کھلواڑ
جمہوری ممالک میں آئینی ارتقا اور عوامی آزادیوں کے لیے عدلیہ نے بڑا موثر اور جان دار کردار ادا کیا ہے
کسی بھی ملک کے امور سلطنت چلانے کے لیے آئین ہی وہ واحد اور بنیادی دستاویز ہوتی ہے جس پر تمام ریاستی ادارے اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔
مہذب و باوقار جمہوری ممالک میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ریاست کے اہم ستون سمجھے جاتے ہیں جو آئین میں متعین کردہ دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں، ایک دوسرے کے مقابل آنے کی بجائے ایک دوسرے کے معاون و مددگار بنتے ہیں۔
کسی بحران کو جنم دینے کا سبب بننے کی بجائے بحرانوں کے خاتمے میں اپنا اپنا مثبت و تعمیری کردار پورے اخلاص اور دیانت داری سے ادا کرتے ہیں۔ جمہوری ممالک میں آئینی ارتقا اور عوامی آزادیوں کے لیے عدلیہ نے بڑا موثر اور جان دار کردار ادا کیا ہے۔ امریکا، آسٹریلیا اور بھارت کے علاوہ کئی دوسرے ممالک میں آئین کے محافظ کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے نمایاں مقام پر رکھتے ہیں۔
امریکا میں بالخصوص سپریم کورٹ کے فیصلوں نے آئین کی تعبیر و تشریح کے ذریعے آئین کے تحفظ اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور آئین کی توقیر میں اضافہ کیا ہے اسی باعث اسے کانگریس کا تیسرا ایوان کہا جاتا ہے۔ گزشتہ 220 سالوں میں وفاق اور آئین کو قائم رکھنے اور مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں امریکی سپریم کورٹ کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔
پاکستانی نظام عدل کی کارکردگی کے حوالے سے اس کا تقابل امریکا یا بھارت کی عدلیہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہمارے ہاں آئینی ارتقا کا عمل 9 سال (1956-1947) تک مختلف النوع وجوہات کی بنا پر مسائل و تعطل کا شکار رہا ہے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد افسر شاہی کو اپنی مرضی سے حکومت کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی، جب کہ بھارت میں 26 جنوری 1950 کو آئین نافذ ہوا اور 1952 میں پہلے عام انتخابات بھی ہوگئے۔
ادھر پاکستان ابھی تک آئین سازی کے گورکھ دھندے میں ہی پھنسا ہوا تھا۔ 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے اپنی مرضی کے مطابق حکومت کرنے کے لیے آئین ساز اسمبلی توڑ دی۔ اس وقت کی سندھ چیف کورٹ (ہائی کورٹ) نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا مگر فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے غیر آئینی فیصلے کو آئینی قرار دے کر ایک غلط روایت کی بنیاد رکھ دی۔
1956 کا آئین صرف ڈھائی سال ہی چل سکا۔ میجر جنرل سکندر مرزا نے اس آئین کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے 7 اکتوبر 1958 کو منسوخ کردیا۔ حالانکہ انھوں نے اس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا۔ انھوں نے اپنے حلف کی صریحاً خلاف ورزی کی۔ یوں ملک میں جنرل ایوب خان کا مارشل لا نافذ ہوگیا جو ان کے زوال تک قائم رہا۔ 1967 میں جنرل یحییٰ خان نے بھی اپنی آمریت قائم کی اور ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔
عدلیہ اور جمہوریت کی آزادی سوالیہ نشان بن گئی۔ بقیہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار آئے تو انھوں نے پارلیمنٹ میں موجود نمایندہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے طویل مشاورت کے بعد اتفاق رائے 1973 میں نیا آئین ملک کو دیا جس میں عدلیہ کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ 5 جولائی 1977 میں جنرل ضیاالحق نے شب خون مارا اور تیسری مرتبہ آئین معطل کرکے ملک میں مارشل لا لگا دیا اور عدلیہ کے اختیارات کو محدود کردیا۔جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1997کو جمہوریت کا بستر گول کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
آئین پھر معطل ہو گیا۔ عدلیہ کے ججز نے عارضی آئینی حکم (پی سی او) کے تحت حلف لیا اور صدر جنرل پرویز مشرف کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ آئین پاکستان میں جہاں چاہیں اپنی مرضی سے ترمیم کرسکتے ہیں۔ عدلیہ کے اس کردار نے انصاف، آئین اور قانون کی حکمرانی کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا۔
تاہم جب 2007 میں ایمرجنسی نافذ کر کے جنرل پرویز مشرف نے غیر آئینی اٹھایا اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر سنگین الزامات عائد کرکے انھیں گھر بھیجا گیا تو سپریم کورٹ نے انھیں تسلسل کے ساتھ بحال کرکے اپنی آزادی و خود مختاری کو کسی حد تک بحال کرلیا۔ پاکستان میں عدالتی نظام کے حوالے سے ہمیشہ سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
بعض آئینی معاملات اور مقدمات جب عدالتوں میں زیر بحث لائے گئے تو ان مقدمات کے فیصلوں نے ہماری سیاسی و آئینی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے جن کی بازگشت وقفے وقفے سے سنائی دیتی رہتی ہے جن میں مولوی تمیزالدین کیس، دوسو کیس، عاصمہ جیلانی کیس، نصرت بھٹو کیس، حاجی سیف اللہ کیس، نواز شریف کیس اور ظفر علی شاہ کیس خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
آج پاکستان میں 1973 کے آئین کے 50 سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی تقریبات منائی جا رہی ہیں۔ آئین کی پاسداری، اس سے وفاداری اور آئین کی عمل داری کے وعدے اور دعوے کیے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف سے لے کر وزرا کرام تک اور محترم ججز صاحبان سے لے کر وکلا برادری تک سب آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کی باتیں کر رہے ہیں ، لیکن آئین کی اس گولڈن جوبلی کے تاریخی موقع پر کیا ریاست کے تمام ستون آئین پاکستان 1973 کے مطابق اپنا اپنا کردار آئین میں طے کردہ دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ایمانداری، خلوص نیت اور فرض شناسی سے ادا کر رہے ہیں؟
بالخصوص قانون سازی کا آئینی اختیار رکھنے والا ادارہ یعنی پارلیمنٹ اور آئین کی تشریح کرنے کا استحقاق رکھنے والا ادارہ یعنی عدالت عظمیٰ اپنا اپنا آئینی کردار احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں؟ افسوس کہ اس سوال کا جواب ہاں میں دینا آسان نہیں۔حکومت اور عدلیہ میں پنجاب و کے پی کے میں 90 روز میں انتخابات کرانے کے حوالے سے باقاعدہ ایک محاذ آرائی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔
اسی قضیے کے حوالے سے ایوان عدل کے محترم ججز صاحبان میں بھی اختلاف رائے اور فیصلوں کے باعث ایک واضح تقسیم کا سامنے آنا پوری قوم اور اہل فکر و دانش کے لیے سخت تشویش کا باعث ہے۔آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانا حکومت کی ذمے داری ہے۔
عدالت عظمیٰ نے اس حوالے سے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا واضح حکم صادر کردیا ہے۔ لیکن حکومت 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے سے راہ فرار اختیار کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
کیا حکومتی طرز عمل آئین کے مطابق ہے؟ کیا حکومت کا عدالتی فیصلے کو واضح طور پر مسترد کرنا آئین کے مطابق ہے؟ کیا کابینہ اور پارلیمنٹ سے عدالتی فیصلے کے خلاف قراردادیں منظور کرانا آئین کے مطابق ہے؟ آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر اکابرین حکومت آئین کی پاسداری کے بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں اور دوسری طرف محاذ آرائی بھی جاری ہے۔