میرا نام تو آیا
یہ بات ہم بھی خود سے نہیں کہہ رہے تھے بلکہ یہ آفاقی سچ ہے اور عملاً پوری دنیا اور کائنات میں جاری وساری ہے
جو بات ہم ایک زمانے سے کہہ رہے تھے ،کہہ رہے ہیں اورکہتے رہیں گے اورکوئی مان کر نہیں دے رہا تھا،اب جب آئی ایم ایف،عرف لکشمی دیوی عرف الو سوار نے کہہ دی ہے توسارے الو اپنے پٹھوں سمیت مان گئے ہیں،بلکہ یہ بات ہم بھی خود سے نہیں کہہ رہے تھے بلکہ یہ آفاقی سچ ہے اور عملاً پوری دنیا اور کائنات میں جاری وساری ہے کہ ذرے سے لے کر آفتاب تک اور ازل سے لے کر ابد تک جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ''جوڑوں'' میں ہوتا ہے۔
زمین کے مقابل آسمان ، دن کے مقابل رات ، اجالے کے مقابل اندھیرا، اچھے کے مقابل برا ، خیر کے مقابل شر ،تخریب کے مقابل تعمیر، سفید کے مقابل سیاہ ، بلندی کے مقابل پستی، نر کے مقابل ناری، دائیں کے مقابل بایا ،آدم کے مقابل ابلیس، یعنی ''خلق الازواج کلہا ''اور ہمارا کہنا تھا کہ انسانوں میں بھی یہ ازواج، یہ سلسلہ ازواج موجود ہے ۔اشرافیہ اور عوامیہ کی صورت میں، اوپر والے ہاتھ اورنیچے والے ہاتھ کی صورت میں لیکن پاکستان والے بضد تھے کہ سب کچھ ایک ہے۔
پاکستان ایک ، زبان ایک ،قوم ایک، وطن ایک، ملک ایک اورسب کچھ ایک اوراس کے لیے پورے پاکستان کو پچھتر سال سے مبتلائے آزار رکھا گیا لیکن جب لکشمی دیوی نے کہا کہ اس ملک میں، امیراورغریب نام کے دو اقسام کے لوگ رہتے ہیں تو ایک ہاہا کار مچ گئی۔
امیر آٹا، غریب آٹا ،امیر پٹرول، امیر بجلی ،غریب بجلی، امیر سڑک غریب سڑک امیرحج ،غریب حج، امیر عمرہ، غریب عمرہ ۔ یہاں تک کہ ایک اشتہار میں ایک حکیم کا ایک نسخہ دیکھا، اکسیرمعدہ اورآگ ،امیرانہ اور غریبانہ لکھا تھا بلکہ امیرانہ شادیاں اورغریبانہ شادیاں، امیرانہ جنازے غریبانہ جنازے بھی ہواکرتے ہیں۔ویسے اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان میں پہلی بار اس کم بخت، سیاہ بخت ،بدبخت ،غریب کے وجود کو تسلیم تو کرلیاگیا۔
محفل میں مجھ کودیکھ کے وہ خوش نہ ہوا
پر ہزار شکر! مجھ کو نام سے پہچان تو گیا
مطلب یہ کہ ''غریب'' نام کی مخلوق کا وجود تو تسلیم کر لیاگیا اور یہ بھی غنیمت ہے ورنہ اس سے پہلے اس قسم کی کوئی چیز پاکستان میں موجود نہ تھی، مطلب یہ کہ آئینی دستوری اورقانونی طور پر نہ تھی، یاصاف صاف کہیے تو کم ازکم انسان کا درجہ تو حاصل نہ تھا کہ وہ جو انسان سے بہت اونچے ہیں، وہ ان کو انسان سے بہت کم بلکہ بہت ہی کم اور جانورسے کچھ معمولی سا زیادہ سمجھتے تھے۔
صدیوں سے یوں تو ہے یہاں انسان کا وجود
انسان ہم کو کم ہی ملے، بہت ہی کم
لیکن پھر بھی ایک بات بڑی حیرت کی ہے کہ اعلیٰ وبالا کا عوام کی طرف دھیان کیسے ہوا ، شاید اس لیے ان کو الوؤں پر سواری کرتے کرتے اسے خیال آگیا ہو کہ یہ الو بھی کبھی پٹھے تھے، اس لیے پٹھوں کی پالن پوسن یا کم سے کم زندہ رکھنا ضروری ہے ورنہ پٹھے ہی نہ رہیں گے تو الو کہاں سے آئیں گے یا یہ کہ جیسا پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ گھاس پھوس زمین کی سگی اولاد اور فصل سوتیلی اولاد ہوتی ہے تو یہ غریب یاکالانعام یا پٹھے اسی لکشمی دیوی کی سگی اولاد توہے ۔
ویسے بھی لکشمی دیوی بے شک الووں پرسواری کرتی ہے لیکن وہ خود تو الو نہیں اور اگر ہے بھی تو مشرقی نہیں مغربی الو ہے اورمغرب سے مشرق کے برعکس الووں کو دانائی کا سمبل ماناجاتاہے جسے امریکا میں گدھوں کو ماناجاتاہے، اس لیے وہ جانتی ہے کہ یہ جو خاص لوگ ہیں یہ بھوکوں مرجاتے اگر عام کالانعام نہ ہوتے اس لیے شاید لکشمی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر یہ غریب خدا مارے مرگئے تو امیروں کے لیے یا میرے لیے کمائے گا کون؟
اس سے پہلے بھی وہ یہ بندوبست کیے ہوئے تھی کہ یہاں کے الوؤں کو خیراتوں اور بھیک سے منع نہیں کرتی تھی ،خیرات خانوں اور لنگرخانوں پر کچھ نہیں کہتی لیکن اب اسے شاید خطرہ ہوگیا تھا ، یہ کم بخت کہیں مر ہی نہ جائیں جب یہ نہ رہیں گے تو وفا کون کرے گا ،اس لیے چاہتی ہے کہ یہ گائے اسی طرح زندہ رہے اور دودھ دیتی رہے ، یہ گائے صرف دودھ ہی نہیں دیتی بلکہ بچھڑے بھی دیتی ہے جو یہاں وہاں چر کر بیل بن جاتے ہیں اورآپ تو جانتے ہیں کہ یہ دنیا بیل کی سینگ پر ہی ٹکی ہوئی ہے ، یہ بیل ہی ہوتے ہیں جو زمین کو جوت جوت کر رزق پیداکرتے ہیں، گاڑیوں میں جوتے جاتے ہیں اوردوسرے بھی ہزار''جوؤں'' میں ڈال کر کارآمد بنائے جاتے ہیں ۔
اگر کالانعاموں کو غلط فہمی (جو انھیں ہمیشہ لاحق رہتی ہے) ہوگئی ہو کہ لکشمی ان پر مہربان ہوئی ہے، اسے ان سے محبت ہوگئی ہے تو گھوڑا کبھی گھاس سے دوسنی نہیں کرتا۔
ایں خیال است ومحال است وجنوں است