سراج الحق کا سیاسی مفاہمتی مشن
یہ اعزاز بھی اب صرف سراج الحق کے پاس ہی رہ گیا ہے کہ وہ دونوں طرف ملاقاتیں کر سکتے ہیں
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک دفعہ پھر سیاسی تنازعہ کا حل ڈھونڈنے کے لیے سیاسی مفاہمت کا عمل شروع کیا ہے۔ اس مفاہمت کے لیے انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم عمران خان سے الگ الگ ملاقات کی ہے۔
ویسے یہ اعزاز بھی اب صرف سراج الحق کے پاس ہی رہ گیا ہے کہ وہ دونوں طرف ملاقاتیں کر سکتے ہیں۔ ورنہ اب تو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ بھی اس پوزیشن میں نہیں رہیںکہ دونوں طرف ملاقاتیں کر سکیں اور دونوں کے درمیان کوئی مفاہمت کراسکیں، اس لیے کم از کم سراج الحق واحد سیاستدان رہ گئے ہیں جو ابھی تک دونوں طرف قابل قبول ہیں۔
بہر حال یہ سوال اپنی جگہ موجو دہے کہ کیا سراج الحق نے مفاہمت کرانے میں دیر کر دی ہے؟ کیا تنازعہ اس قدر بڑھ نہیں گیا ہے کہ اب مفاہمت کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟ لیکن سیاست نا ممکن کو ممکن بنانے کا کھیل ہے۔ کہتے ہیں سیاست میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ہے۔ سیاست میں ہر وقت مسائل کا حل اور بند گلیوں میں راستے موجود رہتے ہیں۔ لیکن سیاست ٹائمنگ کا بھی کھیل ہے۔ کیا اب کھیل جس جگہ پہنچ گیا ہے، وہاں اب مفاہمت اور درمیانی راستے کی کوئی گنجاش ہے؟
سراج الحق کی ملاقاتوں کے بعد عمران خان اور حکمران اتحاد نے مذاکرات کے لیے لوگ نامزد کر دیے ہیں۔ لیکن میرا سوال پھر یہی ہے کہ کیا مفاہمت ممکن ہو سکے گی؟ عمران خان صرف انتخابی تاریخ پر بات کرنا چاہتے ہیں جب کہ حکمران اتحاد اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ان کا موقف ہے کہ عمران خان کے ایجنڈے پر بات نہیں ہو سکتی، اس لیے اگر بات ہوگی تو غیر مشروط ہو گی۔ پیشگی شرط کے ایجنڈے پر بات نہیں ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ سراج الحق اس ڈیڈ لاک کو کیسے توڑیں گے؟ دوسرے درجے کی قیادت کے درمیان مذاکرات کوئی بڑی بات نہیں۔ پہلے بھی ایسے مذاکرات ہوتے رہے ہیں، بیک چینل پیغام رسانی بھی ہو جاتی ہے۔ مسئلہ عمران خان کا ہے۔
وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی دوسرے درجے کی قیادت سے کام نکلوالیں، انھیں خود نہ تو ساتھ بیٹھنا پڑے اور نہ ہی کسی مذاکرات میں وہ شریک ہوں۔ماضی میں ایسا بھی ہوا کہ جب عمران خان کی دوسرے درجے کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ کچھ طے ہو جائے تو عمران خان اسے ویٹو کر دیتے ہیں۔ اس لیے عمران خان کی مذاکراتی ٹیم کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ہوتا، اس لیے ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ سراج الحق کی بڑی کامیابی یہ ہو سکتی ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کی دوسرے درجے کی قیادت کو اکٹھا بٹھانے کے بجائے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اکٹھے بٹھانے کی کوئی راہ نکالیں۔ماضی میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ جب مرکزی قیادت اکٹھے بیٹھتی ہے تو کوئی نہ کوئی راستہ اور مفاہمت ممکن ہو جاتی ہے۔ جب 2014میں سراج الحق نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا ۔
تب بھی بڑا بریک تھرو اس وقت ہوا تھا، جب عمران خان سانحہ اے پی ایس کے بعد عمران خان اور نواز شریف اے پی سی میں اکٹھے بیٹھ گئے تھے۔ نیشنل ایکشن پلان بھی بن گیا تھا اور دھرنا بھی ختم ہو گیا تھا۔ اس لیے آج بھی سب کو اکٹھا بٹھانا ہی اصل مسئلہ ہے۔ جب سب اکٹھے بیٹھ جائیں گے تو مسائل کا خود بخود حل نکلنا شروع ہو جائے گا۔
اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن عمران خان سے بات کرنے بالکل حق میں نہیں ہیں۔ ان کے بغیر حکمران اتحاد کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔
ان کا موقف اتنا سخت ہے کہ حکومت جاتی ہے تو چلی جائے لیکن عمران خان سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ کیا سراج الحق مولانا فضل الرحمٰن کو عمران خان سے بات چیت کے لیے منا سکتے ہیں؟ اسی طرح نواز شریف بھی بات چیت کے حق میں نہیں ہیں، انھیںکون منائے گا، ان کا موقف بھی یہی ہے کہ حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن عمران خان سے بات نہیں ہوگی۔
ادھر عمران خان کا پہلے دن سے یہی موقف رہا ہے کہ وہ ان سے ملاقات نہیں کریں گے۔ نہ ملنے اور بات نہ کرنے کی روائت عمران خان نے ہی ڈالی ہے جس کا آج وہ شکار ہیں۔ اس لیے جب تک مرکزی قیادت اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ بات طے نہیں ہو سکتی۔
اگر جماعت اسلامی عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس بلاتی ہے تو حکومت کا ایک وفد اس میں شریک ہو جائے گا۔ عمران خان کا بھی ایک وفد شریک ہو جائے گا، دونوں کے درمیان بات ہو جائے گی، پھر دونوں وفود کہیں گے، ہم اپنی مرکزی قیادت سے بات کرنی ہے اور یوں یہ مذاکراتی نشست ختم ہو جائے گی۔ اس لیے جب تک مرکزی قیادت خود نہیں بیٹھے گی، بات ختم اور طے نہیں ہو سکتی۔
جب نواز شریف بطور وزیر اعظم چل کر بنی گالہ جا سکتے ہیں تو عمران خان کو بھی خود چل کر جانے کی سیاسی ہمت دکھانی ہوگی، ایک دوسرے کی نفی کر کے کوئی حل نہیں نکل سکتا۔ ایک دوسرے کو ختم کرنے کی سیاست نے ہمیں آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ انتخابات سے پہلے سراج الحق کو تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک نئے چارٹر پر بات شروع کرانی چاہیے جس میں ایک دوسرے کو تسلیم کرنا بنیادی شرط ہو۔ تحریک انصاف کو باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ نئے چارٹر پر بات کرنی چاہیے۔
محض انتخابات کی واحد شرط پر مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں، جب تک گالم گلوچ بند نہیں ہو گی تب تک بات چیت کے نتائج نہیں آسکتے۔ یہ ممکن نہیں کہ گالم گلوچ بھی جاری رہے اور مذاکرات بھی ہوں، بات چیت کے لیے سازگار ماحول بنیادی شرط ہے۔
سراج الحق خود گالم گلوچ کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی لیے ان کے سیاسی مخالفین بھی انھیں ملنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسود نہیں کرتے۔ وہ تنقید کرتے ہیں لیکن تنقید اخلاقیات کے دائرے میں ہوتی ہے۔ دلیل کے ساتھ ہوتی ہے۔ انھیں یہ بات سب سیاستدانوں کو سمجھانی ہوگی۔ سیاست میں گالم گلوچ ختم کرنا ہوگی جو بھی گالی دے گا ، اس کی سزا ہونی چاہیے۔ سب کو مل کر سزا طے کرنی چاہیے۔
آپ مقدمات عدالتوں میں لڑیں جب تک کوئی مجرم ثابت نہ ہو جائے، اسے بدنام نہ کیا جائے، بدنام کرنے کی سیاست نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔اگر عمران خان چارٹر آف اکانومی پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہ ہوجائیں تو حکمران اتحاد کے لیے بات کرنا آسان ہو جائے گا۔ پھر انتخاب پر بھی بات ہو جائے گی۔
آج عمران خان کے ساتھ سراج الحق کے سوا کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ عمران خان نے سراج الحق کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کیا ہوا۔ لیکن سراج الحق نے پھر بھی تعلقات خراب نہیں کیے ہیں۔ اب عمران خان کو بھی سراج الحق کے ساتھ تعلق کی قدر کرنی چاہیے۔ اس مشکل وقت میں جماعت اسلامی نے عمران خان کو بند گلی سے نکالنے کی کوشش شروع کی ہے۔