مفاہمت اور مذاکرات کے امکانات
جماعت اسلامی کی قیادت کو بخوبی اندازہ ہے کہ موجودہ سنگین سیاسی حالات میں مفاہمت کے بغیر کسی کو بھی کچھ نہیں مل سکے گا
محاذ آرائی اور شدت پسندی یا ایک دوسرے کی عدم قبولیت سے باہر نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات اور مفاہمت کی سیاست ہے ۔سیاست اور جمہوریت کی بنیادی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ بد سے بد تر حالات میں بھی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا راستہ دیتی ہے۔
اس وقت قومی سیاست مفاہمت اور ٹکراؤ کے درمیان کھڑی ہے۔ ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرنا اور سیاسی اختلافات کو دشمنی میں تبدیل کرنے کے عمل نے ریاست کو کمزور کیاہے ۔یہ بنیادی نوعیت کا سوال زیر بحث ہے کہ کیا حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری ٹکراؤ میں کہیں کوئی مفاہمت سامنے آسکے گی ؟
کچھ لوگوں کے بقول حکومت اور حزب اختلاف میں مفاہمت کے امکانات بہت کم ہیں، اس لیے یہ کوئی معمولی نوعیت کا بحران نہیںہے ۔ایسے میں غیر معمولی اقدامات کو ہی بنیاد بنانا ہوگا۔اس کے لیے بنیادی شرط سازگار ماحول قائم کرنا ہے ۔ مسئلہ مسائل سے زیادہ ذاتی انا پرستی، اپنی سوچ اور فکر کو بالادستی دینا بھی ہے ۔یعنی جب ہم آئین , قانون اور جمہوری اصولوں کے مقابلے میں اپنی ذاتی ی خواہشات یا مفاد کو ترجیح دیں گے تو پھر مفاہمت پیچھے رہ جاتی ہے ۔
اس وقت تین نوعیت کے ٹکراو ہیں ۔ اول تیرہ سیاسی جماعتیں حکمران اتحاد میں کھڑی ہیں اور دوسری طرف عمران خان اور ان کے حمایتی ہیں ۔دوئم حکومت اور عدلیہ کے درمیان تناؤ ٹکراؤ ہے ۔ بدقسمتی سے چیف جسٹس اور دیگر ججز کے درمیان بھی تقسیم اور ٹکراؤ نظر آتا ہے ۔
سوئم پی ٹی آئی یا عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول ہے۔ اس لیے بحران اور ٹکراؤ محض سیاست تک محدود نہیں بلکہ اس میں ریاستی ادارے بھی متاثر ہورہے ہیں لہذا مفاہمت کا یہ عمل کوئی آسان کام نہیں ہے ، مگر یہ مفاہمت ناممکن بھی نہیں ۔ سیاست ممکنات کا ہی کھیل ہوتا ہے جہاں ناممکن کو ممکن بنانا ہی اہم سمجھا جاتاہے اور اس کے لیے سیاسی کمٹمنٹ او رسیاسی مخالفین کے لیے درمیانی راستہ رکھنا ہوتا ہے ۔
عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نواز شریف ، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، وہ کہتے ہیں ان سے کبھی مذاکرات نہیں کریں گے ۔
عمران خان کا یہ سخت گیر موقف درست نہیں اور سیاست دانوں کو برے سے برے حالات میں بھی اور مختلف جماعتیں یا قیادت کی عدم قبولیت کے باوجود مفاہمت کا راستہ کھلے رکھنا ہوتا ہے ۔ اب مسلم لیگ ن اورجے یو آئی عمران خان کے ساتھ مذاکرات کے مخالف ہیں او ران کے بقول ایسا کرنا عمران خان کو سیاسی راستہ دینے کے مترادف ہوگا جو ان کوقبول نہیں۔
پیپلز پارٹی مفاہمت کی سیاست کو زیادہ بہتر طو رپر سمجھتی ہے اور وہ چاہتی بھی ہے کہ مفاہمت کا عمل آگے بڑھے مگر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں جاری محاذآرائی اس حد تک آگے بڑھ گئی ہے کہ معاملات درست نہیں ۔آصف زرداری نے مفاہمت کی بات کی ہے مگر عمران خان ان پر نہ تو زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی مدد سے مفاہمت کے لیے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے مفاہمت کیسے ہوگی اور کون اس میں بنیادی کردار ادا کرے گا، خود سوالیہ نشان ہے۔عدلیہ او ر اسٹیبلیشمنٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ان سیاسی حالات میں فریق ہیں ۔
ایک مفاہمت کی کوشش جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کی ہے ۔ جماعت اسلامی کی قیادت کو بخوبی اندازہ ہے کہ موجودہ سنگین سیاسی حالات میں مفاہمت کے بغیر کسی کو بھی کچھ نہیں مل سکے گا۔سراج الحق , لیاقت بلوچ او رامیرالعظیم نے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف سے تفصیلی ملاقات کی اور پھر ایک ملاقات عمران خان کے ساتھ کی ہے۔ جماعت اسلامی کا اس مفاہمت میںایجنڈا واضح ہے۔
اول اس ایجنڈے کی بنیاد میں عملی طور پر سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ یا سیاسی کشیدگی کے خاتمہ کے لیے ماحول بنانااور ان فریقوں کو مزاکرات کی میز پر بٹھانا, دوئم دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے مقابلے میں پورے ملک میں جنرل الیکشن کے وقت اور فریم ورک پر اتفاق پیدا کرنا او رانتخابی عمل کی شفافیت کو بنیاد بنا کر کچھ بڑے فیصلے کرنے ہونگے۔
سراج الحق اور جماعت اسلامی اس وقت سیاسی محاذ پر ایک ایسے راستے پر کھڑی ہے جہاں وہ ان دونوں بڑی سیاسی قوتوں یعنی پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی عمران خان سے مفاہمت میں ایک پل کا کردار ادا کرسکتی ہے۔
اگر واقعی ملکی سیاسی محاذ پر سراج الحق مفاہمت کی طرف کوئی بڑی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ نہ صرف سیاست بلکہ ریاستی بحران کے بھی خاتمہ میں کلیدی کردار اد ا کرسکتی ہے۔ لیکن اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ فریقین مفاہمت چاہتے ہیںتو پھر ان کوسراج الحق او رجماعت اسلامی پر بھی اعتماد اور بھروسہ کرنا ہوگا۔
اس وقت دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی اورپی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں اس بنیادی نقطہ پر متفق ہیں کہ ملک میں عام انتخابات ہی ہونے چاہیے اور یہ اکتوبر میں ممکن ہیں ۔
تحریک انصاف فوری طو رپر عام انتخابات چاہتی ہے ۔ فوری طو رپر اگر عام انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے تو یہ جون جولائی سے پہلے ممکن نہیں ۔ اس کا مطلب عام انتخابات سے تین ماہ پہلے انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔اس فیصلے سے یہ ابہام بھی ختم ہوجائے گا کہ حکومت اس برس 2023میں بھی انتخابات کے لیے تیار نہیں۔
اس لیے عمران خان کو صوبائی انتخابات اور وفاقی حکومت کو عام انتخابات کے کھیل میں اپنی اپنی سیاسی ضد سے باہر نکلنا ہوگا۔لیکن اگر عام انتخابات پر اتفاق نہیںہوتا تو پھر صوبائی انتخابات کا انعقاد آئینی سطح کی ضرورت ہے او راس سے انکار محض سیاسی ہی نہیں بلکہ آئینی بحران کو بڑھانے کا سبب بنے گا۔
سراج الحق سمیت جو بھی فریق مفاہمت او رمزاکرات کی حمایت کررہا ہے اس کو یہ بنیادی شرط بھی سمجھنی ہوگی کہ پہلے سازگار حالات کو قائم کیا جائے ۔ یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ایک طرف مفاہمت یا مزاکرات کی بات ہو تو دوسری طرف پی ٹی آئی کی بڑی قیادت سمیت سیاسی کارکنوں پر درجنوں کے حساب سے دہشت گردی کے مقدمات اور گرفتاریاں ہوں یا ان کو دیوار سے لگایا جائے تو ایسے پھر مزاکرات او رمفاہمت کا عمل پیچھے رہ جائے گا۔
اسی طرح دونوں اطراف سے سخت گیر اور ٹکراؤ کے حامیوں کے مقابلے میں سیاسی سمجھ بوجھ اور مفاہمت کی خواہش رکھنے والے افراد کو فوقیت دی جائے تو یہ لوگ مفاہمت کا راستہ نکال سکتے ہیں وگرنہ ٹکراؤ کی سیاست سب کو مزید تباہی میں بہا لے جائے گی اور ہم سب اس کے ذمے دار ہوںگے ۔