نواز شریف و فیملی کی مکہ مدینہ میں حاضری
امکانات یہی ہیں کہ نواز شریف کا یہ دَورۂ دوحہ پاکستان کے لیے مالی اعانت کا موجب بھی بن جائے
جناب محمد نواز شریف اِن دنوں مکہ و مدینہ کی معطّر ومنوّر فضاؤں میں ہیں ۔ لندن سے اُن کے صاحبزادگان بھی آئے ہیں ۔
پاکستان سے نواز شریف صاحب کی بڑی صاحبزادی اور نون لیگ کی سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر ، محترمہ مریم نواز ، بھی اپنے والد گرامی کی چھاؤں میں پہنچ چکی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ، مریم نواز شریف کے ساتھ اُن کے شوہر ( محمد صفدر)، بیٹا ( جنید صفدر)، بہو ( عائشہ سیف)، بیٹیاں (ماہ نور اور مہر النسائ) اور ڈاکٹر عدنان ( نواز شریف صاحب کے ذاتی معالج)بھی ہیں ۔ جدہ ائر پورٹ پر حسن نواز شریف نے اپنی ہمشیرہ اور دیگر کا استقبال کیا۔
جناب نواز شریف جب لندن سے مکہ مدینہ کے دلکشا سفر کے لیے روانہ ہُوئے تو ہیتھرو ائر پورٹ پر موجود اخبار نویسوں نے پوچھا تھا: '' جناب، آپ چھ سال بعد عمرہ ادائیگی کے لیے سعودی عرب روانہ ہوتے ہُوئے کیا محسوس کررہے ہیں؟۔'' اس پر نواز شریف نے منظم و محتاط لہجے میں مختصر سا جواب دیا:'' اللہ سے دُعا کریں۔''
جناب نواز شریف اور اُن کی فیملی کو سعودی عرب کے فرمانروا، جناب شاہ سلمان بن عبد العزیز، نے خصوصی دعوت پر مکہ مدینہ میں حاضری کے لیے مدعو کیا ہے۔
اِس خاص دعوت ہی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اقتدار اور اختیار سے دُور ہونے کے باوجود سعودی شاہی خاندان نواز شریف کو اپنے دل کے کتنا قریب رکھتا ہے۔ اُدھر مریم نواز صاحبہ مکہ مدینہ روانہ ہو رہی تھیں، اور اِدھر محترمہ کی حریف سیاسی قوتیں اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک وڈیو انٹرویو کلپ( کسی بی ایم ڈبلیو گاڑی بارے) لیک کررہی تھیں ۔
جنھوں نے یہ آڈیو لیک کی ہے، وہ اب وضاحتوں میں کہہ رہے ہیں کہ ''ہم نے تو مریم نواز صاحبہ کے استفسار پر انھیں بتایا تھا کہ یہ گفتگو ریکارڈ نہیں ہو رہی ۔'' بباطن مگر سب کچھ ریکارڈ ہو رہا تھا۔
کیا محترمہ مریم نواز اب مذکورہ صحافی اور اُن کے ادارے کی وعدہ خلافی کا نوٹس لیں گی؟ اِس Leake وڈیو کلپ نے یقیناً جناب نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کو پریشان کیا ہوگا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے مختلف قوتیں کیسے کیسے گھناؤنے کھیل کھیل رہی ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے حریف کی کمزوریوں کی تاک میں ہے !
جناب نواز شریف اپنی فیملی کے ساتھ رمضان شریف کا رحمتوں و مغفرتوں بھرا آخری عشرہ مکہ مدینہ کی رُوح پرور فضاؤں میں گزار رہے ہیں۔ انھوں نے سعودی شاہی خدام و شاہی محافظوں کے حصار اورشاہی پروٹوکول میں اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ اداکیا ہے۔
ممکن ہے اِن سطور کی اشاعت تک وزیر اعظم جناب شہباز شریف بھی حرمین الشریفین میں حاضر ہو چکے ہوں۔ پاکستان کے سیاسی، عدالتی اور معاشی حالات ایسی شکل اختیار کر چکے ہیں کہ شہباز شریف کا اپنے برادرِ بزرگوار سے ملنا انتہائی ناگزیر ہے۔
ہماری اتحادی حکومت بھی سعودی عرب کی جانب آس اُمید بھری نظروں سے تک رہی ہے؛ چنانچہ ممکن ہے دونوں بھائیوں کا سعودی شاہی خاندان سے یہ قریبی رابطہ پاکستان کے لیے مزید ثمر آور ثابت ہو۔ رمضان کے بعدجناب نواز شریف دوحہ بھی جانے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ جہاں وہ قطری حکمرانوں سے تفصیلی ملاقات کریں گے۔
امکانات یہی ہیں کہ نواز شریف کا یہ دَورۂ دوحہ پاکستان کے لیے مالی اعانت کا موجب بھی بن جائے۔ نواز شریف ابھی مکہ مدینہ ہی میں ہیں کہ یو اے ای و سعودیہ نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروا دی ہے کہ وہ پاکستان کو ایک، ایک بلین ڈالر فراہم کرنے جارہے ہیں۔آئی ایم ایف نے سعودیہ و عرب امارات کی امداد کا خیر مقدم تو کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر دیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کو مزید تین ارب ڈالرز کی یقین دہانیاں کرائے۔
لاریب سعودی عرب پاکستان کا قریبی، معتمد اور برادر اسلامی ملک ہے۔ فیاضی کے ساتھ اس نے ہمیشہ پاکستان کا ہر میدان میں ساتھ دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق24لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔ان کی بھیجی گئی زرِمبادلہ رقوم پاکستان کی مالیات کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔سعودی عرب میں مقیم ان محسن پاکستانیوں کا ہمیں اجتماعی طور پر شکر گزار بھی ہونا چاہیے۔
افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ پچھلے ساڑھے تین برسوں میں پاکستان کے 4 سفیر صاحبان (خرم راٹھور،جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر، ایڈمرل ریٹائرڈ خان ہشام اور علی اعجاز جنجوعہ) وقتِ مقررہ سے قبل ہی سعودی عرب سے پاکستان واپس بلا لیے گئے۔ جب کہ پاکستان میں سعودی عرب کے محترم سفیر صاحبان اپنی سفارتی مدت پوری کرنے پر واپس بلائے جاتے ہیں۔ہماری وزارت ِخارجہ اور ہر پاکستانی حکومت کو سعودی عرب سے اس ضمن میں درس لینے کی ضرورت ہے۔
اب شنید ہے کہ احمد فاروق صاحب کو سعودی عرب میں پاکستان کا نیا سفیر متعین کیا گیا ہے۔ شریف فیملی عمرہ کے لیے سعودی عرب میں موجود ہے ؛ چنانچہ احمد فاروق کے لیے یہ پہلا سفارتی امتحان ہو سکتا ہے۔ مبینہ طور پر فاروق صاحب سے قبل سفیر صاحب بارے متعدد شکایات سامنے آئی تھیں کہ موصوف سعودی عرب میں بیٹھ کر اپنے ممدوح اور سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کے لیے (سعودی رائل فیملی میں)راستے ہموار کر رہے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
جناب محمد نواز شریف ایسے حساس ایام میں مکہ مدینہ پہنچے ہیں جب مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب سمیت حالات تیزی سے اپنا رنگ ڈھنگ بدل رہے ہیں۔
چین نے نہائت خاموشی مگر پھرتی سے سعودی عرب اور ایران میں صلح کروا دی ہے ۔ یہ دراصل عالمی سفارتی میدان میں امریکا کے خلاف چین کی شہ مات کہی جا رہی ہے۔6اپریل2023 کو چینی دارالحکومت، بیجنگ، میں سعودی و ایرانی وزرائے خارجہ ( شہزادہ فیصل بن فرحان و حسین امیر عبداللہیان) نے ایک دوسرے کے لیے مسکراہٹیں بکھیرتے ہُوئے ملاقات بھی کی ہے۔ ایران حج سے قبل جدہ میں اپنا سفارتخانہ کھولنا چاہتا ہے۔
سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سفارتی وفد بھی تہران پہنچا ہے تاکہ ایران میں گزشتہ 7 سال سے بند سعودی سفارتخانہ اور قونصلیٹ پھر سے بروئے کار آ سکیں۔ سعودی عرب اور ایران کے پس منظر میں چین کے اس عالمی اقدام پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کو قدرے شکست کا احساس بھی ہو رہ ہے۔
چنانچہ بد گو یہ کہتے بھی پائے جا رہے ہیں کہ چین کی اس کامیاب Mediation سے سعودیہ اور امریکا کے درمیان فاصلے کچھ بڑھ سے گئے ہیں۔ روشن خیال اور متحرک سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان، اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ خوب مہارت اور دانشمندی سے امریکی چالوں اور سوچ سے نمٹ رہے ہیں۔ شہزادہ ایم بی ایس کی کامیاب پالیسیوں کے کارن سعودیہ اور یمن کے درمیان سفید پرچم بھی لہرانے لگا ہے۔
جناب نواز شریف اپنی فیملی کے ساتھ ایسے موقع پر سعودی شاہی دعوت پر مقدس و معظم حرمین الشریفین پہنچے ہیں جب بھارت مقبوضہ کشمیر( سری نگر) میں جی 20 کانفرنس کروانے پر کمر بستہ ہے تاکہ کشمیر کی متنازع حیثیت کا خاتمہ کر سکے۔
ایسا مگر ہو نہیں سکے گا۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ سری نگر میں یہ عالمی کانفرنس منعقد کروا کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات معمول پر ہیں ۔ پاکستان نے بھارت کی اِس تجویز کو سرے ہی سے مسترد کر دیا ہے۔ امکانات یہ بھی ہیں کہ سعودی عرب میں نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف اکٹھے ہو کر سعودی حکمرانوں کو کشمیر بارے بھارتی بد نیتیوں اور عزائم سے بھی آگاہ کر سکیں گے ۔