کہ ہمیں نہ صرف اپنے حالات کو تبدیل کرنا ہے بلکہ اس ملک میں موجود ان تمام خرابیوں کا بھی علاج کرنا ہے
پاکستان کو یہ طے کرنا ہے کہ یہاں افراد یا گروہوں کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی قائم کرنی ہے۔
اداروں کی بالادستی سے مراد موجود آئین اور قانون کے دائرہ کار میں اداروں کی فعالیت سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ آئین اورقانون کی پر عملدرآمدکی بنیا د پر ہی ہم سیاست , جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بناسکتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر ہم نے افراد یا جماعتوں کی بنیاد پر مختلف نوعیت کی آئینی، سیاسی اور قانونی تشریح کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو اس کے نتیجہ میں سیاسی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ہر فریق اپنی اپنی تشریح کی مدد سے اپنے ذاتی یا جماعتی مفادات کے تحت آگے بڑھتا ہے او راس کا نتیجہ موجود آئین اور قانون کو پس پشت ڈال کر ہم بلاوجہ ٹکراو یا تناو کی سیاست کو جنم دیتے ہیں ۔
ہمارا ایک بڑا المیہ سیاسی، سماجی ، انتظامی ، آئینی اور قانونی اداروں سمیت معیشت کے معاملات میں اداروں کی اہمیت محض کاغذوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔یعنی ادارے کمزور افراد طاقت ور ہوگئے ہیں ۔ جب افراد کے پاس ریاست یا اداروں کے مقابلے میں طاقت ہوگی تو اپنے مخصوص مفاد یا ایجنڈا کو افراد انفرادی سطح پر اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ اداروں کی بالادستی کی ایک بڑی ناکامی کی وجہ سیاسی نوعیت کی مداخلتیں ہیں اوریہ عمل اداروں کی کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ ہمارے ریاستی اور حکومتی یا سیاسی و جمہوری ایجنڈے کی سطح پر '' اداروں کی بالادستی کی جنگ'' کو ترجیحی حیثیت نہیں مل سکی۔
اس کی ایک وجہ یہ ہی ہے کہ اداروں کی بالادستی ہوگی تو اس کے نتیجہ میں افراد یا جماعتوں یا حکمران و ریاستی طبقے کو اداروں کی بالادستی کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بالادست طبقات یا فیصلہ سازی سے جڑے افراد خو دکو کمزورکرنے کے بجائے ریاستی اداروں کو کمزور کرکے اپنی سیاست کو آگے بڑھاتے ہیں۔ سیاست و جمہوریت کی کامیابی میں ایک کنجی ادارہ جاتی مضبوطی کا تسلسل ہوتا ہے او راسی کو بنیاد بنا کر ہم اپنا سیاسی , جمہوری , آئینی اور قانونی مقدمہ کی ساکھ کو داخلی و خارجی محاذ پر قائم ہوتی ہے ۔
اس وقت بھی پاکستان کے سیاسی بحران کو دیکھیں تو اس میں یہ ہی بحث موجود ہے کہ اداروں کی بالادستی کو کیسے ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔حکومت اور حزب اختلاف اپنے سیاسی معاملات کو اعلیٰ عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ سیاسی و جمہوری ادارے جہاں سیاسی فیصلے بشمول انتخابات کے انعقاد یا نہ یا اس کے نہ ہونے کے بارے میں فیصلے ہونے تھے وہاں کچھ طے نہیں ہوسکا۔
پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کی اہمیت کنجی کی ہے مگر یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ بڑی فیصلہ سازی سے محروم ہے یا وہاں فریقین میں اعتماد سازی کا بحران ہے۔ انتخابات کا بحران پوری ریاستی یا حکومتی اداروں کے درمیان جاری ٹکراو کا منظر پیش کررہا ہے ۔اس منظر میں تمام فریقین اپنی اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے ہیں اور مرضی کا فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں اداروں کو متنازعہ بنانا یا ان سے ٹکراؤ کی پالیسی بھی ہمارا ترجیحی ایجنڈا بن گیا ہے ۔
پاکستان ایک ایسی نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں بہت سی چیزیں کھل کر منظر عام پر آگئی ہیں ۔ وہ تمام معاملات جو پس پردہ تھے آج وہ ہمیں سرعام بحث کا موضوع نظر آتے ہیں ۔ وہ معاملات جو بہت حساس نوعیت کے تھے یا ادارے ان پر بھی لوگ اب کھل پر اپنی اپنی آرا کو پیش کررہے ہیں ۔ یہ صورتحال غیر معمولی ہے او رایسے میں غیر معمولی انداز میں ہی ہمیں مسئلہ کا علاج تلاش کرنا ہے ۔
ہم یہ بنیادی بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم 2023 میں کھڑے ہیں۔ یہاں 1970-80یا 1990 کی دہائی کی سیاست کا چال چلن نہیں چل سکے گا۔ آج کی دنیا ماضی کی دنیا سے مختلف ہے اوریہ صدی آزاری اظہار کی بھی ہے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے یا اپنی بات کو طاقت ور لوگوں کے سامنے اجاگر کرنے کی بھی ہے ۔ اس کے لیے آج جدیدیت پر مبنی ابلاغ کے ذرایع ہیں اور ان آوازوں کو ہم اپنی ریاستی و حکومتی طاقت سے نہیں دبا سکتے۔
جو لوگ بھی سنجیدہ انداز میں ریاستی یا ملکی یا حکمرانی سے جڑے معاملات پر سوالات اٹھارہے ہیں ان کو سنا جائے او ران کو طاقت کے انداز میں دبانے کی پالیسی قومی مفاد کے برعکس ہے ۔ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آج دنیا میں جو مختلف سطح پر ممالک کی سیاسی، انتظامی، قانونی، آئینی، معاشرتی اور معاشی ترقی کے اشاریوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس میں ایک بڑی فوقیت اداروں کی سطح پر مضبوطی یا بالادستی کو بھی دیکھا جاتا ہے جب کہ ہمارا مسئلہ طبقاتی بنیادوں پر ہے اور طاقتو ر یا کمزور افراد کے ساتھ اداروں کا طرز عمل یا سلوک میں تفریق پائی جاتی ہے ۔یہ عمل عام آدمی یا کمزور آدمی میں اداروں کے بارے میں منفی رویوں کو جنم دیتا ہے یا ایک بڑی خلیج بھی پیدا کرتا ہے۔
جب لوگوں کو یہ یقین ہو کہ ادارے ہمارے مقابلے میں طاقت ور افراد کے ساتھ کھڑے ہیں تو ان کا اعتماد کمزور ہوتا ہے ۔ ایسے میں لوگ اپنے حق کے لیے پھر متبادل راستے اختیار کرتے ہیں جو ریاست کی رٹ کو چیلنج بھی کرتا ہے ۔
ہمارے ریاستی و حکومتی اداروں میں بیٹھے بڑے طاقت ور افراد بھی خود کو ریاست یا آئین کے تابع کرنے کے بجائے طاقتور طبقوںکا ملازم نہیں سمجھنا چاہیے ۔ان کے سامنے آئین او رقانون ہی بالادست ہونا چاہیے اوراسی کو بنیاد بنا کر ریاستی، حکومتی، آئینی اور قانونی فیصلوں کو ہی ترجیح دینی چاہیے ۔ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا میں اداروں کی بالادستی کی جنگ کا مقدمہ کمزور ہے او رہمارے اداروں کی ساکھ پر بہت سے سوالات ہیں۔
پاکستان میں اس وقت جتنی زیادہ سیاسی تقسیم یا پولورائزیش ہے اسے ہمیں کسی منفی سیاست کے لیے استعمال کرنے کے بجائے مثبت سیاسی تبدیلیوں کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔اسی سیاسی تقسیم کو اس نقطہ پر لانا ہوگا کہ ہمیں پاکستان میں سیاست او رجمہوریت سے جڑی کامیابی یا معیشت کی بہتری کے لیے اداروں کو بالادست کرنا چاہیے ۔ جو لوگ بھی اداروں کی بالادستی کے خلاف ہیں او رروائتی طور پر اداروں کو بالادست نہیں کرنا چاہتے ان کے خلاف آئین او رقانون کے دائرہ کار میں رہ کر مزاحمت کرنی چاہیے۔
پاکستان میں رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ان موجودہ حالات میں ذمے دارانہ کردار ادا کریں او را ن کایہ کردار ملکی سطح پر اداروں کی بالادستی کی جنگ کو موثر، مربوط اور شفاف سمیت ممکن بنا سکے۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے سیکھنا ہوگا کہ دیگر ممالک نے اپنے اپنے ممالک میں اداروں کی بالادستی کو کیسے یقینی بنایا او رکیسے طاقت سے طاقتور افراد بھی اداروں کے سامنے بلاتفریق جوابدہ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں تبدیلی سے جڑے افراد کے لیے موجودہ حالات تاریخ ساز بھی ہیں اور تبدیلی کا ایک ماحول بھی موجود ہے کیونکہ موجودہ حالات میں جہاں ہمیں مختلف نوعیت کے سخت چیلنجز کا سامنا ہے وہیں ان سے نمٹنے کے لیے امکانات کا بھی ایک منظر نامہ ہے اور ان سے وہی ممالک فائدہ اٹھاتے ہیں جو خود کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں نہ صرف اپنے حالات کو تبدیل کرنا ہے بلکہ اس ملک میں موجود ان تمام خرابیوں کا بھی علاج کرنا ہے جسکی وجہ سے ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے رہ گئے ہیں ۔اس کے لیے ہمیں قومی یا ریاستی سطح پر ایک بڑے روڈ میپ کی درکار ہے جو تمام فریقین میں اتفاق رائے کو بھی پیدا کرے کیونکہ اتفاق رائے کی بنیاد پر ہی ہم کوئی مشترکہ حکمت عملی ترتیب دے سکتے ہیں یا ان حکمت عملیوں پر عمل بھی کرسکتے ہیں، یہ ہی عمل قومی مفاد سے جڑا ہوا بھی ہے۔