ایس ایم ظفر صاحب کی باکمال کتاب دوسری قسط

مسلمانوں کااتفاق اور اجماع اگر کسی اور شخص پر ہوتا تو خلافت کا حقدار وہ قرار پاتا


[email protected]

ایس ایم ظفر صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ نبی کریمؐ کی زندگی میں مشاورت کے لیے مجلس شوریٰ یا کسی باقاعدہ ادارے کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ آسمانوں سے رہنمائی ملنے کا سلسلہ قائم تھا اور تعبیروتشریح کے لیے خود رسول اللہؐ موجود تھے۔

آپؐ نے اپنی جانشینی کے بارے میں بھی کوئی حکم اور ہدایت نہیں دی۔ اِس میں کیا مصلحت پوشیدہ تھی، اس بارے میں مصنف نے معروف اسکالر ڈاکٹر حمیداللہ کی کتاب سے ایک پیراگراف نقل کیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں، ''نبی کریمؐ نے خود ریاست کی بنیاد رکھی مگر جان بوجھ کر جانشینی کے مسئلے پر کوئی واضح ہدایت دینے سے گریز کیا، کیونکہ نبی کریمؐ کا ہر لفظ قانون اور حرفِ آخر مانا جاتا ہے۔

اگر آپؐ اپنے خاندان میں سے کسی کو جانشین مقرر کرتے تو اسلام کے سیاسی نظام کو ملوکیت قرار دیا جاتا۔ حضورؐ کی خاموشی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو وہ ''لچک'' یا اختیار دے دیا ہے جس کے تحت وہ اپنے اپنے حالات اور وقت کے مطابق نظامِ حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔'' مصنف نے اس ''لچک''کو اسلام میں جمہوری میگنا کارٹا کا نام دیا ہے۔

ڈاکٹر حمیداللہ کے علاوہ مصنف نے معروف مصری اسکالر اور قانون دان جلال الدین السیوطی کی کتاب ''تاریخ الخلفائ''کا بھی حوالہ دیا ہے۔ سیوطی نے بہت سی احادیث کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ حضرت محمدﷺ نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا اور یہ مسئلہ امت پر چھوڑدیا۔ مصنف کی یہ بات درست ہے کہ ریاستِ مدینہ میں قبائلی طرز کا ایک نظامِ حکومت تو تھا مگر مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ جیسے منظم ادارے وجود میں نہیں آئے تھے۔

حضورؐ کے وصال کے بعد مسلمانوں کو سب سے پہلے جانشینی کا مسئلہ درپیش آیا۔ اس ضمن میں ثقیفہ بنی ساعدہ میں ہونے والی میٹنگ کو مصنف نے ایک جمہوری کنوینشن اور وہاں انصار اور مہاجرین کے اکابرین کے درمیان ہونے والے مکالمے اور تقاریر کو ایک جمہوری مباحثہ (democratic debate) قرار دیا ہے۔ مصنف کے بقول اس کنونشن میں وامرھبر شورٰی بینھم کے قرآنی حکم کے تحت یہ طے پاگیا کہ امیرالمومنین کی تعیناتی سمیت تمام امور مشاورت سے طے ہوں گے اور یہی جمہوریت کی روح ہے۔

علامہ شبلی نعمانی نے جانشینی کے بارے میں تین مختلف نقطۂ نظر رکھنے والوں کو تین سیاسی گروپ قرار دیا ہے۔ محمد حسین ہیکل کا کہنا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کا انتخاب ووٹنگ کے ذریعے ہوا۔ سید امیر علی نے اس کارروائی کو الیکشن قرار دیا ہے۔

علامہ اسلم جیراج پوری نے تین گروپوں کو تین سیاسی پارٹیاں قرار دیا ہے، مگر خود مصنف نے درست کہا ہے کہ ''ان تین مختلف نقطہ نظر کے حامل گروپوں کو سیاسی پارٹیاں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (کیونکہ ایک ہی پارٹی اور ایک ہی سیاسی اور نظریاتی گروپ میں مختلف لوگ قیادت کے لیے مختلف افراد کے حامی ہوسکتے ہیں) مگر ثقیفہ بنی ساعدہ میں ہونے والی کارروائی نے مستقبل میں پارٹیوں کی تشکیل کے لیے بنیاد ضرور فراہم کر دی۔'' حضرت ابوبکرؓکے انتخاب کے بارے میں ایس ایم ظفر صاحب نے مختلف مصنّفین کا حوالہ دیا ہے جن کے بقول''حضرت ابوبکرؓ کو مسلما نوں نے ان کے بلند سماجی مرتبے اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے اپنا امیر اور قائد منتخب کیا تھا۔''

مصنف ایک ماہر وکیل کی طرح خلیفہ اول کے انتخاب کو جمہوری اصولوں کے مطابق قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب اُس وقت کے عرب کلچر کے مطابق الیکشن کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔ بیعت کے بعد حضرت ابوبکر نے مسجد نبوی میں جو تقریر کی تھی اس کے تاریخی الفاظ تاریخ کی ہر کتاب میں درج ہیں کہ ''اے لوگو! اگر چہ میں آپ میں سے بہترین نہیں ہوں مگر امیرالمومنین کی حیثیت سے مجھے آپ پر اختیار دیا گیا ہے۔

اگر میں صحیح عمل کروں تو میری مدد کرو اور اگر غلط راستے پر چل پڑوں تو مجھے روک دو۔'' مصنف نے خلیفہ اول کی تقریر کو جمہوری ملکوں میں منتخب حکمرانوں کے اس خطاب سے تشبیہہ دی ہے جو وہ پارلیمنٹ سے منتخب ہونے کے فوراً بعد کرتے ہیں۔

خلیفہ اول نے یہ کہہ کر کہ ''اگر میں اچھے عمل کروں تو میری مدد کرو، غلط کروں تو روک دو''اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کردیا ہے جو جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔ مصنف کے بقول خلیفۂ اؤل کے پہلے خطاب نے قانون کے سامنے برابری (equality before law) کا اصول بھی طے کردیا ہے اور پھر یہ کہہ کر کہ ''تم میں کمزور شخص میرے لیے اُس وقت تک طاقتور ہے جب تک کہ میں اس کا حق دلا نہ دوں اور تم میں سے طاقتور شخص کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے چھین نہ لوں۔''

خلیفہ اول نے بتادیا کہ شہریوں کے جان اور مال کی حفاظت کی ذمے داری ریاست کی ہوگی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ خلیفہ اول کے پہلے خطاب میں ریاست کی پالیسی کے نمایاں نقاط وہی ہیں جو کسی بھی جدید جمہوری ریاست میں ہوتے ہیں، حضرت ابوبکرؓ کے دور میں قانون کی حکمرانی تھی اور مال ودولت، سماجی مرتبے یا جسمانی ومالی طاقت کی بناء پر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا تھا۔

خلیفہ اول کی حکومت بادشاہت نہیں تھی، یہ عوامی مشاورت سے قائم کی گئی تھی، پھر یہ اُصول بھی طے کردیا گیا کہ خلیفہ کوئی پرائیویٹ بزنس نہیں کرسکتا کیونکہ اگر حاکمِ وقت دکان چلائے گا تو دوسروں کی دکانیں بند ہوجائیں گی۔ آج مہذب ملکوں میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ حکومتی ایوانوں میں clash of interest نہ ہونے پائیں۔ اس کے بعد مصنف خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کے انتخاب کو بھی جمہوریت کے مطابق قرار دیتے ہیں۔

کتاب میں ان تاریخی واقعات کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ کس طرح خلیفہ اول نے مرض الموت کے دوران جید صحابہ کو علیحدہ علیحدہ بلا کر اپنے جانشین کے بارے میں ان کی رائے طلب کی۔ تبادلۂ خیال کے دوران خلیفہ اول نے خود بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''میرے خیال میں امت مسلمہ کی قیادت کے لیے سب سے موزوں عمرؓ بن خطاب ہیں''۔

ایک دو صحابہؓ نے حضرت عمرؓ کی سخت اور جلالی طبیعت کی وجہ سے تخفظات کا اظہار کیا مگر واضح اکثریت نے صدقِ دل سے یہ کہا کہ ''بلاشبہ اس وقت حضرت عمرؓ بن خطاب مسلمانوں کی قیادت کے لیے وہی سب سے موزوں ہیں'' اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے مسلمانوں سے اپنے آخری خطاب میں جو وصیت کی تھی، اس میں انھوں نے حضرت عمر ؓ کو سب سے افضل اور موزوں قرار دیاتھا، مگر مسلم اسکالرز کے بقول حضرت ابوبکرؓ کی وصیت حکم نہیں تجویز (Nomination یا Proposal)تھی اور اسے حتمی فیصلہ نہیںبلکہ سفارش ہی سمجھا جانا چاہیے۔

مسلمانوں کااتفاق اور اجماع اگر کسی اور شخص پر ہوتا تو خلافت کا حقدار وہ قرار پاتا۔ اس ضمن میں مصنف نے کئی جید اسکالرز کے حوالے دیے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں''مسلمان، خلیفہ اول کی سفارش کے پابند نہیں تھے وہ اس تجویز اور سفارش کے علاوہ بھی کسی اور کو خلیفہ منتخب کرسکتے تھے، مگر مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ کی تجویز قبول کر کے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا۔''

مصنف نے مولانا مودودیؒ کا بھی حوالہ دیا ہے جنھوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ''خلافت وملوکیت'' میں لکھا ہے کہ '' خلیفہ کا عہدہ ایک انتخابی عہدہ ہے۔ جس پر مشاورت اور لوگوں کی رائے سے ہی تقرری ہوسکتی ہے۔'' مولانا عبدالوحید خان نے اس انتخاب کو ریفرنڈم قرار دیا ہے،جس میں مسلمانوں نے حضرت عمرؓ کے حق میں اپنی آزادانہ رائے دی۔ ڈاکٹر طحہٰ حسین نے لکھا ہے کہ حضرت عمر کے حق میں خلیفہ اول کی سفارش mandatory یا binding نہیں تھی یعنی مسلمانوں پر اس کی پابندی لازم نہیں تھی۔

مصنف نے خلیفۂ دوم کے انتخاب کو آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 41 کے مطابق قرار دیا ہے۔ پہلے دونوں خلفاء نے اپنے اولین خطابات میں وہ اصول طے کردیے جو ہمیں موجودہ دور کے جمہوری نظام میں نظر آتے ہیں۔ یہاں مصنف نے حضرت عمرؓ کا وہ قول درج کیا ہے کہ '' مشاورت کے بغیر خلافت جائز ہی نہیں ہے۔''

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔