تائیوان پر یورپ میں پھوٹ
میکرون کا یہ مفروضہ حماقت پر مبنی ہے کہ یورپ خود کو اس جنگ سے محفوظ رکھ پائے گا
بڑی جنگوں کا باعث بننے والے حالات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود دنیا غیر محسوس انداز میں ایسی غیر معمولی صورتحال کی جانب سرکتی چلی جاتی ہے جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں ہوتی۔
ماضی میں عالمی جنگوں کا باعث بننے والے حالات سے ملتی جلتی صورتحال کے خدوخال ہمارے سامنے اُبھر رہے ہیں لیکن حالات کی سنگینی کا ادراک ہونے کے باوجود دنیا تصادم کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ گزشتہ صدی میں دنیا کو تاراج کرنے والی دو جنگوں سے قبل کے حالات میں پائی جانے والی مماثلت میں پہلی بات تو عالمی سطح پر معاشی واقتصادی ابتری ہے۔
اگر آج کے حالات دیکھیں تو پوری دنیا شدید معاشی بحران کی زد میں ہے۔ دوسرا اہم فیکٹر انتشار کی کیفیت تھی جس میں ریاستوں اور بلاکوں میں باہمی اعتماد تباہ ہوا اور دوریاں پیدا ہوئیں۔ پھر یہ ہوا کہ دونوں عالمی جنگوں سے قبل پرانے اتحاد ٹوٹے اور نئی عالمی گروپ بندیاں سامنے آئیں۔ دنیا بھر میں علاقائی تنازعات میں شدت آئی۔
1908 میں مراکش پر فرانس اور جرمنی کی کھینچا تانی نے برطانیہ اور جرمنی کے مفادات میں ٹکراؤ پیدا کیا نتیجے میں اسپین فرانس اور برطانیہ کے ساتھ آ ملا۔ اسی عرصہ میںآسٹرو ہنگیرین ایمپائر نے بوسنیا ہرزوگووینیا کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا جو سلطنت عثمانیہ کی عملدآری میں تھا، اس واقعہ نے بلقان کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔
1911 میں مراکش پر مختصر جنگ ہوئی اور مراکش فرانس کے ماتحت آگیا۔ یوں یورپ میں تناؤ مزید بڑھا بالخصوص برطانیہ اور جرمنی میں تناؤ شدید ہوا۔1911-12 اٹلی اور ترکی میں جنگ کے نتیجے میں شمالی افریقہ میں ترکی کو شکست ہو گئی۔
1912-13 آسٹرو ہنگیرین سلطنت کے خلاف سربیا روس کے قریب آ گیا جسے یورپ میں روس کی طاقت بڑھنے سے تعبیر کیا گیا۔ ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو گئی بالخصوص برطانیہ اور جرمنی کی بحری افواج نے مختصر عرصے میں غیر معمولی وسعت اختیار کی۔
دوسری عالمگیر جنگ کی سب سے بڑی وجہ پہلی جنگ عظیم خود تھی۔ پہلی جنگ کے بعد دنیا ایک نئے جمود کا شکار ہو گئی، اور اس درمیانی عرصہ میں بھی بڑی عالمی طاقتیں بحرانی کیفیت ہی سے دوچار رہیں۔ عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے بنائی گئی اُس وقت کی 'اقوام متحدہ' لیگ آف نیشنز مکمل طور پر بے عملی کا شکار ہو کر اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی۔
عالمی سطح پر وسائل اور عالمی منڈیوں پر تسلط جمانے کی دوڑ اپنے عروج پر تھی اور اس حوالے سے جاپان کی سلطنت سب سے تیزی کے ساتھ اُبھر کر سامنے آ رہی تھی جس نے دوسری عالمی طاقتوں کے لیے تشویش پیدا کر دی تھی۔ اس وقت دنیا ایک مرتبہ پھر شدید بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔
یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی کے بعد امریکی اور اس کے اتحادی کسی بھی صورت اس جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے اور یوکرین نے موسم بہار کے آغاز کے ساتھ ہی روس کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کا اشارہ دیا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ اس تازہ فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کہاں ہو رہی ہے۔
دوسری جانب اس سے بھی بڑا عالمی بحران آبنائے تائیوان میں متشکل ہوتا نظر آرہا ہے اور اس حوالے سے جو سب سے خطرناک بات ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ چین کے معاملے پر یورپی یونین میں گہری تقسیم ظاہر ہو گئی ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین اور چین کے صدر شی جن پنگ نے مارچ کے آخری ہفتے اسپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچیز سے بیجنگ میں ملاقات کی تھی۔ لیکن امریکا اور امریکا کے حامی یورپی حلقوں کی اس دورے سے وابستہ اُمیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ گزشتہ ہفتے فرانس کے صدر ایمانوعیل میکرون چین پہنچے۔ اس دورے میں یورپین یونین کے کمیشن کی صدر ارسلا فان لیین بھی ان کے ساتھ تھیں۔
امریکا اور امریکا نواز مغربی حلقے اس بات پر غضب ناک ہیں کہ دونوں یورپی رہنماؤں کی چین آمد اور مذاکرات میں جس شخص نے اپنے مقاصد میں شاندار کامیابی حاصل کی وہ صرف اور صرف چینی صدر 'شی جن پنگ' ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ دونوں یورپی رہنما روس کی یوکرین کے ساتھ جنگ سے لے کر معاشی تعلقات کے شعبوں تک کسی بھی معاملے میں ایسی رعایتیں حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
جن کی اس وقت یورپ کو ضرورت تھی بلکہ ان دوروں کے ذریعے یورپی رہنماؤں نے چینی صدر کا یورپ کو منقسم دکھانے کا اہم مقصد چاندی کی طشتری میں رکھ کر صدر شی کو پیش کر دیا ہے' یوں چین کے بارے میں یورپی پالیسی مکمل تنہائی کا شکار نظر آ رہی ہے۔
30مارچ کو یورپی کمشن کی صدر 'اُرسلا' نے برسلز میں تقریر کرتے ہوئے چین کو یورپ کی طرف سے سخت پیغام دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین داخلی طور پر شخصی آزادیوں کا گلہ گھونٹنے اور خارجہ تعلقات میں دھونس کی پالیسی پر گامزن ہے،
جو ملک چین پرانحصار کرتے ہیں چین انھیں بری طرح سے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ چین ایک ایسا ملک ہے جہاں صدر 'شی' امریکا سے ایک ایسی جارحانہ مقابلہ بازی کی طویل المیعاد منصوبہ بندی میں مصروف ہیں جس کا مقصد عالمی نظام کو اس طرح بدل دینا ہے۔ جس میں مرکزی حیثیت چین کو حاصل ہو جائے''۔
لیکن ابھی حال ہی میں فرانس کے صدر میکرون نے اپنے ساتھ چین کے دورے پر جانے والی یورپی کمیشن کی سربراہ کے پاؤں تلے سے قالین کھینچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
میکرون سے جب بیجنگ میں یہ سوال کیا گیا کہ ''تائیوان کے صدر سائی انگ' اور امریکا کے ایوان نمایندگان کے اسپیکر کیون میکارتھی کی ملاقات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو انھوں نے کہا، ''میں نہ تو تائیوان ہوں اور نہ ہی امریکا' تکلیف کو خوشی سے برداشت کرنے والے انسان کی طرح میں صرف اسی چیز پر بات کروں گا جس کا انحصار سیدھا مجھ پر ہے۔ ساری چیزوں کو آپس میں خلط ملط نہیں کرنا چاہیے''۔
جب میکرون چین سے روانہ ہو رہے تھے' تائیوان کے صدر اورامریکی ایوان نمایندگان کے اسپیکر کی ملاقات کے ردعمل میں چینی بحریہ نے تائیوان کو گھیرے میں لیتے ہوئے جارحانہ فوجی مشقیں شروع کر دی تھیں۔ اسے تجزیہ نگار یورپی یونین میں واضح تقسیم سے تعبیر کر رہے ہیں۔
میکرون نے وطن واپس پہنچتے ہی Politica Europe کو انٹرویو میں کہا ''تائیوان کے بحران کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں' یورپی ممالک کو اس معاملے سے دور رہنا چاہیے اور امریکا کے حواری نہیں بننا چاہیے''۔ یورپ کے امریکا نواز حلقے آستینیں چڑھا کر میدان میں کود پڑے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میکرون کا یہ مفروضہ حماقت پر مبنی ہے کہ یورپ خود کو اس جنگ سے محفوظ رکھ پائے گا۔ جو یورپ اپنے گھر کے دروازے پر جاری جنگ کو امریکا کی مدد کے بغیر نہیں سنبھال پا رہا وہ اس سے کہیں بڑی چین، امریکا جنگ کے نتائج سے خود کو کیسے بچا پائے گا۔