سورج پہ کمند دوسرا حصہ

حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے تین جلدوں پر مشتمل اس کتاب کو کس مشکل اور عرق ریزی سے مرتب کیا ہے


Zahida Hina April 12, 2023
[email protected]

حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے تین جلدوں پر مشتمل اس کتاب کو کس مشکل اور عرق ریزی سے مرتب کیا ہے۔ اس کا اندازہ اسے پڑھ کر ہی ہوسکتا ہے۔

یہ اتنے ایماندار لوگ ہیں کہ اس میں انھوں نے پاکستانی طلباء تحریک کے چند شہداء کا ذکربالکل ابتداء میں کیا ہے اور اسے بنگالی قومی زبان تحریک کا نام دیا ہے۔ یہ لوگ لکھتے ہیں۔

بنگالی قومی زبان تحریک

.1عبدالجبار تاریخ شہادت اکیس فروری انیس سو باون

.2عبدالسلام تاریخ شہادت اکیس فروری انیس سو باون

.3رفیق الدین احمد تاریخ شہادت اکیس فروری انیس سو باون

.4ابوالبرکات تاریخ شہادت اکیس فروری انیس سو باون

.5سیف الرحمن تاریخ شہادت بائیس فروری انیس سو باون

.6احی اللہ، نو سالہ بچہ، تاریخ شہادت بائیس فروری انیس سو باون

.7اور متعدد شہداء جن کے ناموں کا علم نہیں

میرے دوسرے پاکستانی دوست اور میں جب ڈھاکا کی سرزمین پر ان شہدا کو سلام کرتے ہوئے چل رہے تھے تو ہمیں ان کے نام نہیں معلوم تھے۔ اس لیے کہ وہ بنگلہ میں لکھے ہوئے تھے۔

اس کتاب میں کیسے کیسے لعل بے بہا ہیں جو طلباء کی اس تحریک میں خاک بہ سر ہوئے اور کتنے ہی گم نام ہوئے۔ ان میں سے ہزاروں اپنے گھر والوں کے لیے چند لقمے کماتے ہوئے پاکستان اور دیار غیر میں کنڈکٹر اور سیلزمین ہوئے۔ ان تمام صعوبتوں کے باوجود ان کے دل میں ایک شمع جلتی رہی اور یہ این ایس ایف کے نام کی تھی۔

اس میں کالج کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان ہی کا ذکر کرتے ہوئے صالحہ اطہر نے حمزہ واحد یادگاری لیکچر میں کہا ''جذبہ کا یہ عالم تھا کہ اراکین کانگریس کے کام میں تساہل نہیں کرتی تھیں جو کام دیا جاتا تھا، بہت خوشی سے پوری ذمے داری سے کردیا جاتا تھا۔

بغیر کسی لالچ یا غرض کے کام مکمل کردیا جاتا۔ کوئی بہانہ بازی نہیں ہوتی تھی، ہر ممبر کام کو اپنا اعزاز سمجھتا تھااور تندہی سے دیے ہوئے کام میں مصروف ہوجاتا۔ اراکین لڑکیاں میلوں پیدل چلتے ہوئے ایک اسکول سے دوسرے اسکول، ایک کالج سے دوسرے کالج تک کانگریس کا پیغام یا پروگرام پہنچایا کرتی تھیں۔ وقت پر میٹنگ پر پہنچنا ہر ممبر کی ذمے داری ہوتی۔ یہ سب حمزہ کی تربیت تھی۔'' آج ہمیں لڑکیاں صرف فیشن میں غرق نظر آتی ہیں لیکن یہ کتاب ہمیں 1956 اور 1957کا ایک الگ رخ دکھاتی ہے۔

اس میں ان لڑکیوں کا ذکر ہے جن میں سے آج بہت سینئر اور اہم خواتین ہیں۔ ان میں سے ایک نے لکھا ''اس پہلے کونسل سیشن کا ذکر ہمیں بانی ارکان کی یادداشتوں میں بھی ملتا ہے۔ سابقہ جنرل سیکریٹری رضی غفور اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ''ہم نے اپنا پہلا کونسل سیشن خالق دینا ہال میں منعقد کیا۔

محترمہ عطیہ فیضی کو صدارت کی زحمت دی گئی جو انھوں نے بڑی خوشی سے باوجود اپنی پیرانہ سالی منظور فرمائی۔ اخبارات میں اس کونسل سیشن کی دھوم مچ گئی۔ اس کونسل سیشن میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ گرلز کانگریس کی رپورٹ پیش ہوئی اور مستقبل کا لائحہ عمل وضاحت کے ساتھ منظور کیا گیا۔ ان کارروائیوں کے علاوہ بڑے دلچسپ آئٹمز پیش کیے گئے۔ ڈرامے اورخاکے پیش ہوئے۔ ٹیبلو بھی پیش کیے گئے۔ ٹیبلو کے لیے موسیقی اس وقت کے طالبعلم اور آج کے مشہور فنکار سہیل رعنا نے ترتیب دی تھی۔

کتاب کے چھٹے حصے میں حسن ناصر کی شہادت کے حوالے سے ایک بڑا جامع اور پراثر مضمون شامل ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ''حسن ناصر کا تعلق حیدرآباد دکن کے ایک ممتاز گھرانے سے تھا۔ حسن ناصر 2؍ اگست 1928کو حیدرآباد دکن میں ہی پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ زہرہ خاتون نواب محسن الملک کی نواسی تھیں جب کہ ان کے والد کا نام علمدار حسین تھا جو نظام حیدرآباد کی حکومت میں اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز رہے تھے۔

حسن ناصر نے اپنی ابتدائی تعلیم حیدرآباد کے گرامر اسکول سے حاصل کی جہاں سے انھوں نے سینئر کیمبرج کی سند حاصل کی۔ علیگڑھ کالج سے ایف اے کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے نظام کالج حیدرآباد دکن میں 1946 میں داخل ہوئے۔

یہاں سے ہی حسن ناصر کی طلباء سرگرمیوں اور سیاسی تحریکوں میں سرگرم شرکت کا آغاز ہوا۔ مارچ 1946 میں وہ آزاد ہند فوج کے رہنماؤں کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی احتجاجی تحریک کا حصہ بنے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور اظہار 13؍ جولائی 1947 کو اس وقت ہوا جب انھوں نے برصغیر کی آزادی و خودمختاری کے لیے 25 ہزار طلباء کے ایک احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کی۔

ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر انھیں حیدرآباد اسٹوڈنٹس لیگ کا جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ وہ اسی زمانے میں جاری تلنگانہ تحریک میں بھی سرگرم رہے اور ان کا تعارف کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے ہوا اور وہ اس کے رکن بن گئے۔ 1948کے اواخر میں حسن ناصر نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بذریعہ بحری جہاز لندن کا سفر اختیار کیا۔

جب جہاز کراچی کی بندرگاہ پر رکا تو چند دنوں قیام کے ارادے سے کراچی میں اپنے عزیزوں کے پاس ٹھہرگئے۔ کراچی میں حسن ناصر کی ملاقات کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے ذمے داروں (کچھ ذرایع کے مطابق کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر) سے ہوئی اور ان کی ترغیب پرحسن ناصر نے حصول تعلیم کے لیے لندن جانے کے اپنے ارادے کو ملتوی کر کے کراچی میں پارٹی کومنظم کرنے کا بیڑہ اٹھالیا۔

حسن ناصر کی گرفتاری اور شہادت کے بارے میں بھی اہم معلومات پیش کی گئی ہیں جس کا مطالعہ آج کے نوجوانوںکے لیے کافی اہم ہے۔

اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حسن ناصر کی پہلی گرفتاری راولپنڈی سازش کیس کے سلسلے میں 1952 میں ہوئی۔ وہ ایک سال قید رہنے کے بعد 1953 میں رہا ہوئے۔ قید کا یہ عرصہ انھوں نے بدنام زمانہ شاہی قلعہ لاہور میں گزارا۔ ان کی دوسری گرفتاری 18؍ مئی 1954 کو ہوئی۔

حسن ناصر کی یہ اسیری بھی ایک سال سے زائد جاری رہی۔ حسن ناصر کو اس اسیری کے اختتام پر ایک سال ملک بدری کا پروانہ تھمادیا گیا۔ چنانچہ حسن ناصرکو بحالت مجبوری ہندوستان جانا پڑا مگر ایک برس کی ملک بدری کی مدت ختم ہوتے ہی پاکستان واپس آگئے اور پہلے کی طرح تنظیمی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے۔

جب حسن ناصر واپس پاکستان پہنچے تو ملک پہلے سے کہیں زیادہ مشکل دور سے گزر رہا تھا۔ کیونکہ پارٹی پر پابندی کے پیش نظر اب تمام تنظیمی سرگرمیاں زیرزمین رہ کر انجام دینی تھیں مگر حسن ناصر نے تمام تر مشکلات کے باوجود پارٹی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اکتوبر 1958 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد تمام عوام دوست سیاسی کارکنان کے لیے حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے گئے۔

بڑے پیمانے پر ترقی پسند کارکنان کی گرفتاریاں، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن پر پابندی اور اس کے رہنماؤں کی گرفتاریاں، پروگریسو پیپلز لمیٹڈ کے اخبارات پر حکومتی قبضہ، آئزن ہاور کے دورے سے پہلے طلباء اور مزدور کارکنان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور روپوش کارکنوں کی گرفتاری کے لیے ہر روز چھاپے ان مشکل حالات کی نشاندہی کرتے تھے لیکن حسن ناصر ان مشکل حالات میں بھی روپوش رہ کر اپنے آدرشوں کے حصول کی جدوجہد میں مصروف رہے۔

ان ہی حالات میں کراچی میں نمائش کے مقام سے ایک خفیہ اطلاع کے نتیجہ میں ان کی آخری گرفتاری 6؍ اگست 1960 کو عمل میں آئی۔ گرفتاری کے بعد 38 روز تک خفیہ ادارے حسن ناصر پر بدترین تشدد کرتے رہے۔ تفتیش میں ناکامی کے بعد 13؍ ستمبر کو انھیں لاہور کے شاہی قلعے میں منتقل کردیا گیا۔

جہاں ان پر تشددکا ذلت آمیز، انسانیت سوز اورناقابل یقین سلسلہ دو ماہ جاری رہا۔ اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی اور وہ اس بربریت کے سامنے چٹان کی مانند ڈٹے رہے اور بالآخر انھی حالات میں 13؍ نومبر 1960 کو شاہی قلعہ کی کھولی نمبر تیرہ میں جام شہادت نوش کیا۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں