خودکار انجمنیں بے لوث کارکن

کراچی میں المدنی ٹرسٹ کے نام سے ایک خودکار انجمن قائم ہے جہاں تعلیم اور علاج مفت کیا جاتا ہے


Zuber Rehman April 20, 2014
[email protected]

چونکہ ریاست، صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہوتی ہے اس لیے وہ کیونکر محنت کشوں اور غریبوں کے لیے مددگار بن سکتی ہے۔ قدیم امداد باہمی یا پنچایتی نظام میں سارے فیصلے عبوری طور پرکیے جاتے تھے۔ سکے یا کرنسی کا وجود نہیں تھا۔ اس قسم کی کوششیں آج دنیا کے مختلف علاقوں اور خطوں میں کامیابی سے کی جا رہی ہیں۔ امریکا میں سبزی خوروں، ڈالر کو استعمال نہ کرنے والوں اور جنگلوں میں رہنے والوں کی بڑی تعداد ملے گی۔

ہندوستان میں آندھرا پردیش میں 35 لاکھ ایکڑ زمین پر اور میزو رام صوبے میں دیسی کھادوں سے کاشتکاری کی جا رہی ہے اور پیداوار بھی کیمیائی کھاد کے برابر ہے، سونے پر سہاگا کہ کینسر سمیت دیگر بیماریاں بھی ختم ہو رہی ہیں جب کہ بھارتی ریاست کیمیائی کھاد استعمال کرنے والوں کو ہی امداد فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں کشمیر کے زلزلوں اور تھر کے قحط کو روکنے کے لیے عوام ان کی مدد کر رہے ہیں جب کہ ریاستی کارندے ان امدادی اشیا کو اسٹاک کرتے ہیں اور بازار میں فروخت کرتے ہیں۔

کراچی میں المدنی ٹرسٹ کے نام سے ایک خودکار انجمن قائم ہوئی ہے جہاں تعلیم اور علاج مفت کیا جاتا ہے۔ اسے چلانیوالے ٹرسٹ کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر عبدالحئی المدنی ہیں۔ انھوں نے قانون کی ڈگری بھی لے رکھی ہے۔ ان کے 20 تحقیقی مضامین نہ صرف شایع ہوچکے ہیں بلکہ (HEC) ہائر ایجوکیشن کمیشن نے قابل تصدیق کہہ کر تسلیم کیا ہے۔ پروفیسر اپنی مدد آپ کی بنیاد پر ایک اسکول چلاتے ہیں جہاں نرسری سے میٹرک تک لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ ان طلبا سے معمولی فیس یعنی 50 سے لے کر 100 روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں لی جاتی۔

اس اسکول میں لائبریری بھی ہے جہاں طلبہ مطالعہ کرتے ہیں، یہاں ہر رنگ و نسل اور مذہب کے طلبا زیر تعلیم ہیں، مسلمان ہندو اور عیسائی بچے سب ساتھ پڑھتے ہیں۔ ڈسپینسری، میٹرنٹی اور اسپتال بھی ہے۔ اوسطاً 140 مریضوں کی روزانہ او پی ڈی ہوتی ہے۔ مریضوں کا چیک اپ، ٹیسٹ اور ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ ساری سہولیات صرف 20 روپے کے ٹوکن سے کی جاتی ہے۔ یہاں نیورو فزیشن، سرجیکل، پیتھالوجی، گائنی اور سونولوجسٹ ہیں اور پیتھالوجیکل لیب بھی ہے۔ اسپتال کا عملہ تقریباً تیس افراد پر مشتمل ہے۔ کراچی کے علاوہ میرپورخاص میں بھی ایک ڈسپنسری ہے جہاں بلاناغہ او پی ڈی چل رہی ہے۔

اسی طرح عوامی خدمات دو افراد تادم مرگ کرتے آرہے تھے۔ ان میںجو حال ہی میں ہم سب سے جدا ہوگئے، ان میں ایک حافظ نور محمد ہیں، حافظ نور محمد اپنی روح کی گہرائیوں سے ایک ایماندار، انقلابی اور بے غرض انسان تھے۔ انھوں نے 17 سال تک ناظم آباد اور سلائی مشین کی فیکٹری میں امامت کی لیکن وہ خود ٹیلر ماسٹر تھے اور معقول معاوضہ پر ہی کام انجام دیتے رہے۔ وہ 1973 کی ہشت نگر کی کسان تحریک کے حصے دار رہے اور خود بھی خانوں سے زمین کا ایک ٹکڑا قبضہ کیا تھا۔ وہ اشتراکی نظام کے زبردست حامی اور سرمایہ داری کے مخالف تھے۔ کراچی کا شاید ہی کوئی انقلابی ہو جو انھیں نہ جانتا تھا۔ وہ قرآن پاک کے صرف حافظ ہی نہیں تھے بلکہ ایک ذہین ترجمہ نگار بھی تھے۔

ایک بار میری کسی سے یہ نا خوشگوار بحث ہوگئی کہ اسلام میں طبقاتی نظام شروع سے ہے۔ حافظ صاحب سے پتہ کرنے پر انھوں نے بتایا کہ قرآن پاک میں یہ ہے کہ 'اصلی ضرورت سے زائد چیزیں ضرورت مندوں کو دے دو'۔ حافظ صاحب کا کسی بھی فرقے یا گروہ سے تعلق نہیں تھا۔ قول فعل کے اتنے دھنی تھے کہ شاید ہی اپنی زندگی میں اس کے خلاف ورزی کی ہو۔ ان کا آبائی گھر سوات میں تھا مگر گزشتہ 50/60 سال سے کراچی میں رہائش پذیر تھے۔ حافظ صاحب کو ہم لیکچر دلوانے کے لیے لیاقت آباد، گلشن حدید، سعودآباد، بلدیہ ٹائون، شاہ فیصل کالونی، رفاع عام سوسائٹی، لانڈھی، کورنگی اور اورنگی ٹائون غرضیکہ کراچی کی بیشتر آبادیوںمیں مدعو کیا، جس میں ہر مذہب، فرقے، زبان اور قومیت کے لوگ ہوتے تھے۔ حافظ صاحب نے کبھی بھی کسی فرقے یا مذہب پر تنقید نہیں کی۔

وہ سرمایہ دارانہ نظام کی وحشت اور بربریت کے مقابلے میں پاکستان میں ایک غیر طبقاتی نظام اور نجی ملکیت کے خاتمے کے زبردست حامی تھے، وہ عالمی اشتمالی نظام کے قیام اور نسل انسانی کو بھوک افلاس، غربت، جہالت، بے روزگاری، بے گھری اور لاعلاجی سے نجات دلانے کے لیے تادم مرگ جدوجہد کرتے رہے۔ وہ 5 فروری 1939 کو سوات میں پیدا ہوئے اور 17 دسمبر 2013 کو کراچی میں انتقال کرگئے۔اسی طرح کے ایک اور سماجی خدمت گار غنی بلوچ جو کہ شرافی گوٹھ کورنگی کے رہائشی تھے۔ ان کی زندگی پیچ و خم سے گزری۔ بلا کے جراتمند انسان تھے۔ غنی بلوچ نے اپنے دیگر اہل محلہ، رشتے داروں اور ساتھیوں سمیت شرافی گوٹھ میں اسکولوں کی تعمیر کے لیے اجتماعی جدوجہد کا آغاز کیا۔

اس سلسلے میں انھوں نے مظاہرے، پوسٹر، پمفلٹ، جلسہ، جلوس اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے مطالبات کرتے رہے۔ بہرحال مذاکرات ہوئے جس میں علی محمد ، رفیق احمد صدیقی، ذوالفقار حیدر صدیقی، نظام صاحب اور غلام حیدر بلوچ نے بھی شرکت کی اور آخرکار ایک پرائمری اسکول 14 لاکھ روپے میں اور ہائر سیکنڈری اسکول 1 کروڑ روپے کے بجٹ میں تعمیر ہوئے ۔ یہ اسکول ابھی بھی چل رہے ہیں بلکہ اس میں طلبا کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ آخری دنوں میں وہ پی پی پی کے کارکن کے طور پر کام کرتے تھے۔ اچانک ایک روز ٹارگٹ کلنگ میں 17 مارچ 2014 میں شہید ہوگئے۔ غنی بلوچ کی قربانی کو شرافی گوٹھ اور کراچی کے محنت کش عوام کبھی بھی بھلا نہیں سکیں گے۔

(نوٹ: ایک بے آسرا خاتون نے مدد کی اپیل کا خط بھیجا ہے، جس کا متن پیش خدمت ہے، ساتھ ہی مخیر حضرات سے مدد کی درخواست ہے۔ ''جناب اعلیٰ! گزارش یہ ہے کہ میں آنکھوں سے معذور بیوہ ہوں، میرا ایک 16 سالہ بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ میرا خاوند 15 سال قبل فوت ہوگیا۔ نہ میرا ذریعہ معاش ہے اور نہ رہنے کا گھر۔ 15 سال سے میں اپنی ضعیف ماں کے گھر میں رہ رہی ہوں۔ ماں کا بھی اپنا گھر نہیں ہے، یہ گھر بھی سیلاب میں بہہ گیا۔ اب میں گھروندے نما ٹینٹ لگے ہوئے گھر میں رہتی ہوں۔ میرے بچے دوسروں کے گھروں میں مزدوری کرکے روزی کما رہے ہیں۔

ایک کچا کمرہ اور برآمدہ تھا جو بارشوں سے گرگیا۔ ہمیں کوئی بے نظیر کارڈ، وطن کارڈ یا کوئی اور امداد نہیں ملی ہے۔ ہم انتہائی مشکلات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے ہر محکمے میں امداد کی درخواستیں دی ہیں لیکن ہماری کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی۔ میں نے نادرا سے آنکھوں کی معذوری کا کارڈ بھی بنوایا ہے جو آپ کو بھیج رہی ہوں۔ میری آپ کے توسط سے گزارش ہے کہ کوئی بھی مخیر حضرات میری اذیت سے بھری زندگی میں مددگار بن کے تعاون کرے۔ میں اس کی مشکور رہوں گی۔ بیوہ تسلیم، محلہ سردار خان گڑھی، اصحاب بابا پنجگی روڈ۔ پشاور، رابطہ نمبر 03139879729، 03348934683'')

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں