علاج عزت نفس کے ساتھ
ایس آئی یو ٹی کو بچوں کے امراض کے علاج کے لیے تقریباََ 5.2 بلین روپے کی ضرورت ہے
کشور زہرہ سیاسی کارکن ہیں، وہ گزشتہ ایک عشرہ سے متحدہ قومی موومنٹ کی قومی اسمبلی میں نمایندگی کرتی ہیں۔ کشور زہرہ محض ایک خاموش خاتون رکن نہیں ہیں بلکہ انھوں نے صحت، تعلیم اور خواتین کے حقوق سے متعلق قوانین کی تیاری میں فعال کردار ادا کیا ہے۔
کشور زہرہ نے انسانی اعضاء کی پیوند کاری Human Organ Transplantation کی تجارت کو روکنے کے بارے میں قانون سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی کوششوں سے انسانی اعضاء کی خرید و فروخت کو قابل سزا قرار دینے کا قانون 2010ء میں منظور ہوا۔ اس قانون کے بننے سے پہلے سے نافذ قوانین کے نقائص خاصی حد تک دور ہوئے۔ اس قانون کے تحت اسلام آباد میں ایک اتھارٹی قائم ہوئی۔
اس قانون کے نفاذ سے پہلے گردوں کی پیوند کاری ایک بہت بڑا کاروبار بن گئی ۔ گزشتہ عشرہ میں بھارت میں یہ کاروبار عروج پر تھا۔ مختلف اسپتالوں کے ایجنٹ غریبوں سے گردے خریدتے تھے جنھیں چند لاکھ روپے دیے جاتے تھے۔
پھر یہ گردے انتہائی مہنگے داموں امیروں کو لگا دیے جاتے تھے۔ گلف کی ریاستوں کے عرب شیخ جن کے گردے ناکارہ ہوجاتے تھے وہ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
پھر بھارت میں قانون سازی کے بعد یہ کاروبار کچھ کم ہوا۔ پنجاب کے دیہاتوں میں غربت کا شکار خاندانوں کے گردے فروخت ہونے لگے مگر اس قانون کے نفاذ کے بعد یہ سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے تھم گیا۔ پنجاب میں اس حوالہ سے کئی اسکینڈل سامنے آئے اور ایک ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے بعض افراد گرفتار ہوئے۔
پاکستان میں گردوں کے امراض کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا بیانیہ ہے کہ قریبی رشتہ دار گردہ کا عطیہ دینے لگیں تو بہت سے مریضوں کی جان بچ سکتی ہے۔ پھر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ حادثات میں انتقال کر جاتے ہیں یا دیگر وجوہات کی بناء پر ان کی موت واقع ہوتی ہے اگر وصیت کریں اور ان کے لواحقین اپنے پیاروں کی وصیت پر عمل کریں تو گردوں کی کمی دور ہوسکتی ہے۔
کشور زہرہ اس حوالے سے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی ٹیم میں شامل رہی ہیں۔ انھوں نے پاکستان میں کڈنی ٹرانسپلانٹ اور ڈائیلیسز کے سب سے بڑے ادارہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ S.I.U.Tکی ترقی کے لیے جامع کوششوں میں حصہ لیا ہے۔
کشور زہرا نے لوگوں کو گردے دینے کے لیے تیار کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک قانون کا مسودہ Transplantation of Human Organs and Tissues Amendment Bill سال 2021ء میں پیش کیا۔ کشور زہرہ کا بیانیہ ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر گردوں کی فروخت اور گردوں کی پیوند کاری کا معاملہ رک نہیں رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انسانی اعضاء کی اسمگلنگ کی مافیاز خاصی طاقتور ہیں اور غریب افراد محض پچاس ہزار روپے میں اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ چند برس قبل یہ کوشش کی گئی کہ انسانی اعضاء کے ڈونرز صرف قریبی رشتہ دار شوہر اور بیوی ہوسکتے ہیں۔
کشور کہتی ہیں کہ انسانی جسم سے مرنے کے بعد آنکھ، دل، پھپھڑے اور گردے کے عطیہ کے طور پر لیے جائیں تو ان کے اندازہ کے مطابق 17 افراد ان اعضاء سے اپنی زندگیوں کو بہتر بناسکتے ہیں۔
ان کی یہ تجویز ہے کہ شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس میں ایک خانہ آرگن ڈونیشن کے بارے میں ہونا چاہیے ، اگر متعلقہ فرد اعضاء عطیہ دینے پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے تو ان اہم دستاویزات میں اس کا اندراج ہوگا۔
یوں لواحقین کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کسی شخص کے مرنے کے 72 گھنٹے تک اس کے اعضاء کسی دوسرے شخص کی زندگی بچانے کے لیے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی کارآمد تجویز ہے، یوں ڈونرز کی تعداد بڑھ جائے گی۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر پرویز اشرف نے اس مسودہ کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھیج دیا ہے۔ جب 80ء کی دہائی میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ڈاکٹر نقوی وغیرہ نے گردوں کی پیوندکاری کا آغاز کیا تھا تو انھیں ہر طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ مخالفت علماء کرام کی طرف سے بھی تھی اور سماجی روایات بھی حائل تھیں ، لوگ خوف کا شکار تھے۔ یہ صورتحال دیگر اسلامی ممالک میں نہیں تھی۔ سعودی عرب، ایران، ترکی اور مصر وغیرہ میں انسانی اعضاء کی پیوند کاری معمول کا سلسلہ تھی اور اب بھی سعودی عرب کی حکومت نے ڈاکٹروں کو یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ وہ انسانی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں گردوں کی پیوند کاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ایران میں آیت اﷲ خمینی کے ایک فتویٰ نے اس مسئلہ کو حل کردیا تھا۔ ان ممالک میں کوئی عالم اعضاء کی پیوندکاری کے خلاف کوئی دوسرا مؤقف اختیار نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں مختلف فقہہ سے تعلق رکھنے والے کچھ علماء نے اعضاء کی پیوند کاری کی حمایت کی۔ ان علماء کا کہنا ہے کہ کسی انسان کی جان بچانے سے زیادہ کوئی اور کام نہیں ہوسکتا۔
مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے اس موضوع پر مقالے اور کتابیں تحریر کی ہیں۔ جامعہ کراچی کے اسلامیات کے سابق ڈین ڈاکٹر شکیل اوج (مرحوم) ان اساتذہ میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے اعضاء کی پیوندکاری کو جائز قرار دینے کے لیے اسلامی فقہہ کے تحت دلائل پر مبنی کتاب تحریر کی تھی۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی جو کبھی بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے فعال کارکنوں میں شامل تھے اور اپنے آدرش کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں انھوں نے سول اسپتال کے8 بستروں کے وارڈ سے گردہ کے امراض کے علاج کا کام شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر نقوی اس وقت سے ان کے ہم نوا تھے۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے وژن اور کوششوں سے یہ وارڈ 2005میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ میں تبدیل ہوا۔ پہلے یہ ادارہ کراچی کے سول اسپتال میں تبدیل ہوا، اب صرف ایس آئی یو ٹی کی پرانی عمارت میں 270بیڈ ہیں اور ڈائلیسز کے لیے 150 بیڈ وقف ہیں۔ ایس آئی یو ٹی میں چوبیس گھنٹے مریضوں کا ڈائیلسز ہوتا ہے۔ حکومت سندھ نے 1993 میں ایس آئی یو ٹی کو زمین الاٹ کی۔ پھر دیوان فیملی نے 6 منزلہ عمارت کی تعمیر کے اخراجات برداشت کیے۔
یہ عمارت جو دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس کے نام سے منسوب ہے اس میں 425 بیڈ ہیں۔ ایس آئی یو ٹی کی کئی کئی منزلہ عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں۔ جدید مشینیں نصب ہونے سے ایک اندازہ کے مطابق اس ادارے میں ہر سال تقریباً 13ہزار ڈائیلاسز ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے ساتھ ڈاکٹر نقوی، ڈاکٹر ہاشمی ، ڈاکٹر بخش علی ، ڈاکٹر مری، ڈاکٹر ناصر جیسی ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم موجود ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا کہنا ہے کہ مریض کا علاج اس کی عزت نفس کے احترام کے ساتھ ہونا چاہیے۔
مخیر حضرات اپنے عطیات ایس آئی یو ٹی کو دے سکتے ہیں۔ ایس آئی یو ٹی کو بچوں کے امراض کے علاج کے لیے تقریباََ 5.2بلین روپے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو امید ہے کہ عوام کے عطیات سے یہ اسپتال تعمیر ہوگا۔ تمام منتخب ارکان کچھ وقت صحت اور تعلیم کے مسائل کے حل کے لیے قانون سازی اور پالیسی بنانے کے لیے وقف کریں تو پارلیمنٹ ایک عظیم مثال قائم کرسکتی ہے۔