جس کھیت سے دہقان کو
اگر کھیت صرف بہرا ہوجاتا تو اتنی بڑی بات نہیں تھی، اگر چڑیاں اسے چگ کراڑجاتیں تو بھی نئی بات نہیں تھی
پچھلے کسی کالم میں ہم نے بہری چڑیوں کا ذکر کیا تھا لیکن اس کھیت کا ذکر مکمل نہیں کر پائے جسے چڑیاں چگ چکی ہیں، چگ رہی ہیں اور مسلسل چگتی جارہی ہیں۔
اصل میں یہ چڑیاں بڑی عیار نکلیں خود کو تو بہرا بناچکی تھیں، اب سارے کھیت کو بھی بہرا کرچکی ہیں چنانچہ صرف چڑیاں ہی نہیں اور بھی کئی طرح کے پرندے، کوئوں، چیلیں، گدھ اورگرگس کے جھنڈ اس کھیت کو چگ رہے ہیں لیکن کھیت کو خبر تک نہیں حالانکہ وہ بھی دن تھا کہ اگر کوئی پرندہ ایک دانہ بھی چگتا تو ہرطرف شور مچ جاتا تھا کہ بوکاٹا۔
ہمیں یاد ہے کہ اگر اخبار میں کوئی مراسلہ بھی چھپ جاتا تو متعلقہ محکمے میں تھرتھلی مچ جاتی تھی ،طرح طرح کی وضاحتیں، جواب طلبیاں اور انکوائریاں شروع ہوجاتیں ،ہمیں یاد ہے، آپ کو بھی یاد ہوگا کہ آٹاجب بیس روپے من ہوگیا تھا اورچینی کے نرخ میں چار آنے کااضافہ ہواتھا تو سارا کھیت ہی طوفان کی زد میں آگیا تھا ، وزیروں نے استعفے دیے، افسروں کو سبکدوش کردیاگیا تھا۔
کسی چیز کی قیمت میں تھوڑا سا اضافہ ہوجاتاتھا تو مستقل بندوبست ہونے لگتے ،فوراً خبریں آنے لگتیں کہ ججوں، وزیروں اورافسروں نے بازاروں میں نکل کر سخت ترین نوٹس لے لیے، اتنے پکڑے گئے ،اتنے جرمانہ کیے گئے ،اتنی اتنی غیر معیاری چیزیں ضایع کردی گئیں، دفعہ تیس کا مجسٹریٹ تو کشتوں کے پشتے لگا دیتاتھا اور آج۔۔۔ چائے کی پتی بارہ سوکے بجائے چوبیس سو روپے فی کلو گرام ہو گئی، چینی کی قیمت میں ڈیڑھ گنا اضافہ ہوگیا،آٹا پانچ گنا مہنگا ہوگیا ہے، بجلی کے نرخ فی یونٹ سو فی صد بڑھ گئے، پٹرولیم دو سو فی صد ،یوریا کھاد تین ہزار سے پندرہ ہزار روپے ہو کئی،بسوں کے کرائے چار گنا بڑھ گئے یعنی ایں خانہ ہمہ آفتاب است، شور بھی مچتاہے، چیخیں بھی اٹھتی ہیں، نوٹس بھی لیے جاتے ہیں جلسے جلوس بھی نکلتے ہیں لیکن کھیت جو بہرا ہوچکاہے۔
کھیت پر بہری چڑیوں اورپرندوں کے جھنڈ جو مسلط ہیں، لوگ سن کربھی نہیں سنتے اورسن کر بھی نہیں کہتے ۔گویا چڑیاں بھی بہری اورکھیت بھی بہرا۔ اور بہروں کے شہر میں آذان دینے والے بھی آخر کار چپ ہوجاتے ہیں لیکن کبھی کبھی صورت حال کچھ الٹی بھی ہوجاتی ہے، وہ جو پرانے زمانے میں بہری چڑیاں ہوجاتی تھیں تو ان کے کانوں میں کچھ نقص نہیں ہوتا تھا بلکہ ''نقص'' آوازوں میں ہوتا اور وہ نقص کثرت کا ہوتاتھا کہ اگر آوازیں کبھی کبھی اکادکا ہوں تو کان سن لیتے ہیں لیکن جب آوازوں کا ایک طوفان کانوں پر حملہ آورہوجاتا ہے تو کانوں کا درمیانی سوراخ فراخ ہوجاتا تھا۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے، لاوڈ اسپیکروں کے زمانے میں جب کسی گائوںمیں مجلس میلاد منعقد ہوتی تھی تو دور دورسے لوگ آکر ساری ساری رات سنتے اور جو کچھ سنتے ان کا مہینوں ذکر اذکار ہوتا۔ لیکن اب ہردس گھروں کے لیے ایک مسجد ہے اور اس میں ایک ہائی پاورلاوڈ اسپیکر ہے اوراس لاوڈ اسپیکر سے دن رات اچھی اچھتی باتیں نشرہوتی ہیں لیکن سننے والا ایک بھی نہیںہے۔
کثرت جذ بات سے چشم شوق کس مشکل میں ہے
اتنی شمعیں کب تھیں جتنی روشنی محفل میں ہے
روشنی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو بینائی کمزور ہوجاتی ہے اورجب آوازیں بڑھ جاتی ہیں تو کان بہرے ہوجاتے ہیں ۔چڑیاں بھی اور پھر پوراکھیت بھی کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتاہے۔
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
اگر کھیت صرف بہرا ہوجاتا تو اتنی بڑی بات نہیں تھی، اگر چڑیاں اسے چگ کراڑجاتیں تو بھی نئی بات نہیں تھی لیکن یہاں تو بہری چڑیوں کی پوری نسلیں ہی کھیت کو لاحق ہوچکی ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کھیت سے دہقان کو''روزی'' ہی مسیر نہیں حالانکہ اس کاعلاج بھی حکیم الامت نے بتایا ہے لیکن کیاکیاجائے کھیت تو بہرحال اپنا ہے نام کاہی سہی۔
ایک اور بڑی مزے کی بات یاد آئی، بزرگوں نے جہاں شورکی زیادتی سے چڑیوں کے بہرے ہونے کی اصطلاح بنائی ہے وہاں ایک اور بات بھی کہی ہے جو کسانوں میں بڑی مقبول ہے ،وہ یہ ہے کہ یہ ''گھاس پھونس'' زمین کی اپنی سگی اولاد ہوتی ہے جب کہ فصلیں اس کی سوتیلی اولادیں ہواکرتی ہیں، اس لثے یہ گھاس پھونس کو بغیر بوئے بغیر کھاد پانی اور بغیر گوڈی نلائی کے خوب بڑھاتی پھیلاتی ہے اور پرورش کرتی ہے لیکن جو فصل کسان اس میں بوتاہے اگر کسان اس کی پرورش نہ کرے، پالن پوسن سے غفلت برتے تو اس فصل کو زمین اپنی سگی اولاد کے ساتھ مل کر کھاجاتی ہے۔
لیکن اس قسم کی حکایتیں اورکہاوتیں بنانے والے بزرگ یہ نہیں جانتے تھے کہ ایک زمانے میں زراعت اتنی ترقی کرے گی اور لوگ اتنے ماہر ہوجائیں گے کہ زمین اور اس کی سگی سوتیلی ساری اولادوں کا بیڑہ غرق کردیں گے، وہ زمین کو اس قابل نہیں رہنے دیں گے کہ کسی بھی قسم کی اولاد کو پال سکے، وہ اس پر سیمنٹ اور سریے کے جنگل چراگاہیں اور بڑے بڑے درختوں کے بڑے بڑے باغ اگادیں گے جن کا میوہ صرف وہی کھا سکیں گے، زمین اور اس کی ہمہ اقسام کی اولادوں کو سیمنٹ اور سریے کے جنگلوں اور چراگاہوں تلے دبا کر اس میں صرف اپنے مویشی چرائینگے جو زمین کو بنجر اور چٹیل میدان بنا دینگے، آخری خبریں آنے تک اس کھیت کایہی حشر نشرہو رہاتھا ہورہاہے اور ہوتا رہے گا، باقی رہے نام اﷲ کا۔