سارے رنگ
بہت سی چیزوں میں ہمارے پاس انتخاب ہوتا ہے کہ ایک چیز اچھی نہیں دوسری، دوسری نہیں تو تیسری
سرمایہ داروں کے شکنجے میں جکڑے 'صارفین '
خانہ پُری
ر ۔ ط ۔ م
بطور شہری ، ریاست ہمیں ہی اپنے سارے نظام کا محور بتاتی ہے، لیکن عملاً ہمارے جیسے ملک میں اس 'شہری' کا کیا حشر ہو رہا ہے، وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔۔۔ بتایا جاتا ہے کہ عوام ہی اس ملک کے مالک ہیں، وہی جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے، کسے اقتدار ملنا ہے اور کس کا اقتدار اب ختم ہونا ہے وغیرہ وغیرہ۔
بالکل ایسے ہی 'سرمایہ دارانہ' نظام میں 'صارف' کو بھی ایسے نام نہاد سنگھاسن پر لا کر بٹھا دیا جاتا ہے، لیکن حال اس کا بھی تیسری دنیا کے پائمال حقوق کے حامل شہری سے کچھ کم نہیں ہوتا۔۔۔ مختلف مصنوعات بنانے والے ادارے بتاتے ہیں کہ ان کے لیے آپ بہت اہم ہیں، مختلف خدمات فراہم کرنے والے اپنے ہر صارف کو ''معزز'' کہہ کر پکارتے ہیں۔
لیکن عملاً ان کے لیے منافع اور کسی بھی طرح زیادہ سے زیادہ اپنی مصنوعات بیچنا اور خدمات فروخت کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے یہ اپنے گاہکوں اور صارفوں کو ''معزز'' کا مکھن اس لیے لگا رہے ہوتے ہیں کہ ان کا سارا دَم خَم انھی 'معزز' کے وسیلے ہی سے تو قائم ہے۔ انھیں کسی طرح مجبور وبے کس بنا کر اپنے شنکجے میں جکڑیے، اور ایسے باندھ کر رکھیے کہ انھیں لگے ہی نہیں کہ یہ بندھ چکے ہیں یا اگر پتا بھی لگ جائے تو کہیں بچ کر نہ جانے پائیں۔۔۔
دنیا بھر میں جیسے ریاستیں اپنے عوام کے واسطے بہت کچھ کرتی ہیں، بالکل ایسے ہی وہاں کے تجارتی ادارے اور مصنوعہ ساز بھی لوگوں کو اولیت دیتے ہیں، ان سے منافع ضرور لیتے ہیں، لیکن ایک حد سے تجاوز کرنے کی صورت میں انھیں کسی نہ کسی صورت میں قانون کا بھی ڈر ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو چوں کہ سب چلتا ہے سو کون سا اصول اور کون سا قانون صاحب، جتنا ریاست کو اس ملک کے عوام کا دھیان ہے، بس اتنا ہی ہمارے سرمایہ دار اداروں کو بھی رہا ہے۔
سچ جھوٹ ملا کر اشتہار بازی کر کے، کم سے کم قیمت کا جھانسہ اور زیادہ فائدہ اور بچت کا مَسکا لگا کر کسی طرح سے لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا لیجیے اور پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ آپ کی چیز معیاری اور غیرمعیاری سے قطع نظر بس اچھی شہرت کی حامل ہونی چاہیے۔
وہ جو کہتے ہیں کہ 'بد اچھا بدنام برا' بس بازار میں آپ کی شوشا ہونی چاہیے، پھر چاہے کچھ بھی ہوتا رہے، یہ پاکستان ہے، یہاں سب چلتا ہے!
بہت سی چیزوں میں ہمارے پاس انتخاب ہوتا ہے کہ ایک چیز اچھی نہیں دوسری، دوسری نہیں تو تیسری۔۔۔ لیکن بعض مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ اجارہ داری کا معاملہ ہوتا ہے یا پھر کم وبیش سبھی کا پرنالہ ایک ہی جگہ گر رہا ہوتا ہے۔ جیسے بنیادی سہولتوں کے ادارے دیکھ لیجیے، واٹر بورڈ، کے الیکٹرک، سوئی گیس اور ٹیلی فون وغیرہ۔ اب یہ لاکھ چاہے بدترین کارکردگی دکھائیں، آپ ان سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے، اس لیے یہ بھی اس کا کھل کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیسے غلط بلنگ تو ہر دوسرے گھر کا مسئلہ معلوم ہوتا ہے۔
کچھ کا کچھ حساب جوڑ دیا، پھر ٹھیک کرانے جاتے رہیے۔ ابھی تازہ واردات یہ علم میں آئی ہے کہ 'کے الیکٹرک' کے بل آنے کا ایک بار ناغہ ہوگیا اور آپ نے بل ان کی ویب سائٹ سے نکلوالیا، تو بس جھٹ اُدھر 'کے الیکٹرک' نے سرے سے آپ کا بل بھیجنا ہی بند کردیا کہ یہ تو اپنا بل انٹرنیٹ ہی سے نکال لیں گے۔۔۔! یہ کہاں کی شرافت ہے صاحب۔۔۔؟ کون سا اصول ہے یہ؟ ایک ایک صارف سے ہزاروں روپے کا منافع اینٹھنے کے بعد اسے ایک بل دینے کی بھی 'بچت' کی جائے گی۔۔۔؟؟ کہ اب صارف نہ صرف وقت پر بل جمع کرائے بلکہ اس سے پہلے ہر مہینے خود بل نکلوانے کا جھمیلا بھی کرے!! یہ ہوتی ہے بدترین اجارہ داری!
اب آجائیے بینکوں کی ''خدمات'' کی جانب۔۔۔ گذشتہ دنوں ہمارے محلے کے بینک نے اپنی شاخ کو چپ چاپ خاموشی سے ''اسلامی'' کی اوڑھنی اوڑھا دی، یہاں تک ٹھیک تھا، آپ کا بینک ہے، جو چاہیں بناتے پھریں، لیکن آپ نے کس قانون اور اصول کے تحت یہاں موجود ہمارے اکاؤنٹ کو دوسری قریب کی شاخ میں منتقل کیا؟؟
ہم نے تو اپنا اکاؤنٹ یہاں کھولا ہی اسی لیے تھا کہ یہ ہمارے گھر کے قریب ہے۔۔۔ ورنہ ہماری کوئی رشتہ داری تو نہیں ہے بینک سے کہ ہم دور پرے کی شاخ میں جا کر اپنا اکاؤنٹ کھولیں گے؟ پھر آپ نے نہ صرف بلا اجازت ہمارا اکاؤنٹ اٹھا کر پرے پھینکا، بلکہ ہمیں اس کی ایک خبر تک کرنے کی زحمت نہیں کی۔۔۔ کیوں کہ ظاہر ہے دوسری برانچ نئی تھی، یہاں تو ویسے بھی نئے کھاتے کھل جائیں گے، اس لیے نئی برانچ کا دال دلیہ چلانے کو ہم جیسے پرانے کھاتے داروں کی بلّی چڑھا دی گئی۔۔۔
یہی نہیں بینک کھاتے داروں کی جانب سے از خود کٹوتیوں کی شکایات بھی عام ہیں۔ گذشتہ دنوں ہمارے دفتر کے ساتھی محمد بابر اس پر شاکی تھی کہ بینک نے ان سے پوچھے بغیر ان کا زیادہ گنجائش کا حامل گولڈن 'اے ٹی ایم' کارڈ تھما دیا ہے۔
نتیجتاً اس کی عام 'اے ٹی ایم' سے کہیں زائد فیس ان کے اکاؤنٹ سے اُچک لی گئی۔۔۔ اب بابر بھائی اس پر پریشان ہیں کہ بینک نے آخر کس خوشی میں ازخود ان کا یہ مہنگا کارڈ بنا دیا ہے، جب کہ ان کا اکاؤنٹ تو گواہ ہے کہ اس میں تو اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے کہ انھیں اس 'گولڈن اے ٹی ایم' کارڈ کی ضرورت پڑے۔۔۔
کٹوٹیوں سے ہمیں بے ساختہ اپنی موبائل کمپنیاں یاد آجاتی ہیں، جو 'کاٹ کھانے' میں کسی بھی طرح بینکوں سے پیچھے نہیں، ایک تو خیر سے سرکار نے پہلے ہی اس پر ٹیکسوں کی بھرمار کر رکھی ہے۔
اوپر سے ان کی جانب سے ازخود نہ جانے کون کون سے 'پیکیج' لگا دیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک دن معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا بیلنس صفر ہو چکا ہے۔۔۔ ارے بھئی، ہم نے تو کبھی یہ پیکیج نہیں لگوایا، پتا چلتا ہے کہ فلاں فلاں روز میسج آیا تھا کہ آپ کے موبائل پر یہ پیکیج لگ رہا ہے، اگر نہیں لگوانا چاہتے تو نہیں لکھ کر جواب دے دیجیے۔۔۔! آپ نے بتایا نہیں اور وہ پیکیج لگ گیا۔
ارے یہ کون سا طریقہ ہے کہ آپ نے خود ایک چیز خرید کر ہماری جھولی میں ڈال دی اور کہا اگر نہیں چاہیے تو دکان پر واپس آکر دے جائیے! ارے صاحب، اگر اپنے پیکیج کی تشہیر کرنی ہی ہے تو پیکیج لگوانے کے لیے طریقہ بتائیے، نہ کہ لگوا کر ہٹوانے کے لیے! تشہیر سے بات نکل جاتی ہے کہ ہم کسی مشکل میں پھنس کر 'کے الیکٹرک' یا موبائل فون سروس سینٹر کال کریں، تو اس کال کے پیسے بھی ہمارے کھاتے سے کٹتے ہیں اور اس پر لمبے لمبے اشتہارات بھی سنوائے جاتے ہیں۔
خدا جانے یہ انتظار ہی ہوتا ہے یا زبردستی ہمارے خرچے پر سنوائے گئے اشتہار۔ پھر اپنا اسمارٹ موبائل اٹھائیے کوئی بھی 'ایپ' کھولیے، جھٹ سے ایک 'منہ پھٹ' اشتہار آدھمکے گا اور پورے پانچ سیکنڈ کے لیے آپ کی جان پر مسلط رہے گا۔۔۔ پتا نہیں اب یہ کیا نئی 'ڈیجیٹل غنڈہ گردی' آگئی ہے۔
بہت سی مرتبہ تو اشتہار ہٹانے کا راستہ بھی دکھائی نہیں دیتا، آپ زچ ہو کر موبائل پر ایک 'ٹھونگ' مار دیں تو پتا چلتا ہے کہ متعلقہ اشتہار کی تفصیلات کھلنا شروع ہوگئیں۔۔۔ انٹرنیٹ ہمارا خرچ ہو رہا ہے، جبری اشتہار بازی سرمایہ داروں کی جاری ہے۔ نام ہے فرد کی آزادی کا، صارفین کی بادشاہت اور شہریوں کے حقوق کا۔۔۔ اور حالت یہ ہے کہ ان دیکھی زنجیروں میں جکڑ دیے گئے ہیں کہ بس کچھ کہہ بھی نہیں سکتے!
''آپ کون ہیں۔۔۔؟''
سلیمان سعد خان، کراچی
''ارے بھائی دیکھ کر چل '' یہ سن کر میں ایک دم ہوش میں آیا۔ میں ایک بائیک والے سے ٹکراتے ٹکراتے رہ گیا۔ جب وہ چلایا کہ ''دیکھ کے چلو۔'' میں کہاں ہوں؟ کیسے پہنچا؟ کس لیے آیا ہوں؟ شام کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے میں ایک خوش بو کی دلدل میں تیر رہا تھا، ہر جگہ سموسے ، جلیبیاں بن رہی تھیں ۔
لوگ اپنے دفتروں سے چھٹی کر کے گھر جا رہے تھے، اس کا سڑک پر الگ رش تھا ۔ اس پورے ہجوم میں، میں کیا کر رہا تھا؟ میں اپنے گھر کا سکون کیوں چھوڑ کر آیا تھا۔ اتنے میں، میں ایک بیکری کے سامنے سے گزرا۔
''بیٹا کیسے ہو؟'' ایک آدمی نے سموسے تلتے ہوئے مجھے پکارا ''یہ کون ہے؟'' میں دل میں سوچ رہا تھا۔ ''دو آلو اور دو قیمے والے؟'' انھوں نے مجھ سے پوچھا میں گڑگڑا کر بولا ''ج ...جی کیا؟''
''وہی ناں جو تم ہمیشہ لینے آتے ہو۔'' حاجی صاحب؟ میں نے ایک دم پہچان تو لیا، مگر یہ آدمی حاجی صاحب جیسے لگ تو بالکل نہیں رہے۔ ایک دم سے یہ گلی بھی مجھے سمجھ آنے لگی یہ تو 'عابد روڈ' ہے، مگر تھوڑی سی عجیب و غریب صورت ہو گئی ہے، جہاں پر پہلے اسٹیشنری کی دکان ہوتی تھی اب وہاں درزی بیٹھا ہوا ہے۔ بیکری میں حاجی صاحب کی جگہ کوئی اور آدمی ہے مگر مجھ سے وہ مخاطب حاجی صاحب کی طرح ہی ہو رہے ہیں اور اس سب میں میں یہاں باہر کیوں آیا؟ مجھے یہ یاد ہی نہ آئے۔
''ارے بیٹا! خیریت تو ہے؟'' میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ''جی جی سب خیریت ہے'' میں ذرا گھر سے ہو کے آتا ہوں۔'' حاجی صاحب کی جگہ یہ ان جان شخص تھوڑے سے چونک گئے، میری حالت پر مگر میں تو فوراً گھر بھاگ گیا۔
بڑا عجیب سا راستہ تو پہچانا جارہا تھا، مگر اور کچھ بھی نہیں۔ اعجاز کی گاڑی کی جگہ کوئی اور سی گاڑی کھڑی ہوئی تھی ساری دکانیں الگ الگ تھی مگر گلی اور سڑک تو وہی تھی۔ بڑی عجیب سی کیفیت میں میں گھر کے دروازے تک پہنچا۔ مجھے چابی مجھے نہ ملے۔ میں نے گھنٹی بجائی تاکہ امی جان دروازہ کھولیں۔
میں آس پاس دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک ان جان آواز بولی ''جی آپ کون ہیں۔۔۔؟''
بھائی بھلکڑ
عائزہ حسن، کراچی
''ارے علی میاں کہاں کو چلے؟'' عامر صاحب نے دور مرغی کی دکان سے کھڑے مجھے آواز لگائی۔ ''کہیں نہیں میں تو بس''
''ارے آپ تو اب عید کا چاند ہوگئے ہیں۔ دکھائی ہی نہیں دیتے۔'' عامر صاحب نے میری بات کاٹتے ہوئے اور میری طرف آتے ہوئے عرض کیا۔ ''نہیں ایسی بات نہیں آج کل بس تھوڑا مصروف ہوں۔'' میں نے یہ کہا اور ''پھر ملاقات ہوگی'' کہتے ہوئے جلدی سے چلتا بنا۔ تھوڑا ہی آگے گیا تھا کہ اچانک دو اور محلے دار مل گئے۔
میں نے سوچا ان سے سلام دعا کر کے جلدی سے نکل جائوں گا، لیکن وہ دونوں سیاست سے متعلق بہت ہی کوئی دل چسپ بات کررہے تھے، جس وجہ سے میرے قدم آگے نہ بڑھے اور میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرنے لگا۔ باتوں ہی باتوں میں جب حامد صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ''میں اتنی دوپہرکے وقت باہر کیا کر رہا ہوں'' تو مجھے یاد آیا۔
کیا پھر میں اپنی بیگم کا دیا کوئی کام بھول رہا ہوں کہ مجھے تو ایک بہت ضروری کام سے بس اسٹاپ پہنچنا ہے اور مجھے دیر ہو چکی ہے۔ میں جلدی سے اٹھا اور سب کو خدا حافظ کر کے بس اسٹاپ کی طرف بھاگا۔
اسی بھاگم دوڑ میں ہمارے محلے کی عالیہ بی بی سے ٹکرا گیا، جس وجہ سے ان کے ہاتھ سے سب شاپنگ بیگ وغیرہ گر گئے۔ میں نے بہت معذرت کی اور ان کا سامان اٹھانے میں ان کی مدد کرنے لگا۔
سامان اٹھاتے اٹھاتے مجھے یاد آیا کہ مجھے تو کسی کو لینے جانا تھا اور بس اسی سوچ کے دوران مجھے میری بیگم سامنے بس اسٹاپ کی طرف سے آتی ہوئی نظر آئیں۔ انھوں نے ہمیں دیکھا ہم نے انہیں دیکھا۔ پھر انہوں نے ہمارے ہاتھ میں عالیہ بی بی کے شاپنگ بیگ دیکھے اور بس پھر کیا وہ غصے سے آگ بگولہ ہوکر گھر کی طرف روانہ ہوگئیں اور ہم بھی شرمندگی کے ساتھ عالیہ بی بی کو شاپنگ بیگ تھماکر اپنی بیگم کے پیچھے چل دیے۔
صد لفظی کتھا
سوچ
رضوان طاہر مبین
''میں یہاں راشن لینے آیا تھا، ختم ہو گیا، اب دو دن بعد بلایا ہے۔''
بس کی پچھلی نشست پر بیٹھنے والے مسافر کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔
''بہت دور سے آیا، اب دوبارہ آنا پڑے گا۔'' اس نے کہا۔
''پہلے والدہ کام کرتی تھیں، تو مسئلہ نہیں تھا۔'' وہ بولا۔
'اتنا ہٹا کٹّا جوان اور۔۔۔'' مجھے خیال آیا۔
''والدہ سلائی کرتی تھیں، تو ہمارے لیے مشکلات نہیں تھیں۔''
'یہ کیسا نوجوان ہے، جو ماں کی کمائی یاد کر رہا ہے، خود کام کیوں نہیں کرتا۔۔۔؟' میں یہ سوچ کر پلٹا۔
اس کے ہاتھ میں سفید چھڑی تھی۔۔۔!