متّقین کے اعزاز و اکرام اور انعام کا دن
صرف خود ہی خوش نہ ہو ں بل کہ اس خوشی میں اپنے دینی بھائیوں کو بھی شریک کریں
اﷲ نے اپنے حبیبؐ کو سارے عالم کے لیے بہترین نمونہ بنایا تو ہم پر لازم ہے کہ اﷲ کی عبادت اس طرح کریں جس طرح اس کے حبیبؐ نے کی اور اپنی زندگی اس انداز پر گزاریں، جیسے حضور بنی کریم ﷺ نے گزاری تو ہم بھی اﷲ تعالیٰ کے محبوب بن جائیں گے۔
ہم نہایت مسرت کے ساتھ عیدالفطر پر آپ کو قلب کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ ہم سب کے روزے تراویح اور دیگر عبادات کو قبول فرمائے اور اپنے انعام یافتہ بندوں میں شامل فرمائے۔ مسلمانوں کے لیے عظیم نعمت اﷲتعالیٰ کی کتاب ہے جسے قرآن مجید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں خود بار ی تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن پاک نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت اور راہ نمائی اور فیصلے کی روشن باتیں رکھتا ہے ۔ رمضان المبارک کے شب و روز قرآن مجید کے نزول کے سبب مقدس قرار پائے۔
ان شب و روز سے برکتیں حاصل کرنے کے لیے ہمیں رمضان کو دن میں روزہ رکھنے اور رات کو تراویح پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ آج عیدالفطر کے دن اسی نعمت خداوندی کے حاصل ہونے کی خوشی منانے کا دن ہے آج یوم تشکر ہے، آج کے دن اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھنے والے بندگان ِ خدا اپنے گھر بار چھوڑ کر خانہ ٔ خدا میں جمع ہوگئے ہیں تاکہ نعمتوں کے عطا کرنے والے منعم حقیقی کا شکریہ ادا کرسکیں۔
آج عید کا دن ہے، اسلامی خوشیوں کا دن۔ احادیث مبارک میں آیا ہے کہ جب بندہ خدا کی رحمت سے پُرامید ہوکر اپنے گھر سے عید گاہ کی جانب اﷲ کی تکبیر کہتا ہوا رواں دواں ہوتا ہے تو فرشتے اس کا استقبال کرتے ہیں اور اس پر رحمتوں کی بارش برساتے ہیں۔ اس وقت ہاتف ِ غیب سے آواز آتی ہے کہ میرے بندے کو اس کا پورا اجر ملے گا۔ عیدالفطر کے دن حضور اکرم ﷺ کچھ کھا کر عیدگاہ تشریف لے جاتے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ عیدالفطر کی نما ز کو چند کھجوریں کھا کر تشریف لے جاتے اور وہ طاق ہوتی تھیں۔ ترمذی و دارمی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی کہ حضور ﷺ عید کی نماز کوایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے سے واپس ہوتے۔
ابن عباس ؓ سے مروی کہ حضور ﷺ نے عید کی نماز دو رکعت پڑھی، نہ اس سے قبل نماز پڑھی نہ اُس کے بعد۔ مسلمانوں کے عید کے دن کی خوشیوں کی ابتدا جہاں ایک طرف بارگاہ ِ الٰہی میں چھے تکبیروں کے ساتھ سجدہ شکر بجا لانے سے ہوتی ہے وہاں اپنے مال کی قربانی بہ صورت صدقۃ فطر دینے سے ہوتی ہے۔ ان تعلیمات کا لب ِ لباب یہ ہے کہ ہم اﷲ کو نہ بھولیں اور اسی پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھاتے رہیں۔
اس موڑ پر آپ کو خطرے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہوشیار! آپ نے رمضان سے جو خیر و برکت حاصل کی ہے، اس کی حفاظت کریں جس طرح مادی اشیاء کے چور ہر وقت مادی چیزوں کو چوری کرنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں، بالکل اسی طرح نفس و شیطان وہ چور ہیں جو روحانی خزائن کی چوری کرنے کی فکر میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔
آج عید کا دن ہے۔ آج آپ روحانی خزانوں کو کما کر بے حد مسرور ہیں۔ اﷲتعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اﷲتعالیٰ کی جانب سے مغفرت کی ہوائیں چل رہی ہیں۔
ایسے میں شیطان کی پُرفریب چالوں میں آنے سے ہوشیار رہیں۔ ان ریاضتوں کی حفاظت کریں جو رمضان المبارک کے روز آپ نے کیے۔
اس سبق کو فراموش نہ کریں جو ابھی حاصل ہیں جس میں رمضان کے روحانی معاہدے کے دوران آپ کو یاد کرایا گیا تھا کہ دن میں روزوں کے تقدس کو بحال رکھنے کے لیے اپنے نفس کو جائز اور قانونی خواہشات سے بھی روکا اور رات کو اپنی نیند اور آرام کو قربان کیا اور اب آپ کو پہلے سے بھی کہیں زیادہ ناجائز کاموں سے بچنا ہے بل کہ ہر اس عمل سے پرہیز کرنا ہے، جس میں شیطانی عمل ذرّہ برابر بھی دخل ہو رمضان میں آپ نے معمول سے زیادہ عبادت کی ہے اب بھی خدا کی یا د کو دل سے نکلنے نہیں دینا۔
اسلام نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ معاشرے کے مفلس و نادار لوگوں کے ساتھ اچھا سلو ک کریں اور ان کی دیکھ بھال کریں۔
چناں چہ اس مسرت و شادمانی کے موقع پر جب کہ مسلمان حقوق اﷲ کی ادائیگی کا عظیم مظاہر ہ کرچکے ہیں انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ حقوق العباد سے غافل نہ ہو ں، صرف خود ہی خوش نہ ہو ں بل کہ اس خوشی میں اپنے دینی بھائیوں کو بھی شریک کریں۔ ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فطرہ مقرر فرمایا کہ لغو اور بیہودہ کلام سے روزہ کی طہارت اور مساکین کے کھانے پینے کا انتظام ہو جائے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بندے کا روزہ آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب کہ وہ صدقہ فطر ادا نہ کرے۔ عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہو جا تا ہے، مسنون یہ ہے کہ نماز عید سے قبل ادا کردیا جائے لہٰذا اگر مسجد میں پہنچ کر نماز سے قبل بھی ادا کردیا جائے تب بھی مسنون طریقے پر عمل ہوگا۔
اے بلند و بالا عالی شان مکانات و محلات میں رہنے والو! اے نرم و نازک بستروں میں آرام کرنے والو، بڑی اور قیمتی گاڑیوں میں گھومنے والو، تھوڑی دیر کے لیے ذرا اپنے ان مفلس و لاچار بہن بھائیوں کے بارے میں سوچو جنہیں دو وقت کا کھا نا نصیب نہیں اور جن کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا تک نہیں۔
اے زرق برق دیدہ زیب اے فیشن ایبل کپڑے پہنے والو اور اپنے گھرکی مردہ زمین کی آرائش و زیبائش کرنے والو، یاد رکھو! تمہارے قیمتی لباس اور تمہاری یہ عیاشیاں تمہیں اس وقت تک کوئی اعزاز و اکرام نہیں عطا کریں گی جب تک کہ تمہاری آئندہ آنے والی نسلیں اس تعلیم سے آراستہ نہیں ہوجاتیں، جو دنیا اور آخرت میں اعزاز کا سبب بنیں گی تمہیں صرف اسی صورت میں محترم تصور کیا جائے گا جب کہ تم ساری قوم کو قابل احترام بنا دو اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ جب تمہاری قوم کے پاس ایمان، علم اور عمل صالح جیسی نعمت ہوگی۔
خدارا حالات کو نزاکت محسوس کیجیے آپ دین کی حفاظت کیجیے اس لیے کہ بہ حیثیت ایک قوم کے اسی پر آپ کی ترقی کا دار و مدار ہے، اﷲ تعالیٰ آپ کو بصارت اور بصیرت عطا کرے، تاکہ آپ دیکھ سکیں اور سوچ سکیں۔ ایمان کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو مستجاب فرمائے۔ آمین۔
(نوٹ: مضمون کی تیاری میں علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی کے فرمودات سے استفادہ کیا گیا ہے)