ماضی کے ایک چیف کا قصہ

کچھ تو قانونی رکاوٹیں ہیں کچھ رکاوٹیں ہم خود پیدا کر لیتے ہیں



وقت اور محفل کی بات ہے، کبھی بات کرنی مشکل ہو جاتی ہے اور کبھی بات کرنی اتنا آسان کہ ہر ایک باتیں بنانے پر کمر بستہ۔بہادر شاہ ظفر کا ایک شعر ضرب المثل کی طرح مشہور ہے ؎

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

بہادر شاہ ظفر کے بعد کئی زمانے بدلے، محفل کے تیور اور رنگ ڈھنگ بھی اسی مناسبت سے بدلتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد جب ایوب خان کا پہلا مارشل لاء لگا تو بھی محفل کا رنگ اچانک سے بدل گیا۔

ٹی وی ابھی پاکستان میں پہنچا نہ تھا، ریڈیو البتہ موجود تھا مگر سرکار کی خدمت اور توصیف پر مامور، لے دے کر اخبارات تھے جن کے ذریعے سرکار کے علاوہ کبھی کبھارکوئی دوسرا رخ پڑھنے کو ملتا۔ حکومت نے اپنے تئیں اس کا بھی سخت قوانین ، اشتہارات اور اخباری کاغذ کے کوٹے کے ذریعے بھرپور بندوبست کر رکھا تھا۔ تاہم کچھ سرپھرے حکومتی پالیسیوں پر تنقید سے باز نہ آتے ، اپنی گستاخ بیانیوں کی سزا بھی پاتے مگر کسی نہ کسی صورت میں بقول شخصے کلمہ حق کہہ جاتے۔

ہمیں ماضی کے یہ مناظر اس لیے یاد آئے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کئی بار یہ شکوہ کیا کہ اظہار رائے کی اس قدر پابندی تو مارشل لاء میں بھی نہیں تھی۔ ایک ٹویٹ بھی انھیں برداشت نہیں، ہمارے ساتھیوں نے تو فقط وہی بات کی جو خود نواز شریف اور مریم نواز بھی کر چکیں لیکن انھوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا۔

زمانہ حال میںسوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کی موجودگی میں بات کرنا اب مشکل نہیں رہا، محفل اب اس قدر بدل گئی ہے کہ بہادر شاہ ظفر جیسی مشکل شاذ ہی کسی کو لاحق ہو۔ بات کرنی اب اتنی آسان ہے کہ ایک زمانے میں چیف (افواج کا ہو یا اعلیٰ عدالت کا) کے بارے میں بات کرنے سے پہلے احتیاط کا یہ عالم تھا کہ جون ایلیاء کا شعر صادق آتا؛

آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے

تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں

اب تخاطب کے انداز بدل گئے ہیں، ہر سوشل میڈیا سورما اور مین اسٹریم میڈیا کا سرخیل دعوے دار ہے کہ سچ اور اس سچ کو سرِ دار کہنے کا حوصلہ بس اسی کے پاس ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ اب تو بات کرنا اس قدر آسان ہے کہ آپ نے کبھی عدالت کا منہ نہ دیکھا ہو لیکن بنچ کی تشکیل، اختلافی نوٹ اور فیصلوں پر دھڑلے سے ایکسکلیوسیو بات کر سکتے ہیں۔

ایوب خان کے مارشل لاء کے ابتدائی سالوں میں اختلافی بات کرنی مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف تھی۔ ان مشکل حالات میں ایک منحنی سے چیف نے اشارے کنائے اور مزاح کے الگ انداز میں بات کہنے کی نئی طرح ڈالی۔ جسٹس ایم آر کیانی کو ادب اور گفتگو کا اس قدر سلیقہ تھا کہ چوٹ بھی لگ جاتی اور حال دل پر آئی ہنسی کے باوجود سرکار کے عتاب کی نوبت بھی نہ آتی۔

ان کی تقاریر کی دھوم تھی، تقاریر کے یہ مجموعے بعد ازاں کتابی صورت میں چھپے اور بار بار چھپ کر ادبی تاریخ میں نیا باب رقم کر گئے؛ 'افکار پریشاں' اردو جب کہ دیگر کتابیں انگریزی زبان میں ہیں۔ جسے زبان اور بات کہنے کا مزہ لینا ہو اس کے لیے ان کی یہ کتابیں آج بھی زبان حال کا مزہ دیتی ہیں۔

جسٹس ایم آر کیانی1958-1962کے دوران مغربی پاکستان کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ موجودہ ماحول میں جہاں بات کرنا اس قدر آسان ہو چکا ہے، ان کے زمانے کا جبر بہتوں کو یاد بھی نہیں۔ یاد رفتگاں اور یاد ماضی کے طور پر ان کی بذلہ سنجی اور جبر کے ماحول میں بات کہنے کے ہنر کے چند نمونے پیش ہیں ...

سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس کون سی عدل و انصاف کی راہیں ہیں؟ کچھ تو قانونی رکاوٹیں ہیں کچھ رکاوٹیں ہم خود پیدا کر لیتے ہیں۔ جیسے کسی وکیل کو خوش کرنے کے لیے ہم حکم ِ امتناعی جاری کر دیتے ہیں۔ ایک شخص کا مقدمہ زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے خارج ہوا۔

اس نے کہا عدالت تو نہ ہوئی۔ میں نے تلخی سے جواب دیا، تلخی میرے دل میں تھی زبان پر نہ تھی اور تلخی کا سبب یہی تھا کہ میں بے اختیار تھا، میں نے کہا کون کہتا ہے کہ یہ عدل و انصاف کی جگہ ہے یہ تو کچہری ہے۔ آپ یقین جانئیے کہ میری عدالتی زندگی اس عدالت اور کچہری میں توازن پر صرف ہوئی۔ ہم ابھی تک عدل و انصاف کی پگڈنڈیوں پر چل رہے ہیں شاہراہیں تو ملی ہی نہیں ۔

آپ اگر اب تک مملکت قیاس میں ہیں تو کہے دیتا ہوں کہ میرا خطاب نوجوانوں اور عورتوں کی طرف اس لیے ہے کہ مردوں کو اس سے پہلے موقع مل چکا ہے کہ وہ اپنے کو ایک زندہ قوم بنائیں مگر جس طرح کسی کو شدت کی نیند آ رہی ہو اور وہ سارے کپڑے بدلنے کے بجائے صرف گلے کے قریب کا بٹن کھول کر سو جاتا ہے تاکہ گلا گھٹنے سے بچا رہے اور جو کچھ ہوتا ہے ہوتا رہے۔ اسی طرح مردوں نے اپنے نام کا ایک زبر ہی بدل دیا ہے اور زِیرو زَبر ہو کر مُردوں کی طرح پڑے رہے۔اب تک ان کو چودہ سال اور سات مہینے ہوئے ہیں (1947سے آج تک)۔

مجھے انتخابات کے زمانے کا قصہ یاد آ گیا۔ ووٹ ایک امیدوار کے پاس زیادہ تھے مگر سرکار دوسرے امیدوار کے ساتھ زیادہ تھی اور اس کے حق میں کھلم کھلا فرضی ووٹ ڈالے جا رہے تھے۔ انتخابات کی نگرانی ایک تحصیلدار کر رہا تھا۔ آزردہ امیدوار نے اس دھاندلی پر شکایت کی۔

تحصیلدار نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر سے شکایت کرو۔ امیدوار نے جواب دیا وہاں بھی شکایت کر چکا ہوں مگر کچھ نہیں بنا۔ تحصیلدار نے کہا چیف منسٹر کے پاس شکایت کرو۔ امیدوار نے کہا وہاں بھی شکایت کر چکا ہوں مگر کچھ نہیں بنا۔ تحصیلدار نے کہا تو کیا اتنے لوگوں میں ایک میں ہی آپ کو دیانت دار نظر آتا ہوں؟ میں نے آخر کیا قصور کیا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔