سیاسی مذاکرات ممکن نہیں بات ہار جیت پر طے ہوگی
عمران خان کی کیا گارنٹی ہے؟ بات اس پر پھنسی ہوئی ہے
آجکل ایسی خبریں آرہی ہیں کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان کوئی بیک چینل مذاکرات چل رہے ہیں۔ یہ بھی خبریں آئی ہیں کہ ان مذاکرات میں ڈیڈ لاک ضامن نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
عمران خان کی کیا گارنٹی ہے؟ بات اس پر پھنسی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے پیپلزپارٹی نے سیاسی مذاکرات کے حق میں بات کی تھی۔ بہر حال آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں سابق صدر آصف زرداری نے اس کی مزید وضاحت کر دی کہ مذاکرات کرنے ہیں تو وزیر اعظم شہباز شریف سے ہی ہو سکتے ہیں۔
یعنی وہ واضح کر رہے تھے پیپلزپارٹی اکیلی تحریک انصاف سے کوئی مذاکرات نہیں کرے گی۔ ورنہ یہ ابہام بھی پیدا ہو گیا تھا کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف براہ راست ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات بھی شروع کر سکتے ہیں۔ جس میں مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر جماعتیں شامل ہی نہ ہوں تاہم پیپلزپارٹی نے اس کو کلیئر کر دیا ہے۔
پاکستان میں سیاسی مذاکرات کے حق میں ایک رائے موجود ہے۔عام آدمی بھی چاہتا ہے کہ سب اکٹھے بیٹھیں اور مل کر ملک کے مسائل کا حل نکالیں۔ لیکن یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ ملک کی سیاسی اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی زمین اس قدر گرم ہو گئی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا ممکن ہی نہیں رہا۔ اس لیے ایسے ماحول میں اکٹھے کیسے بیٹھا جا سکتا ہے۔
بات ایک دوسرے کو سیاسی طور پر ختم کرنے تک پہنچ گئی ہے۔ اس لیے اکٹھے جینے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ البتہ ہم تو مرے ہیں تمھیں ساتھ لے کر مریں گے والی بات ضرور ہے۔
اس وقت ملک میں ایسا کوئی ادارہ یا شخص موجود نہیں جو دونوں فریقین کے درمیان سیز فائر کروا سکے۔ ماضی میں اسٹبلشمنٹ یہ کام کرتی رہی ہے۔ وہ سیاسی مخالفین کے درمیان معاہدہ کرواتی رہی ہے۔
اب ایک تو اسٹبلشمنٹ نے خود کو سیاست سے دور کرنے کا اعلان کر دیا ہوا ہے' اس لیے وہ براہ راست ایسا کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے۔
دوسرا ان کے اور عمران خان کے درمیان بھی بد اعتمادی کی ایسی فضا قائم ہو گئی ہے کہ وہ عمران خان کی گارنٹی دینے اور انھیں حکومت کے ساتھ بٹھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی رائے میں اس میں ان کی پوزیشن مزید خراب ہوگی۔ اگر عمران خان کی باتیں نہ مانی گئیں تو وہ سر عام ان کے خلاف ایک اور مہم شروع کر دیں گے۔
میں سمجھتا ہوں عمران خان بھی بات چیت کے کوئی خاص حق میں نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ان کی بی کلاس قیادت جائے اور حکومت سے مذاکرات کرے۔ اگر ان کی شرائط پر بات بن جائے تو ٹھیک ورنہ وہ پھر کہہ دیں گے میں تو ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ وہ پہلے بھی خود ایسے کسی مذاکرات میں شریک نہیں ہوئے۔ اب بھی نہیں ہونا چاہتے۔ ان کے خیال میں اگر کوئی ان کی مرضی کا راستہ نکل آئے تو ٹھیک ورنہ وہ کہہ دیں گے میں تو کبھی ساتھ بیٹھا ہی نہیں۔
اس لیے ایک توحکومت کوئی ایسی بات چیت نہیں کرے گی جس میں عمران خان خود چل کر حکومت کے پاس نہ آئیںبلکہ وہ چل کر وزیر اعظم شہباز شریف سے ملنے نہ آئیں۔ لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کا عمران خان کو سیاسی فائدہ ہوگا۔ لہٰذا اس شرط کو رکھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ حکومت کہے او ر عمران خان آجائیں۔ اس لیے یہ بات بھی کہی نہیں جا رہی۔
عمران خان کے پاس بھی جیت ہار کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ حکومت کے پاس بھی جیت ہار کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اسی لیے عدلیہ اور پارلیمان کی لڑائی بھی نظر آرہی ہے۔
عدلیہ اور پارلیمان کی لڑائی جس نہج پر پہنچ گئی اس کے بعد جب تک عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان کوئی سیز فائر نہ ہو تب تک سیاسی سیز فائر کی تو بات ہی نہیں کی جا سکتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان محاذ آرئی اپنے جوبن پر ہو اور سیاسی جماعتیں مفاہمت کرلیں۔ اس لڑائی کے فیصلے تک کوئی سیاسی ڈائیلاگ ممکن ہی نہیں۔
عدلیہ اور بالخصوص چیف جسٹس نے سیاسی مفاہمت کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔ کیونکہ حکومتی اتحاد انھیں بھی ایک فریق ہی دیکھ رہا ہے۔ ایک رائے بن گئی ہے کہ ان کی ہمدردیاں عمران خان کے ساتھ ہیں۔
پاکستان میں عالمی طاقتیں اور دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی سیاسی ڈائیلاگ کرواتے رہے ہیں۔ لیکن موجودہ صورتحال میں یہ بھی ممکن نظر نہیں آرہا۔ کیا امریکی حکومت عمران خان کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے موڈ میں نہیں۔ امریکا سے جو بیانات آرہے ہیں وہ سرکاری اہلکاروں کے نہیں ہیں۔ عمران خان کی لابنگ فرم نے غیر اہم سیاستدانوں سے بیان لیے ہیں۔
ان کا امریکی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ وہاں کی اپوزیشن ہے۔ اسی لیے حکومت کوئی خاص پریشان نہیں۔ ڈائیلاگ زلمے خیل زاد نہیں امریکی حکومتی اہلکار کروا سکتے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی بھی موجودہ سیاسی بحران میں کوئی کردار ادا کرنے میں دلچسپی نظر نہیں آرہی۔ اس لیے بیرون ملک سے ڈائیلاگ کا کوئی آپشن نہیں ہے۔
ایک وقت تھا کہ شہباز شریف ڈائیلاگ کی بات کرتے تھے۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں۔ اب معاملہ ہار جیت پر ہی طے ہوگا۔ اب کوئی کسی کو زندگی دینے کے لیے تیار نہیں۔ ساتھ جینے کا کوئی آپشن ممکن نہیں۔ اب ہمیں اس کھیل میں ہار جیت ہی دیکھنی ہے۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ جتنی جلدی ہار جیت طے ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ لمبی لڑائی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس لیے اب جلد ہار جیت کی ہی دعا کی جا سکتی ہے۔ مذاکرات ممکن نظر نہیں آرہے۔