سعودی ایران تعلقات اور امریکی پریشانی
خطے میں تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے۔ شام سعودی عرب تعلقات 12سال بعد بحال ہو رہے ہیں
www.facebook.com/shah Naqvi
امریکا نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے نے ہمیں ہکا بکا کر دیا۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ولیم برنز نے سعودی حکام سے بات چیت میں بتایا کہ اچانک اس معاہدے کا سامنے آنا امریکا کے لیے باعث حیرانی ہے۔
یہ بات ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔ اس اچانک غیر متوقع صورتحال کے باعث امریکی خفیہ ادارے کے سربراہ کو غیر علانیہ سعودی عرب کا دورہ کرنا پڑا جس میں انھوں نے اس حوالے سے سعودی حکام سے بات چیت میں اپنی جھنجلاہٹ کا اظہار کیا۔ اسرائیل کا رد عمل تو واضح تھا کہ جس نے اس معاہدے کو اسرائیلی خارجہ پالیسی کی مکمل ناکامی اور اسے اسرائیل کے لیے تباہ کن قرار دیا۔
کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے سے اسرائیل مسلسل کوشش کر رہا تھا کہ عرب ملکوں کا اتحاد ایران کے خلاف قائم کیا جائے جس میں وہ بظاہر کامیاب بھی نظر آرہا تھا لیکن اس کی سب تدبیریں الٹ گئیں اور ایک ایسا اپ سیٹ ہو گیا جس نے پورے خطے اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ اس کی توقع کوئی بھی نہیں کر رہا تھا۔
تمام حالات گزشتہ کئی دہائیوں سے ایران مخالف چلے آرہے تھے۔ سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں جو معاہدہ ایران امریکا کے درمیان ہوا۔ امریکا نے مختلف حیلوں بہانے سے اس معاہدے پر عملدرآمد کرنے سے انکار کر دیا نہ صرف یہ بلکہ اپنے اتحادیوں فرانس جرمنی برطانیہ کو بھی اس معاہدے کی پاسداری سے اسرائیل کے دباؤ پر پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
امریکا ایران معاہدے پر اسرائیلی غم و غصہ اتنا شدید تھا کہ اسرائیلی صدر نے امریکا پہنچ کر اوباما سے ملنے سے انکار کرتے ہوئے کانگریس میں اس معاہدے کے ہونے پر امریکی انتظامیہ کی مذمت کی۔
کیا یہ معاہدہ اچانک ہوا۔ کوئی بھی چیز اچانک نہیں ہوئی۔ اس کے پیچھے دہائیوں کے حالات و واقعات ہیں۔ اس معاہدے کے پیچھے تنازعہ فلسطین ہے جس میں امریکا شعوری طور پر مسلسل ناکام چلا آرہا ہے۔
فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ اب تو ان مظالم کی انتہا ہو گئی، ان کے گھروں کو مسمار کرنا، ان کو ان کی آبادیوں سے جبری بے دخلی، زمینوں پر قبضے اور روزانہ انھیں قتل کرنا کوئی ایک ظلم ہو تو بیان کیا جائے۔
دوسرا ایرانی انقلاب کے بعد خطے میں مسلسل عدم استحکام ،سوچا سمجھا ایسا عدم استحکام ،جس نے خطے میں مذہبی جنونیت شدت پسندی اور دہشت گردی کو اپنی انتہا پر پہنچا دیا۔ سعودی ایران معاہدہ نہ صرف خطے میں استحکام لائے گا بلکہ شدت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوگا۔
خطے میں تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے۔ شام سعودی عرب تعلقات 12سال بعد بحال ہو رہے ہیں۔ ایران سعودی عرب دونوں ممالک کے وفود سفارت خانے کھولنے کے لیے جدہ اور ایران کے دورے کر رہے ہیں۔
جہاں ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا، حال ہی میں بیجنگ میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی جس میں سعودی وزیر خارجہ نے ایرانی وزیر خارجہ سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں یہاں پہنچنے کے لیے ایک لمبا سفر کرنا پڑا حالانکہ ریاض اور تہران کے درمیان صرف دو گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ اس معاہدے کے فوری یہ اثرات نکلے ہیں کہ یمن میں جنگ بندی اور امن کے لیے اومان کی ثالثی میں مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔
اس معاہدے کے اثرات نہ صرف مشرق وسطی پر مرتب ہوئے بلکہ اس کے اثرات باقی دنیا پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ وہ اس طرح کہ فرانس کے صدر نے حالیہ تین روزہ دورہ بیجنگ سے واپسی پر ایک انٹر ویو میں کہا ہے کہ یورپ کو تائیوان کے معاملے پر امریکا یا چین کسی کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے یورپی اتحاد کے اس تنازعہ میں شامل ہونے کا امکان ہے جس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ واضح رہے کہ ان کے اس بیان سے امریکا ناراض ہو سکتا ہے جب کہ یہ چین سے نمٹنے کے معاملے میں یورپی یونین کی تقسیم کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
فرانسیسی صدر نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ یورپی ممالک کے لیے " بدترین " چیز یہی ہوگی جب ہمیں یہ سوچنا پڑے کہ ہمیں لازمی طور پر امریکا کی پیروی کرنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یورپین کی اپنی خود مختار حکمت عملی ہونی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہمارے خیالات کہاں پر امریکا کے ساتھ ملتے جلتے ہیں تاہم خواہ یوکرین کا معاملہ ہو یا چین کے ساتھ تعلقات یا پابندیاں ہماری اپنی یورپی حکمت عملی ہونی چاہیے۔
فرانسیسی صدر نے کہا ہمیں ایک بلاک میں شامل ہو کر دوسرے بلاک کے خلاف لڑائی میں شامل نہیں ہونا چاہیے اور ان بحرانوں میں شامل نہیں ہونا چاہیے جو ہمارے اپنے نہ ہوں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ناقابل یقین یہ تاریخی تبدیلی ہے کہ یورپ امریکی مفادات کے لیے جنگ کا ایندھن نہیں بننا چاہتا۔ یہی کچھ سعودی عرب نے امریکا کے ساتھ کیا ہے کہ اس نے ایران کے خلاف امریکی اسرائیلی جنگ کا ایندھن بننے سے صاف انکار کر دیا۔
مکمل سورج گرہن کے اثرات 14اپریل سے شروع ہو چکے ہیں۔
20اپریل کو جب یہ گرہن لگے تو عدالتی آئینی سیاسی بحران اپنے تباہ کن اثرات ظاہر کرنا شروع کر دے گا۔