رمضان المبارک میں اسرائیلی جارحیت

رمضان المبارک میں مسجد میں عبادت کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے تشدد کی پوری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے


قابض اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے والے فلسطینی مسلمانوں پر تشدد کیا۔ (فوٹو: فائل)

ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر قابض اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے والے فلسطینی مسلمانوں پر تشدد کیا اور انہیں پرامن طریقے سے عبادت کرنے سے بھی روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

دو سال قبل بھی رمضان المبارک میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری کرکے کئی فلسطینیوں کو شہید کردیا تھا اور یہ عید کے بالکل قریب کے دن تھے، جس کی وجہ سے خاص طور پر فلسطینیوں اور عمومی طور پر پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کی عید خراب ہوگئی تھی۔ فلسطینیوں پر اس وقت اتنا تشدد ہوا تھا کہ کسی کو عید کی مبارک دیتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہورہی تھی کہ فلسطینیوں پر کس قسم کا تشدد کیا جارہا ہے اور وہاں کتنے ہمارے بھائی شہید ہوگئے، ہم عید کی خوشی کیسے منائیں؟ اب ایک بار پھر قابض فوجوں نے ماہ مقدس میں فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا ہے، انہیں پہلے تو مسجد سے نکالا اور اب سڑکوں پر بھی ان پر تشدد کررہے ہیں اور مزاحمت کرنے والوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔

غزہ کی پٹی پر بھی اسرائیلی فوج نے راکٹ فائر کیے اور اسی طرح لبنان میں پناہ گزینوں کے کیمپ پر بھی اسرائیلی فوج نے راکٹ فائر کیے، جو کیمپوں کے قریب گرے جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔ لیکن اسرائیل کی طرف سے یہ خطرہ تو بہرحال موجود ہے کہ وہ کبھی بھی، کسی بھی وقت فلسطینیوں پر بمباری کرسکتا ہے۔ اگرچہ یہ عالمی قوانین کے خلاف ہے کہ کوئی ملک کسی شہری آبادی پر بمباری کرے لیکن وہ عالمی قوانین ان ممالک کےلیے ہوتے ہیں جنہیں امریکا کی اشیرباد حاصل نہ ہو۔ اسرائیل تو امریکا کی آشیرباد پر چل رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی قوانین کی پابندیوں کی کوئی ضرورت نہیں۔

رمضان المبارک میں پرامن شہریوں اور مسجد میں عبادت کرنے والوں پر اسرائیلی فوج کے تشدد کی پوری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے لیکن امریکا اور اقوام متحدہ اس کی مذمت نہیں کررہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا نے اقوام متحدہ کو بھی اس پر مذمتی بیان جاری کرنے سے منع کر رکھا ہے۔ کیوں کہ اقوام متحدہ نے تو ہمیشہ امریکا کی لونڈی کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کا مقصد صرف امریکا اور بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ پوری دنیا کو تو اقوام متحدہ کا جھانسہ دیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، لیکن درحقیقت اسے امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس بار اسرائیل نے حسب عادت پھر رمضان المبارک میں غزہ پر حملہ کیا تو ساتھ ہی مزید جرأت کرتے ہوئے لبنان پر بھی حملہ کردیا، کیونکہ وہ حزب اللہ کے ہاتھوں لبنان سے پڑنے والی پرانی مار بھول گیا تھا۔ بس پھر کیا تھا جیسے ہی اسرائیل نے حملہ کیا، لبنان نے بھی اسرائیل پر راکٹوں کی بوچھاڑ کردی۔ اگرچہ اسرائیل کا دفاع مضبوط ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی خاص نقصان تو نہیں ہوا لیکن اسے یہ سبق تو مل گیا کہ کہیں سے جواب بھی آسکتا ہے۔ لبنان نے اسرائیلی جارحیت کا جواب دے کر عالم اسلام کے مورال کو بلند کیا ہے۔

اگر اسلامی ممالک میں اتحاد و اتفاق ہوتا تو اسرائیل ان کے سامنے کچھ بھی نہیں، وہ اسے لمحوں میں ختم کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے اسلامی ممالک تو اس کے سامنے بچھتے چلے جارہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے اسے تسلیم کرکے اس کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کررہے ہیں، جبکہ مسلمانوں کی ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ عرب ممالک نے جس قدر ترقی کی ہے وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل ہی کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا اس کی ترقی میں رکاوٹ نہیں۔ کئی ایسے ممالک دنیا میں موجود ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کی معاشی حالت نہایت ابتر ہے۔ یعنی اسرائیل کو تسلیم کرنا ترقی یا کامیابی کا معیار نہیں۔ دنیا کے دیگر جتنے ممالک کو تسلیم کر رکھا ہے ان کے ساتھ بہتر سفارتی و تجارتی تعلقات ہوں، بالخصوص اسلامی ممالک کے آپس کے تعلقات اچھے ہوں تو اسرائیل کی جرأت نہیں ہوگی کہ کسی اسلامی ملک کی طرف میلی نگاہ سے دیکھے۔

مگر افسوس کہ عالم اسلام کے رہنماؤں کو فقط ذاتی مفادات عزیز ہیں جن کی وجہ سے وہ امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات سے نظریں چرا رہے ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کی اتنی ہی مجبوری ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے تو کم از کم اتنا تو کریں کہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں پر زور ڈالیں کہ وہ باقی ماندہ فلسطین کو ایک آزار ریاست کے طور پر تسلیم کرلیں اور فلسطینیوں کو اپنی حکومت بنانے اور اپنے ملک کو آزادانہ طور پر ترقی دینے کے قابل ہوسکیں۔ یوں کم از کم وہ اسرائیل کی آئے روز کی جارحیت سے تو محفوظ ہوجائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں