بار بار دیکھنے کی ہوس

دیوار تو گری ہے لیکن وہ دیوار گر کر بیٹھ نہیں گئی ہے بلکہ یہاں وہاں دوڑ کر بھگڈر مچائے ہوئے ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq April 16, 2023
[email protected]

ابھی تک ہماری سمجھ دانی میں یہ بات نہیں آرہی تھی، اس لیے حیران تھے، پریشان تھے، انگشت بدندان اور ناطقہ سر بہ گریباں تھے کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے، یہ ہر طرف انتخابات کے لیے اتنی ہاہاکارکیوں مچی ہوئی ہے، گویا الیکشن نہ ہوا کووڈ نائنٹین ہوگیا کہ سب ہی اس میں مبتلا ہو رہے ہیں جیسے اگر الیکشن فوراً نہیں ہوئے تو یہ دھرتی تھر تھرانے لگے گی اورکوئی بجلی کڑ ک کڑ ک کڑنے لگے گی۔

ہمالیہ بحر ہند میں ڈوب جائے گا، بحرالکاہل بحر اوقیانوس ہو جائے گا، ساری شمالی جنوبی برف پگھل کر دنیا کو جبہ جھیل بنا دے اور سارے سمندر بھاپ ، پھر بادل اور پھر برف بن کر قطبین پر جم جائیں گے۔

شور برپا ہے خانہ دل میں

کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

دیوار تو گری ہے لیکن وہ دیوار گر کر بیٹھ نہیں گئی ہے بلکہ یہاں وہاں دوڑ کر بھگڈر مچائے ہوئے ہے، الیکشن الیکشن الیکشن کر رہی ہے، سارے محکمے، سارے ادارے، سارا نظام بس اسی ایک نکتے پر مرتکز ہو چکا ہے، الیکشن الیکشن الیکشن یہاں تک کہ اس میں ملک کے مقدس ترین ادارے اور شخصیات بھی ملوث ہوگئی ہیں، عزت سادات بھی گئی، عزت گجرات بھی اورعزت خواتین وحضرات بھی۔

الیکشن تو ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں، نتائج بھی ایک جیسے نکلتے رہے ہیں اورمواقع بھی ایسے ہی ملتے رہے ہیں، نئے آتے رہے ہیں، پرانے جاتے رہے ہیں اور عوام کالانعام ہوتے رہے ہیں، وعدے پر وعدے تاریخ پہ تاریخ نعرے پر نعرے۔

تو آخر اس مرتبہ اس الیکشن میں کیا ہو جائے گا، یہی سوچتے سوچتے آخرکار جب ہماری سمجھ دانی نکتہ بلاسٹ پر پہنچی تو سوچا کہ دانائی دانشوری سے تو کام چلنے والا نہیں، ذرا جہالت کو آواز دیتے ہیں چنانچہ ہم نے اپنی کسانوں والی سمجھ دانی سے رجوع کیا تو بات سمجھ میں آگئی اور پھر آتی گئی کہ الیکشن کے لیے اتنا ''اتائولاپن'' کیوں؟

دیوانگی بے سبب نہیں غالب

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

صرف کاشتکار ہی یہ جانتے ہیں کہ جب کسی کھیت کو پانی لگا دیا جاتا ہے تو پھر کھیت کے ''سیراب'' ہونے تک پانی لگا رہنا چاہیے، اگر درمیان میں پانی روک دیا جائے اورکھیت آدھا سیراب ہو تو دوبارہ پورے کھیت کو نئے سرے سے پانی لگانا ہوگا، مطلب یہ کہ اگر پانی کا تسلسل ٹوٹ گیا تو پھر وہیں سے آبپاشی شروع نہیں ہوگی جہاں سے ٹوٹی ہوتی ہے بلکہ کھیت کی ابتدا ہی سے آبپاشی شروع کرنا ہوگی یعنی ''آدھی سیرابی'' رائیگاں چلی جائے گی، پہلے وہ آدھا سیراب کھیت آبپاش کرنا ہوگا، اس کے بعد باقی سوکھے کھیت کی باری آئے گی اور یہاں ایسا ہی کچھ ہو چکا تھا، ابھی کھیت پورا سیراب نہیں ہوا تھا کہ پانی روک دیا گیا اور آدھا کھیت سوکھے ہونٹ رہ گیا۔

حیف درچشم زدن صحبت یار آخر شد

روئے گل سیرندیدم و بہار آخر شد

(ہائے پلک جھپکتے ہی یارکی صحبت تمام ہوئی، ابھی میں نے پھول کو ٹھیک سے دیکھا بھی نہ تھا کہ بہار ختم ہوگئی، ابھی اس بہتی گنگا میں صرف ہاتھ بھگوئے تھے، نہانا باقی تھا، صرف ''پیا'' تھا، ابھی سارے بھانڈے برتن نہیں بھرے تھے)

داغ وارستہ کو ہم آج ترے کوچے سے

اس طرح کھینچ لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

ظاہر ہے کہ ''داغ وارستہ'' کو اس کوچے سے اس طرح کھینچ کر لانا غلط تھا، ظلم تھا، زیادتی تھی، ایسے میں اگر داغ وارستہ تڑپے نہیں، مچلے نہیں، چیخے نہیں، پکارے نہیں تو کیا کرے؟ آدھی پیاس، پوری پیاس سے زیادہ جان لیوا ہوا کرتی ہے، یقین نہ ہو تو جاکر کسی پیاس کا ہوکا لگنے والے سے پوچھئے۔

ہم تو بھئی انصاف کی کہیں گے اورداغ وارستہ کی طرف داری کریں گے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ آدھا کھیت سیراب ہونے اور درمیان میں پانی روکنے سے، اس کھیت پر کیا گزرتی ہے، فصل پر کیاگزرتی ہے اورکسان پر کیا گزرتی ہے ۔ہمارے خیال میں یہ بہت بڑی بے انصافی ہوئی ہے، آخر ان لوگو ں کو اتنی جلدی کیا تھی، تھوڑا سا صبر کر لیتے تو ان باری کے تجاروں کا کیا بگڑ جاتا، داغ وارستہ کو بھی اس کوچے میں پڑے رہتے دیتے جس طرح خود باریاں لگا کر اس کوچے میں چرتے ہیں لیکن ان کو شاید ڈر ہو گیا تھا کہ کہیں یہ بھی کمبل نہ ہوجائے اور اس مشہور مرض میں مبتلا نہ ہو جائے کہ ایک بار دیکھا ہے اور بار بار دیکھنے کی ہوس ہے کہ یہ کوچہ ہے ہی اتنا دل فریب اور پرکشش کہ

کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت

وہی نقشہ ولے اس قدر آباد نہیں

بہرحال وجہ یا وجوہات کچھ بھی ہوں، بچارے داغ وارستہ کو زبردستی اس کوچے سے کھینچ کر لایا گیا بلکہ تقریباً ڈنڈا ڈولی کر کے کھینچ لیا گیا۔

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بڑے بے آبروہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

ایسے میں اگر وہ دوبارہ اس کوچے میں جانے کے لیے الیکشن الیکشن کا وظیفہ نہ کرے تو کیا کرے بلکہ اگر انصاف کو تحریک دی جائے تو اس کے ساتھ داغ وارستہ سے بھی زیادہ بے انصافی کی گئی ہے، داغ وارستہ کو اس کے اپنے لوگ اس کوچے سے کھینچ لائے تھے لیکن اس کا معاملہ ایک پشتو شاعر نے بیان کیا ہے کہ

نن دشمنانو ستا کوسے نہ پہ راخکو راوستم

پہ روستو روستو پہ کتو مخکے پہ تلو راوستم

یعنی آج میرے دشمن تمہارے کوچے سے اس طرح کھینچ کر لائے ہیں کہ وہ مجھے آگے آگے کھینچ کر لارہے تھے اور میں پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہاتھا۔ ذرا اس منظر کو تصور میں لائیے کہ ایک بچارے کو یہ ظالم اس طرح کھینچ رہے تھے جیسے کسی لاش کو کھینچاجاتا ہے اورلاش بڑی حسرت سے پیچھے پیچھے دیکھ رہی ہو:

کچھ اس طرح سے اس نے اٹھائی اسد کی نعش

دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہوگئے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں