ایٹمی ہتھیار اور تباہی کے خطرات
ایٹمی حملے سے آنے والی موت کے فوری اثرات آتشیں جھونکوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں
www.facebook.com/shah Naqvi
ایٹم بم ایجاد کرنے والا رابرٹ اوپین ہائمر تھا ۔ جاپان کے شہر ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹی حملے سے پہلے 16جولائی 1945کو نیو میکسیکو کے ایک ریگستان میں ایٹم بم کا تجربہ کیا گیا اور اس آپریشن کو "ٹرنٹی"کا نام دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ان مندرجہ بالا دونوں شہروں میں ڈیڑھ سے ڈھائی لاکھ افراد چشم زدن میں ہلاک ہو گئے۔
جوہری ہتھیار ایک ایسا اسلحہ ہے جو اپنی تباہ کاری کی طاقت نیو کلیئر ری ریکشنز سے حاصل کرتا ہے۔ اس طریقہ کار سے ایٹم بم سے نکلنے والی توانائی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ایسا صرف ایک بم ہی پورے کا پورا شہر ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب سے جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرائے گئے اور انسان اس کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہوا تو پوری دنیا میں ایٹمی اسلحے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی۔
امریکا اور یورپ کی انسان دوست تنظیموں نے اس خطرناک ہتھیار کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی۔ ادارے اور تنظیمیں قائم ہوئیں۔ سرد جنگ کے دوران امریکا اور سودیت یونین دن رات بہت بڑی تعداد میں اپنے ایٹمی اسلحے میں اضافہ کرتے رہے۔ لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد صورت حال اس طرح تبدیل ہوئی کہ دونوں ملکوں میں تحفیف اسلحہ کی باتیں مذاکرات میں تبدیل ہوگئیں۔
مذاکرات کے کئی دور ہوئے جو کئی سال تک جاری رہے اس کے بعد دونوں عالمی طاقتوں میں یہ طے پایا کہ یہ اپنے ایٹمی اسلحے کے ذخائر میں بتدریج کمی کریں گے۔ لیکن اب عالمی رائے عامہ کا یہ مطالبہ ہے کہ اس کرہ ارض اور اس پر بسے انسانوں کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ ان تباہ کن ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کیا جائے۔
کیا ایسا ممکن ہے بظاہر تو ایسا نظر نہیں آتا خاص طور پر موجودہ صورتحال میں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا یہ امید کر رہی تھی کہ امریکا دنیا کی واحد طاقت بن کر عالمی امن کو لاحق خطرات کا خاتمہ کرے گا لیکن افسوس ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ دنیا مزید عدم استحکام کا شکار ہوئی جب امریکا نے عراق افغانستان کو نیا میدان جنگ بنا لیا۔
صرف اس لیے کہ تمام دنیا کے وسائل پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا جائے۔ بقول ایک سابق امریکی سلامتی کونسل کے مشیر کے امریکا کے مفاد میں ہی دنیا کا مفاد ہے اب دنیا پسند کرے یا نہ کرے اسے وہی کرنا چاہیے جو امریکی مفاد میں ہے۔ امریکا نے اپنی بات منوانے کے لیے دنیا بھر میں سیکڑوں فوجی اڈے ایسے ہی قائم نہیں کیے تاکہ اپنے سے کمزور ملکوں کو ڈرا کر ان کی خارجی اور دفاعی پالیسیوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلایا جائے۔
گزشتہ 75سال سے ایسے ہی ہو رہا ہے۔ خاص طور پر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب امریکا دنیا کی واحد طاقت بن گیا۔ عالمی معاملات میں اس کا کنٹرول اس حد تک بڑھا کہ خود اس کے حلیف اتحادی امریکی ڈکٹیشن سے تنگ آگئے۔ اب جا کر گزشتہ چند سالوں سے حالات بدلنے لگے تھے کہ امریکی بالا دستی کا مقابلہ کرنے کے لیے چین، روس کا اتحاد قائم ہو گیا۔
لیکن امریکا نے اپنی عالمی بالا دستی کو خطرے میں دیکھا تو اس نے یوکرین ، روس جنگ شروع کروا دی۔ روس نے جب اپنی بقا کو خطرے میں پایا تو اس نے بیلا روس میں ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار نصب کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ یہ وہ ایٹمی ہتھیار ہوتے ہیں جو چھوٹے پیمانے پر تباہی پھیلاتے ہیں ۔
ہم اس کو اس طرح سمجھتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ میں استعمال ہونے والے بلاک بسٹرز بم کہلاتے تھے۔ 20 ٹن ٹی این ٹی سے بھرے ہوئے یہ بم شہر کا ایک پورا محلہ تباہ کر سکتے ہیں دوسری جنگ عظیم میں جتنے بم گرائے گئے ان میں اس طویل پوری جنگ میں کل دو میگا ٹن ٹی این ٹی استعمال ہوئی۔
جب کہ ایک تھرمو نیوکلیئر دھماکے میں ہی دو میگا ٹن ٹی این ٹی بھری جاتی ہے ۔یعنی دوسری جنگ عظیم کے برابر تباہی صرف ایک ایٹم بم سے ۔ لیکن اب تو ہزاروں ایٹمی ہتھیار ہیں ان ہتھیاروں کی تباہ کرنے کی کل طاقت دس ہزار میگا ٹن سے بھی زیادہ ہے جس سے پوری دنیا چند گھنٹوں میں تباہ کی جا سکتی ہے۔ ایک میگا ٹن 10لاکھ ٹن بارود کے برابر طاقت رکھتا ہے جب کہ دو میگا ٹن یعنی 20لاکھ ٹن بارود کی طاقت صرف ایک ایٹم بم میں ہوتی ہے۔
ایٹمی حملے سے آنے والی موت کے فوری اثرات آتشیں جھونکوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جو کئی کلو میٹر دور انتہائی مضبوط بنیادوں والی عمارات کو زمین بوس کر سکتے ہیں ساتھ ساتھ یہ اثرات گیما شعاعوں آتشیں طوفان اور نیو ٹران کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جو ارد گرد کے تمام انسانوں کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے ایٹم بم کے موجد اوپین ہائیمر کلاشنکوف کے موجد میخائل کلاشنکوف اور ڈئنا مائٹ کے موجد الفریڈ نوبل تمام زندگی اپنی تباہ کن ایجادات کے ہاتھوں احساس جرم کا شکار رہے۔ لیکن اب کیا ہو سکتا ہے جب چڑیاں چک گئیں کھیت، ایٹمی اور دوسرے ہتھیاروں کے استعمال سے اب تک کروڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔
جب تک امریکا سمیت دوسری بالا دست اقوام کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کرنے سے باز نہیں آئیں گی موت کا یہ کھیل جاری رہے گا۔
کیونکہ انسانی فطرت کا ٹیڑھ ہی ایسا ہے ۔ انسان اپنی فطرت کے ٹیڑھ سے مجبور ہے۔ انسان کی فطرت کا یہ ٹیڑھ چاہے فرد ہو یا گروہ یا اقوام ہوں ہر جگہ ایک ہی جیسا ہے ہزاروں سال سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ صورتحال یہ ہے کہ انسانیت ایٹمی اسلحہ کے ڈھیر پر بیٹھی اپنے خاتمے کا انتظار کر رہی ہے۔